تقریر

نیٹو پارلیمانی اسمبلی میں سکریٹری خارجہ کی تقریر

سکریٹری خارجہ نے نیٹو پارلیمانی اسمبلی سے 2 ستمبر 2014ء کو خطاب کیا۔اس کے چند اقتباسات.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
317 Ko

میں آپ سب کو وزارت خارجہ و دولت مشترکہ میں خوش آمدید کہتا ہوں امید ہے کہ آج کا دن دلچسپ اورپیداواری ہوگا.

جوں جوں نیٹو سربراہی اجلاس قریب آرہا ہے، ہماری مجموعی سلامتی کو لاحق خطرات کی سطح اوروسعت، شام اورعراق میں آئی ایس آئی ایل جیسی وحشیانہ اسلامی دہشت گردی تنظیم کے عروج اور شمالی و مغربی افریقہ میں جنگجویانہ اسلام پسندی سے لے کر مشرقی یورپ میں روسی جارحیت ایسی ہوگئی ہے کہ ان سے نمٹنے کے لئے پراستقامت اورمربوط سیاسی عزم کی ضرورت ہوگی اور یہ نہ صرف حکومتوں کے لئے بلکہ پارلیمانوں، پارلیمانی رہنماؤں، قانون سازوں اوربلا شبہ عوام کے لئے بھی ایک چیلنج ہے.

برطانیہ میں 1990 ء کے نیٹو سربراہی اجلاس کی طرح یہ اجلاس بھی ہمارے اس اتحاد کے ایک انقلابی موڑ پر ہورہا ہے۔ وہ اجلاس سرد جنگ کے خاتمے اورایک نئے عہد کے آغازپر ہوا تھا جب نیٹو نے آہنی پردے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھااورمشرقی یورپ کی نوزائیدہ جمہوریتوں کی مدد اورانہیں گلے لگا کرزبردست کردار ادا کیاتھا.

یہ سربراہی اجلاس حالیہ دہائیوں میں نیٹو کے سب سے زیادہ وسیع اورجانفشانی سے لڑے گئے مشن یعنی افغانستان لڑاکا مشن کے خاتمے کا اشارہ ہے.

اور 1990ء اجلاس کی طرح اسے بھی نیٹو کے لئے نئی صبح کا آغاز ہونا چاہئیے تاکہ اپنی اصلاح کے بعد ان کئی خطرات اور بڑھتے ہوئے عدم استحکام سے نمٹنے کے لئے توجہ مرکوز کر سکے جو ہمیں نیٹو کی جنوبی اورمشرقی سرحد، مغربی افریقہ سے قطب شمالی تک کے نصف دائرے میں آج درپیش ہیں.

میں افغانستان میں آئیساف مشن کے خاتمے سے آغاز کرتا ہوں.

ایک عشرے سے زائدکی عسکری کارروائیوں کے بعد جس میں آئیساف کے ہزاروں افراد نے جانیں دیں، ویلز سربراہی اجلاس نیٹو کی تاریخ میں ایک اہم لمحے کی نشاندہی کرتا ہے.

القاعدہ کو نکالنے، مقامی سیکیورٹی فورسز کی تشکیل اور افغانستان کے اداروں،معیشت اورشہری معاشرے کی معاونت کے لئے ‘‘خون اور وسائل’’ صرف کرنےکے بعدہمیں اس سربراہی اجلاس کو وہاں حاصل ہونے والی کامیابیوں، سیکھے جانے والے اسباق اوریہ یقینی بنانے پر غور کرنے کے لئے ضرور استعمال کرنا چاہئیے کہ ہم مل کر آنے والے برسوں میں اس پیش رفت کو برقرار رکھ سکیں.

آج افغانستان مکمل تو نہیں ہے اوراس کی کبھی توقع بھی نہیں کی گئی.

لیکن آئیساف فورسز، ان کے شہری عملے اورخود افغانوں کے حوصلے کی بدولت افغانستان، 11ستمبرکی منصوبہ بندی کرنے والے بن لادن اورالقاعدہ دہشت گردوں کا گڑھ بننے سے اب تک بہت دورآچکا ہے.

اہم ترین بات یہ ہے کہ افغان اب اپنی سلامتی کی ذمے داری خود سنبھال رہے ہیں.

