پریس ریلیز

برطانیہ اور بھارت کی حکومتوں کا مشترکہ اعلامیہ

وزیرعظم ٹریزا مے اور وزیراعظم نریندرمودی نے بھارت-برطانیہ تزویری اشتراک کے لئے ایک جراتمندانہ وژن مرتب کیا ہے.

وزیراعظم ٹریزا مےنے 6 تا8 نومبر 2016ء وزیراعظم نریندرمودی کی دعوت پر بھارت کا دورہ کیا ہے

دونوں وزراءاعظم نے ایک ہم عصری اورعالمی اشتراک کے لئے مل کر کام کرنے پر زور دیا تاکہ دونوں ملکوں میں امن، سلامتی،اورخوشحالی کو فروغ دیا جاسکے اوروہ دونوں ملک دنیا میں خیر کی قوت کے طور پرعمل کرسکیں۔

مشترکہ اعلامئے میں دہشت گردی، سلامتی، امن، کاروباراور تجارت کے فروغ، بھارت میں بنیادی ڈھانچے کی نمو کے لئے برطانیہ کے تعاون، اسمارٹ سٹیز اور شہری پیش رفت ، توانائی اورماحولیاتی تبدیلی، فکری ملکیت، دفاعی تعاون میں اضافے، سمندروں کی آزادی اورامور خارجہ اور دیگر امور پر تعاون کے بارے میں گفت و شنید کی۔ اس مشترکہ اعلامئے کے اہم نکات مختصرابیان کئے جارہے ہیں

دونوں ملک اپنے 2015ء کے دفاع اورعالمی سلامتی شراکت داری کوآگے بڑھاتے ہوئےاپنے تعاون کو عمیق تر کرتے رہیں گےجس میں دہشت گردی، بنیاد پرستی، پرتشدد انتہا پسندی اورسائبر سلامتی کی روک تھام شامل ہے

ہم مشترکہ طورپر دفاع اورسلامتی میں ان شعبوں کا تعین کریں گے جن سے تشکیل، عملی مشق ، تربیت اور باہمی تعاون کے باب میں مستقبل کے ہمارے عزائم واضح ہوتے ہیں۔اورہم کئی قسم کےعالمی پالیسی سلامتی چیلنجز کے بارے میں مشاورت اور رابطہ جاری رکھیں گےجو ہمارے ایک مزید محفوظ دنیا کے مشترکہ ہدف کے حصول کے لئے ہے

پیشرفت، تجارت اورکاروبارمشترکہ طور پر

دونوں وزراءاعظم نے برطانیہ - بھارت کے تجارتی تعلقات پر بطورخاص غور کیااوربھارت اور برطانیہ کے کاروبار سے کاروبار کے درمیان پھلتے پھولتے ہوئے تعلقات کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ بھارت میں تیسرا سب سے بڑا سرمایہ کار برطانیہ ہے اور دوسرا سب سے بڑا بین الاقوامی روزگار فراہم کرنے والا ہے، بھارتی کمپنیوں نے برطانیہ میں روزگار کے ایک لاکھ دس ہزارمواقع پیدا کئے ہیں۔ دونوں سربراہان نےدوطرفہ مالیاتی تعاون کی سطح پر خوشی کا اظہار کیااوردونوں جانب سے سرمایہ کار برادری کی مزید شرکت کے لئے زور دیاتاکہ بھارتی اور برطانوی نمو بڑھ سکے.

دونوں وزراءاعظم نے ان تجارتی معاہدوں کی کثیرتعدادکا خیر مقدم کیا جو اس دورے میں وسیع شعبوں کے باب میں مکمل کی گئی ہیں، جیسے آئی سی ٹی کمپنیاں،لازمی انجینئیرنگ اور طبی دیکھ بھال کی مصنوعات کے شعبے.

