تقریر

لارڈ مئیر کی ضیافت میں وزیراعظم کی تقریر 14نومبر2016ء

ٹریزا مے نے اپنے اس منصوبے کی وضاحت کی جو انہوں نے منقلب شدہ دنیا میں برطانیہ کی قیادت کے لئے انہوں نے تیار کیا ہے ، اس کی مختصر جھلکیاں.

PM Theresa May laid out her plan for how Britain can lead in the transformed modern world during her speech to the Lord Mayor's Banquet

آج جب ہم مل رہے ہیں تو دنیا بدل چکی ہے۔ ایک سال پہلے ہم میں سے چند ہی آئندہ واقعات کی پیش گوئی کرسکتے تھے۔

یورپی یونین سے رخصت ہونے اور اپنے لئے دنیا میں جراتمندانہ، نئے اورپراعتماد مستقبل بنانے کاواضح اورپرعزم فیصلہ اور یقینا امریکا کے نئے منتخب صدرجنہوں نے تمام پولز اور پنڈتوں کوانتخابات کے دن تک مات دی۔

تبدیلی فضامیں ہے۔ اور جب عوام تبدیلی مانگتے ہیں تو سیاستدانوں کاکام ہے کہ اس پرجوابی قدم اٹھائیں۔

لیکن یہ ان تمام لوگوں کا بھی کام ہے جو اثراورطاقت رکھتے ہیں، سیاستداں، کاروباری رہنمااوردوسرے کہ وہ ان مطالبات کے محرکات کو سمجھیں۔

اور اگر ہم ایک قدم پیچھے ہٹ کر دنیا پر نظر ڈالیں، تو ایک سب سے اہم محرک واضح ہوجاتا ہے- لبرل ازم اورعالمگیریت کی قوتیں جو برطانیہ، امریکا اورمغربی دنیا میں کئی برس سے پر اثر ہیں انہوں نے کئی لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

آئیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ان قوتوں نے اب تک اوراب بھی مسلسل ہماری دنیا پر مثبت اثر ڈالے رکھا ہے۔

لبرل ازم اورعالمگیریت نے بےمثال دولت اورمواقع فراہم کئے ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کوغربت سے نکالا ہے۔ انہوں نے قوموں کو قریب کیا ہے، رکاوٹیں دور کی ہیں اورمعیار زندگی بہتر بنایا اور صارفین کے لئےمواقع میں اضافہ کیا ہے۔

لیکن ہم اس بات سے انکارنہیں کرسکتے جیسا کہ آپ بھی سمجھتے ہیں، کہ گزشتہ برسوں میں عالمگیریت کا تاریک رخ بھی سامنے آیا ہےاورجسے ہم نے عالمگیریت کو تمام بیماریوں کا علاج گردان کےاس کے فروغ کی دھن میں اس کا ان پر اثراکثر نظر اندازکردیا جو اسے مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔

یہ لوگ جو اکثرمتوسط یا کم آمدنی کے حامل ہیں اور ہمارے جیسے مالدار ملکوں میں رہتے ہیں، اپنے روزگارکو بیرون ملک منتقل ہوتے اور تنخواہوں میں کٹوتی ہوتے دیکھتے ہیں۔ انہیں اپنی کمیونٹیز میں تبدیلیاں نظر آتی ہیں اور وہ خود کو ان تبدیلیوں سے اتفاق کرتا نہیں پاتے۔

وہ ایک نئی عالمی اشرافیہ کوابھرتادیکھتے ہیں جو ایک نئے ضابطے کے تحت زندگی بسر کررہی ہے اوران کی زندگی کے اطوار خود ان کے اپنے روزمرہ سے ذرابھی مماثلت نہیں رکھتے۔ اورعالمگیریت سے مستفید ہونے والوں اوران کے درمیان جو خود کو ناکام سمجھتے ہیں، تناواوراختلافات سوشل میڈیا کے فروغ کے بعد سے مزید ابھر آئے ہیں۔

لہذا اگر ہمیں لبرل ازم اور عالمگیریت کو لے کے چلنا ہے توہمیں ان خدشات پرضرورتوجہ دینا ہوگی۔

کیونکہ جب ہم یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ عالمگیریت نےموجودہ شکل میں کئی لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، تو آپ اس کی نشوونما کی بجائے اس کی بربادی کے بیج بو رہے ہیں۔

جب آپ یہ دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ لبرل ازم نے متعدد افراد کو متاثر نہیں کیاتو آپ لبرل ازم کے چیمپئن نہیں بلکہ اس کے دشمن ہیں۔

جب آپ عام آدمی کے حقیقی اور دل کی گہرائیوں سے نکلے خدشات مسترد کردیتے ہیں خواہ اپنے ملک میں یا بیرون ملک توآپ اپنے دنیاوی نظرئیے کا دفاع نہیں کررہے بلکہ اسے کمزورکررہے ہیں۔

قیادت کی اصلی نشانی یہ ہے کہ وہ لمحہ موجودہ سے مطابقت پیدا کرے اپنی سوچ کو بلند کرے اور آئندہ آنے والے مواقع پر گرفت کرلے۔

ہمیں آج اسی قیادت کی ضرورت ہے۔ اور میرا ماننا ہے کہ یہ برطانیہ کے لئے یہ قیادت فراہم کرنے کاتاریخی اورعالمی موقع ہے۔

لہذا تبدیلی کےاس مرحلے پرہمیں پرسکون، پرعزم عالمی قیادت کے ذریعے عالمگیریت کے نئے دور کی تشکیل کرنا ہے جو واقعی سب کے لئے ہو۔

ہمیں ایسا کرنے کی اپنی اہلیت پر اعتماد ہونا چاہئِے۔

کیونکہ برطانوی قیادت پہلے ہی ان عالمی مسائل کے باب میں مرکزی کردارادا کررہی ہے جو ہماری سلامتی اورخوشحالی کومتاثرکرتے ہیں۔ انہوں نے عالمی تجارت اور کاروباری مواقع کو بڑھانے کی اہمیت بھی واضح کی۔

یہ برطانیہ ہے جوعالمی دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں صف اول میں ہے، سرحدوں کے آرپار دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو منتشرکرنے تاکہ انہیں اپنی کارروائیوں کے لئے رقم فراہم کرنےاور بھرتی کرنے سے روکا جاسکے اورجس نے ابھی دو ماہ پہلے ہی فضائی سلامتی پراقوام متحدہ سلامتی کونسل کی پہلی قراردادمنظور کروائی ہے۔

برطانیہ ہی جدید طرزغلامی کے جال کوہرمقام پر توڑنےکے لئے عالمی جدوجہد کی قیادت کررہا ہے۔

گاہے گاہے برطانوی قیادت ہمارے عہد کے بدترین مسائل کے باب میں عالمی کارروائی کی صف اول میں ہوتی ہے۔

لہذا آج یہاں میں پورے اعتماد سے کہہ رہی ہوں کہ ان نئے مسائل کا سامنا کرنے میں ایک بار پھر برطانیہ قیادت کرسکتا ہے۔

آئیے اس لمحے کو اپنی گرفت میں لے لیں ۔ اوریہ کام ہم آپ مل جل کر کریں۔

شائع کردہ 14 November 2016