جب آئیساف تشکیل دی گئی تو 350000 نفری پرمشتمل افغان نیشنل سیکیورٹی فورسزکاوجود ہی نہیں تھا.

لیکن اب وہ کارروائیوں کی قیادت، افغان عوام اورعوامی مراکزکا تحفظ اور شورشوں سے نمٹنے میں مصروف ہے.

ان کی افادیت بڑھ رہی ہے اورانہوں نے ( کچھ عناصرکی توقعات کے برعکس) حالیہ صدارتی انتخابات کے دونوں مرحلوں میں آئیساف کی کم سے کم معاونت کے ساتھ خود کو ثابت کر دکھایا ہے.

اور جو پیش رفت ہم نے حاصل کی ہے وہ محض سیکیورٹی سے کہیں زیادہ ہے۔20 لاکھ سے زائد لڑکیاں اسکول جاتی ہیں جو طالبان حکومت کے دور میں صفر تھی۔ افغان پارلیمنٹ میں برطانیہ اورامریکا کے تناسب سے زیادہ خواتین اراکین ہیں اورافغانستان کی اوسط دس سال پہلے کے مقابلے میں سات گنا بڑھ گئی ہے.

لیکن صدارتی انتخابات کے نتائج پر موجودہ مذاکرات بتاتے ہیں یہ پیش رفت ابھی کمزور ہے.

اس لئے ہمیں اس سربراہی اجلاس کواپنے اس اجتماعی کمٹ منٹ کی تصدیق کے لئے استعمال کرنا چاہئیے جو ریزولیوٹ سپورٹ مشن کے ذریعے ضروری مالی، ترقیاتی اور سیکیورٹی وسائل کی فراہمی کے لئے کیا گیا ہے تاکہ سخت جدوجہد سے حاصل کی گئی کامیابیاں الٹی نہ ہوجائیں.

اور جیسے جیسے لڑاکا مشن خاتمے پرپہنچ رہا ہے ہمیں یہ بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ اتحادی افواج کے درمیان آپس میں مربوط عمل میں حاصل کردہ کامیابیاں برقرار رہیں اور ہم اتحادی افواج اورآئیساف کی 33 غیر نیٹو قوموں کے درمیان قریبی رابطوں کو ہم برقراررکھ سکیں۔تاکہ یہ اتحاد اس مشکل،لیکن کامیاب مشن سے خود مزید مستحکم اورمزید اہل ہوکر نکلے.

دہشت گردی

آئی ایس آئی ایل اور دوسرے اسلامی دہشت گرد گروپ بے روپ، متحرک اور بےحد خطرناک ہیں۔

وہ خودمختار ریاستوں کی بنیادوں کے لئے خطرہ ہیں اور پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد ان کی بربریت سے بھاگ کر اس خطے میں ہمارے اتحادیوں اوران کے دوستوں کے لئے سنگین نتائج پیدا کررہی ہے۔

جیسا کہ سکریٹری داخلہ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا کہ برطانیہ میں خطرے کی سطح بڑھ گئی ہے۔ آئی ایس آئی ایل اور اس جیسے گروپ نہ صرف بیرون ملک استحکام سے جڑےہمارے مفادات کے لئے بلکہ وہ برطانیہ میں داخلی سلامتی، مغرب بھر میں اورعرب دنیا میں سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہیں۔

جلد یا بدیر – شاید جلد ہی - وہ ہم پر یہاں وطن میں حملہ کریں گے۔

ہماری تمام قومیں اور ہمارے اتحادی نمایاں سیکیورٹی چیلنج کا شکار ہیں۔

بحیثیت پارلیمانی اراکین آپکو ان پر کارروائی کے لئے اہم کردارادا کرنا ہے۔

یہ نیٹو کے لئے بڑے چیلنجوں کا وقت ہے لیکن یہ تنظیم پہلے بھی تغیر اور مطابقت سے گزر چکی ہے اوراسے آئندہ بھی ایسا ہی کرنا ہوگا اور یہ بھی کر سکتی ہے

مزید معلومات

وزارت خارجہ ٹوئٹرپر @وزارت خارجہ

وزارت خارجہ فیس بک اور گوگل+

وزارت خارجہ اردوٹوئٹریوکےاردو

وزارت خارجہ فیس بک

اردوویب سائٹ

Media enquiries

For journalists

ای میل newsdesk@fco.gov.uk

شائع کردہ 2 September 2014