انہوں نے حکومت اورکاروباروں کے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اہمیت کو سراہا۔ انہوں نے اتفاق کیا کہ جب برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے گا تووہ قریب ترین ممکنہ تجارتی اور معاشی تعلقات کو دونوں ملکوں کے لئے ترجیحی امربنائیں گے۔ اس باب میں نیا تشکیل شدہ مشترکہ ورکنگ گروپ جو جیٹکو کو رپورٹ کرتا ہے، ہمارے تجارتی تعلقات کی تفصیل کے بارے میں بات چیت کرے گا اور پیش رفت کے محرک میں مدد دے گا۔

بھارت کے بنیادی ڈھانچےکی ترقی میں مالی تعاون

دونوں وزراءاعظم نےبھارتی بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے لئے برطانیہ اور بھارت کے درمیان اشتراک کو مزید گہرا کرنے کی رفتار کو تیز ترکرنے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت کے قومی پروگراموں میں شاندار مواقع سے وزیریعظم ٹریزا مے کو آگاہ کیا جن میں بھارت میں بنائِے، ڈیجیٹل بھارت، بھارتی مہارت اور اسمارٹ شہر برطانوی کمپنیوں کوبھارت کی ترقی کی کہانی میں سرمایہ کاری اور شراکت کے مواقع فراہم کرتے ہیں.

اسمارٹ شہراورشہری ترقی

دونوں وزراءاعظم نے تین شہروں کی اس شراکت داری کو یاد کیاجس پو لندن میں نومبر 2015ءمیں اتفاق کیا گیا تھااوراس کی پیش رفت کو سراہا۔ انہوں اسے مزید آگے بڑھانے کے لئے مزید تزویری اور پر عزمشہری شراکت داری پر اتفاق کیا جو حکومتوں کاروباروں، سرمایہ کاروں اورشہری ماہرین کو اسمارٹ تر، مزید مشمولی،شہروں کی تعمیر کے لئے قریب لائے گی جن سے بھارت اور برطانیہ میں مشترکہ خوشحالی، روزگار اور ترقی کو تحریک ملتی ہے.

اسٹارٹ-اپ بھارت

وزیر اعظم ٹریزا مے نے اعلان کیا کہ برطانیہ 16 کرور پاونڈ سے زائد رقم 75 اسٹارٹ – اپ منصوبوں میں لگائے گا جن سے بھارت کی کئی ریاستوں میں روزگار اور لازمی خدمات فراہم ہوں گی۔ انہوں نے اسٹارٹ-اپ انڈیا وینچر کیپیٹل فنڈ کے لئےمزید 2 کرور پاونڈ کے اضافی تعاون کا اور 4 کرور پاونڈ کے سرمائے کی دوسرے سرمایہ کاروں کی جانب سے فراہمی کا اعلان کیا .

کاروبارمیں آسانی کی فراہمی

وزیر اعظم ٹریزا مے نے کاروبارمیں آسانی کی فراہمی میں بھارتی پیشرفت اور بھارتی پارلیمنٹ میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس بل کی منظوری کو سراہا۔ دونوں سربراہان نے برطانیہ اور بھارت کے درمیان کاروبارمیں آسانی کی فراہمی کے لئے مفاہمتی یادداشت کا خیر مقدم کیا جو برطانوی مہارت کو عالمی بنک کی کاروبارمیں آسانی کی فراہمی کے شعبےکی ریٹنگ میں بھارت کی اوپر جانے کی کوششوں میں مدد کا موقع دے گا.

فکری ملکیت

دونوں سربراہان نے فکری ملکیت پر مفاہمتی یادداشت پردستخط کا خیرمقدم کیاجس سے دونوں ملکوں میں اختراعات، تخلیق اور معاشی ترقی کوفروغ ملے گا.

توانائی اورماحولیاتی تبدیلی

محفوظ، سستی اور پائیدارتوانائی کی مشترکہ تزویری ترجیح پر دوطرفہ اشتراک کے اگلے مرحلے کو آگے بڑھانے کے لئے دونوں سربراہان نے مشاہدہ کیا کہ دونوں ملکوں میں ترقی کی شراکت کے لئے توانائی میں ضافہ ہوا ہے اور2017ء کے اوائل میں پہلی بھارت-برطانیہ توانائی سمٹ کے انعقاد کے فیصلے کا خیر مقدم کیا .

دونوں سربراہان نے زور دیا کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک مشترکہ مقصد ہے۔ انہوں نے کئی ممالک بشمول بھارت، کے پیرس معاہدے پر اتفاق کو سراہا جس کی وجہ سے اس کا نفاذ 4 نومبر 2016ء کوممکن ہوااوراس پرعملدرآمد کے لئے مل کر کام کرنے کا عہد کیا .

