تقریر

سکریٹری خارجہ نے افغانستان پر لندن کانفرنس کا آغازکیا

سکریٹری خارجہ فلپ ہیمنڈ کی افغانستان پر لندن کانفرنس کی افتتاحی تقریر۔

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
London Conference on Afghanistan

وزرائے کرام، سفرائے عزام۔ خواتین وحضرات، مجھے آپ کو لنکاسٹر ہاؤس میں خوش آمدید کہتے ہوئے ہوئےبڑی خوشی ہے ۔ ہمارے ساتھ افتتاح میں افغانستان کے چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ شریک ہیں، جبکہ سہ پہر میں صدر اشرف غنی کی شرکت کے ہم منتظر ہیں.

یہ تیسری بار ہے کہ ہم نے افغانستان اورعالمی برادری کے رہنماؤں کو لندن میں یکجا کیا ہے تاکہ افغان عوام کےلئے ایک بہتر مستقبل کے لئے کام کیا جائے۔

برطانیہ نےافغانستان کے تحفظ اورترقی کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی ہے.

یہ تیسری بار ہے کہ ہم نے افغانستان اورعالمی برادری کے رہنماؤں کو لندن میں یکجا کیا ہے تاکہ افغان عوام کےلئے ایک بہتر مستقبل کے لئے کام کیا جائے۔ برطانیہ نےافغانستان کے تحفظ اورترقی کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی ہے.

ہمراتعاون بہت بڑا رہا ہے لیکن یہ کوئی منفرد بات نہیں ہے.

افغناستان کی ترقی اورتحفظ ایک دہائی سے زائدعرصے سے مشترکہ جدوجہد رہی ہے.

اس نےخود افغانوں کے علاوہ دنیا بھرمیں قوموں سے عظیم قربانیاں طلب کی ہیں اور میں افغانوں اور آئیساف کے اراکین کو جو وہاں کارروائیوں میں ہلاک ہوئے، خراج تحسین پیش کرتا ہوں،ان میں 453 برطانوی فوجی شامل ہیں.

[ہمیں ان افغان اورعالمی شہریوں کو بھی یاد رکھنا چاہئیےجو تنازع کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ میری دلی ہمدردیاں گزشتہ ہفتے کار پر حملے کے دوران ہلاک ہونے والے برطانوی سفارتخانے کے دو اہلکاروں رونی جیسیمین اور تواب صدیقی کے خاندان، دوستوں اورساتھیوں کے ساتھ ہیں۔ یہ سانحہ ان مشترکہ خطرات کی نشاندہی کرتا ہے جو ہم افغان عوام سے تعاون کی وجہ سے مول لے رہے ہیں.]

افغانستان میں جو لوگ تحفظ اورترقی کے لئے کوشش کرتے رہے ہیں انہیں حاصل شدہ کامیابیوں پرفخرہونا چاہئیے.

ہمیں فخر ہونا چاہئیے کہ اس خطے کی جانب سے دہشت گردی کے خطرے میں خاصی کمی آئی ہے.

ہمیں فخر ہونا چاہئیے کہ اس خطے کی جانب سے دہشت گردی کے خطرے میں خاصی کمی آئی ہے.

ہم اس پرفخرکرسکتے ہیں کہ ملک میں پہلی بار سیاسی اقتدار کی پرامن منتقلی ہوئی ہے…

… اور صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور چیف ایکزیکیٹو ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ کوخا ص طورپراپنے اس سیاسی تدبر پر نازاں ہونا چاہئیے جس کا مظاہرہ انہوں نے یہ سب حاصل کرنے کے لئےکیا ہے.

ہم سب افغانستان کی ترقیاتی کامیابیوں پر فخرکرسکتے ہیں۔۔۔…

… بنیادی انفرااسٹرکچر جو بحال کرکے اسکا درجہ بلند کیا گیا…

… افغانوں کی تقریبا 30 فیصد تعداد کو بجلی کی یقینی فراہمی جو میں صرف 6 فی صد تھی۔

… اسکولوں میں بچوں کی 6.7 ملین تعداد تعلیم حاصل کررہی ہے جس میں تقریبا 3ملین لڑکیاں ہیں جوطالبان دورمیں اس سے محروم تھیں.