عالمی اشتراک

برطانیہ اور بھارت جمہوری اقدار، بین الاقوامی امن اور سلامتی اور قومی و بین الاقوامی خوشحالی کا مشترکہ کمٹمنٹ رکھتے ہیں۔ دونوں سربراہان نے ضابطوں پر مبنی بین الاقوامی نظام کی ضرورت کو دہرایاجو ان انقلابی تبدیلیوں کی روشنی کے مطابق اورازسرنو ڈھال سکے جو گزشتہ 70 سال میں رونما ہوچکی ہیں۔

وزیر اعظم ٹریزا مے نے برطانیہ کے اس کمٹمنٹ کی توثیق کی جو اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی اصلاح کے لئے اس نے کیا ہے جس میں بھارت ایک مستقل رکن ہو اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت کااقوام متحدہ نظام میں کردار بڑھ جائے۔ برطانیہ بھارت کی سلامتی کونسل کی رکنیت کے لئے مسلسل سرگرمی سے مدد کررہا ہے اس کی وجہ بھارت کا ایک قائد طاقت کا بڑھتا ہوا کرداراور بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لئےاس کی خدمات ہیں۔ اس ضمن میں رہنماوں نے اپنے متعلقہ افسران کوان تمام امور میں قریبی اور باقاعدہ مشاورت کی طرف متوجہ کیا جو اقوام متحدہ بشمول یواین دہشتگردعہدوں سے متعلق ہیں۔

دونوں وزراءاعظم نے اس ترجیح پر زور دیا جو وہ بین الاقوامی امن کی برقراری کو دیتے ہیں جہاں بھارت فوجیوں کا دوسرا بڑا فراہم کنندہ ہے اور برطانیہ دنیا میں چھٹا بڑا مالی تعاون کنندہ ہے۔

برطانیہ نے بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول پینل میں شمولیت کا خیرمقدم کیاجس سے عالمی عدم پھیلاو کا مقصد مستحکم ہوگا اور وہ بدستور نیوکلئیر سپلائرز گروپ میں بھارت کی جلد رکنیت اور دیگر کلیدی برآمدی کنٹرول اداروں میں رکنیت کا مضبوط حامی رہے گا۔

دہشت گردی سے جنگ اور عالمی سلامتی چیلنجز کے خلاف کارروائی

وزیراعظم ٹریزامےنے اڑی میں ستمبر میں بھارتی آرمی ہیڈکوارٹرز پر دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی اور اس کے شکار افراد اور ان کے اہل خاندان سے اظہار افسوس کیا.

دونوں رہنماوں نےدہشت گردی کے انسانیت کے لئے ایک سنگین خطرہ ہونے کی توثیق کی۔انہوں نے دہشت گردی اور اس کی تمام اقسام اور اشکال کے خاف جنگ کے مستحکم کمٹ منٹ کودہرایا اور زوردیا کہ دہشت گردی کاکسی بھی صورت میں کوئی جواز نہیں اوراتفاق کیاکہ دہشت گردی کو ذرہ بھر برداشت نہیں کیا جانا چاہئیے.

بھارت اوربرطانیہ دونوں نے دہشت گردی کی انسانی قیمت اداکی ہےاوراب اس خطرے سےنمٹنے کے لئے اشتراک سے کام کررہے ہیں جو دہشت گردی اور پرتشدد انتہاپسندی سے لاحق ہے۔ ہمارے دونوں ملک دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے بین القومی چیلنج کو سمجھتے ہیں جو کثیر الجہتی اوراس کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تعاون کا تقاضا کرتا ہے.

دہشت گردی کی روک تھام کے لئےبین الاقوامی تعاون کا مرکزی نکتہ دہشت گردوں کو وہ گنجائش نہ دینا ہے جس میں وہ وہ بنیاد پرستی پر راغب، بھرتی اور حملے کرسکیں ۔ دونوں رہنماوں نے دوطرفہ انسداد دہشت گردی تعاون کے جاری رہنے کا خیر مقدم کیا اور دونوں جانب سے معلومات کے مزید اشتراک پر زور دیا.

دونوں ملکوں نےپرتشدد انتہا پسندوں کے انٹرنیٹ کے استعمال کے خطرات کو کم کرنے کے لئے تعاون پراتفاق کیا جس میں بنیاد پرستی اور آن لائن بھرتی کی کوششوں میں کمی کے لئےبیسٹ پریکٹس کا اشتراک شامل ہے۔

دونوں وزراءاعظم نے توثیق کی کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کو محض دہشت گردوں ، دہشت گرد تنظیموں اور نیٹ ورکس کو منتشر کرنے اورانصاف کے کٹہرے میں لانے تک محدود نہیں رکھنا چاہئیے بلکہ ان تمام عناصر کی شناخت، ان کا احتساب اور ان کے خلاف سخت اقدام کرنا چاہئِے جو دہشت گردی کی حوصلہ ، مدد اور مالی مدد کرتے ہیں ، دہشت گردوں، ان کے گروہوں کو پناہ فراہم کرتے اوران کی جھوٹی تعریف کرتے ہیں.

دہشت گردوں کوکوئی عظیم مقام دینےکی کوئی کوشش نہیں ہونا چاہئیےنہ اچھے اور برے دہشت گردوں کی اصطلاح استعمال ہونا چاہئیے۔ انہوں نے اتفاق کیا کہ جنوبی ایشیا کو مستحکم، خوشحال اور دہشت سے محفوظ ہونا چاہئیےاور تمام ملکوں کو اس ہدف کے حصول کے لئے کام کرنا چاہئیے.

دونوں رہنماوں نے پاکستان سے یہ مطالبہ دہرایا کہ وہ نومبر 2008ء میں ممبئی اور 2016ء کے پٹھانکوٹ حملے کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے تک لائے.

دفاعی اشتراک میں اضافہ

دونوں ملکوں نے دفاع و بین الاقوامی سلامتی اشتراک کو آگے بڑھاتے ہوئے جس پرنومبر 2015ءمیں اتفاق ہوا تھادفاع میں اپنے تزویری اشتراک کو مستحکم ترکرنے کا کمٹ منٹ کیا ہے.

سائبر تعاون

برطانیہ اور بھارت ایک آزاد، کھلی ، پرامن اورمحفوظ سائبر اسپیس کے لئے بدستور کمٹ منٹ رکھتے ہیں۔برطانیہ اور بھارت انٹرنیٹ گورننس کےملٹی اسٹیک ہولڈرماڈل سے تعاون کے لئےمل کر کام کریں گے۔ برطنیہ نریندر مودی کے ڈیجیٹل بھارت کے وژن سے بھرپور تعاون کرتا ہے۔

بین الاقوامی امور

دونوں وزرااعظم نے بھارت کے بڑھتے ہوئےعالمی کردار کو تسلیم کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے بھارت کے جنوبی ایشیا میں امن اوراستحکام کی تشکیل میں تعمیری کردار کا اعتراف کیا جس میں افغانستان میں اس کا وسیع ترقیاتی تعاون شامل ہے .

اس ضمن میں انہوں نے افغانستان میں دہشت گردی کے مسلسل خطرےکےخلاف افغان سیکیورٹی فورسزکی کوششوں میں تعاون کا اظہار کیا۔ ایک محفوظ اورمستحکم افغانستان خطے کے امن اورخوشحالی میں مدد دےگا، اس کو مانتے ہوئے انہوں نےاتفاق کیا کہ افغانستان میں ایک سیاسی سمجھوتے کوافغانستان کا اپنا اورافغان قیادت کے تحت ہونا چاہئیے اوروہ اسی صورت میں کامیاب ہوگا اگر شوریدہ طالبان تشدد ترک کرکے جمہوری اصول اپنالیں.

انہوں نے افغانستان کے لئےبرسلز کانفرنس کے موقع پر برطانیہ، بھارت اوربین الاقوامی برادری کے تعاون کے عہد کا خیر مقدم کیا اورافغان حکومت کو اس کے پر عزم اصلاحی پروگرام پر عملدرآمد میں مدد دینے کے لئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ برطانیہ نے بھارت کوافغانستان پرہارٹ آف ایشیا استنبول پراسیس کی امرتسرمیں 4 دسمبر 2016ء کو ہونے والی چھٹی وزارتی میٹنگ کے لئے تعاون کی پیش کش کی.

شائع کردہ 7 November 2016