… اسکولوں میں بچوں کی 6.7 ملین تعداد تعلیم حاصل کررہی ہے جس میں تقریبا 3ملین لڑکیاں ہیں جوطالبان دورمیں اس سے محروم تھیں.

اسکولوں میں بچوں کی 6.7 ملین تعداد تعلیم حاصل کررہی ہے جس میں تقریبا 3ملین لڑکیاں ہیں جوطالبان دورمیں اس سے محروم تھیں.

مختصرا یہ کہ ہم آج ایک ایسے وقت اکھٹا ہورہے ہیں جب افغانستان اپنی تاریخ کا نیا باب کھول چکا ہے، ایک ‘انقلابی عشرے’ کا آغازجہاں سے وہ اپنی ترقی اور تحفظ کی ذمے داری خود سنبھالے گا۔ لیکن ہمیں آئندہ آنے والے مسائل کی وسعت اور نہ ہی افغانستان اورعالمی برادری کے درمیاں مستحکم شراکت داری کی پائیدار ضرورت کوکم نہیں سمجھنا چاہئیے.

ویلز میں ستمبر میں نیٹو اتحادیوں اور شراکت داروں نے افغانستان سے ہمارے عہد کی توثیق کی تھی۔ افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز 2014ء کے اواخر میں پورے ملک کی سلامتی کی مکمل ذمے داری سنبھال لیں گی۔ لیکن نیا نیٹو مشن ان کی تربیت، مشاورت اور تعاون کے لئے موجودرہے گا.

نیٹوسربراہی اجلاس نے افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز سےعالمی برادری کے مالی تعاون کےعہد کی بھی تصدیق کی تھی جو 2017ء تک اور جہاں ضرورت ہو وہاں ‘انقلابی عشرے’ تک جاری رہے گا.

ہماری فوجوں کی اکثر تعداد وطن واپس آرہی ہےلیکن 2012ء کی ٹوکیو کانفرنس میں عالمی برادری نے افغانستان سے آئندہ تعاون جاری رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ آج ہمیں اس کمٹ منٹ کا اعادہ کرنا ہوگا کہ ہم افغان عوام کی ان کی معیشت کی ترقی ،ان کے حقوق کے تسلیم کئے جانے میں اور اپنے خطے کے ساتھ جڑنے میں تعاون کریں گے.

لیکن اس عہد کے دو رخ ہیں۔ افغان حکومت کوعطیات دہندہ ملکوں کے ٹیکس دہندگان کویہ دکھانا ہوگا کہ ان کی امداد درست طریقے سے استعمال کی جارہی ہے.

قومی اتحادکی حکومت نے اقتدارسنبھالنے کے صرف دوماہ میں انصاف کے شعبے میں تیز رفتار پیش رفت دکھائی ہےاور کابل بینک اسکینڈل سے نمٹنے کاعہد کیا ہے.

احتساب اور بدعنوانی مخالف ایجنڈاپران کی فوری توجہ کی داددیتاہوں۔ اس سے جامع اصلاحی ایجنڈا کا عہدنظر آتا ہے جو ان شعبوں میں کیا جائے گا جو پائیدارمعاشی ترقی، معیشت اورکاروباری ماحول ، علاقائی تعاون، خواتین اورلڑکیوں کے حقوق اور انتخابی اصلاحات کے لئے اہم ہیں.

میں قومی اتحاد حکومت کے نمائندوں سے افغانستان کی طویل مدتی ترقی کے تصور کےبارے میں سننے کا منتظر ہوں، آج بعد میں ڈاکٹر اشرف غنی کی زبانی اورابھی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے.

اب میں بخوشی فلورچیف ایکزیکیٹو کے حوالے کرتا ہوں…

شائع کردہ 4 December 2014