تقریر

افغانستان میں نسوانی حقوق پر بیرونس جوائس اینلے کی تقریر

خواتین برائے خواتین کے سلسلے کی ایک عالمی تقریب میں بیرونس جوائس اینلے کی تقریرکے اقتباسات

Read the ‘Baroness Anelay’s speech on Women’s Rights in Afghanistan’ article

آج اس موقع پر میں آپ سے یہ بات کرنا چاہتی ہوں کہ اب تک افغانستان میں نسوانی حقوق کے بارے میں کیا کچھ حاصل کیا جاچکا ہےاورمیرے خیال میں ابھی کیا کام باقی ہے۔

انسانی حقوق وزارت خارجہ برطانیہ کے فرائض کا لازمی جزو ہے۔ جیسا کہ سکریٹری خارجہ نے کہا انسانی حقوق یقینا ہر برطانوی سفارتکار کے روزمرہ ایجنڈے میں شامل ہے۔اور نسوانی حقوق ان فرائض کی صف اول میں ہوتے ہیں۔ یہ حقوق عالمی قانون کا حصہ ہیں اور یہ مستحکم اور خوشحال معاشروں کے لئے ناگزیر ہیں۔ میں ذاتی طورپرمعاشرے کے تمام حصوں میں خواتین کی مکمل شرکت میں یقین رکھتی ہوں۔

افغانستان کا مستقبل ان پرمنحصر ہے: یہ ملک اپنے پورے وسائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اگر اس کی نصف آبادی فعال نہ ہو۔

بلا شبہ افغانستان نے انسانی حقوق، خاص طور پرنسوانی حقوق کے باب میں نمایاں پیش رفت دیکھی ہے، لیکن اس کی کامیابیاں ابھی نازک سطح پر ہیں اورابھی اسے نمایاں چیلنجز کا سامناکرنا ہے۔

یہ چیلنج ایک ایسے ملک میں سلامتی کی نازک صورتحال کی وجہ سے درپیش ہیں جہاں حکومت اپنے تمام عوام کے تحفظ کے لئے برسر پیکار ہے۔ یہ چیلنجز ایسے معاشرے میں پیدا ہوتے ہیں جہاں قبائلی اقدار کو اس کے قانونی ڈھانچے پرفوقیت حاصل ہو۔

افغانستان بھر میں خواتین غیر متناسب طورسے مصائب کا شکار ہیں۔ خواتین اورخواتین کے گروپ کو زیادہ ترشورش اور جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کو بہت کم معاشی اورسماجی مواقع حاصل ہیں اورنظام انصاف تک ان کی رسائی محدود ہےبلکہ کچھ صورتوں میں تو موجود ہی نہیں ہیں۔

گزشتہ 15 سال میں بے شک پیش رفت تو ہوئی ہے۔ برطانوی حکومت نے 28 لاکھ سے زائدلڑکیوں کورسمی تعلیم کا موقع دلوانے میں مدد دی ہے۔ سیکیورٹی فورسز میں پہلی خواتین افسران کو تربیت دی جارہی ہے۔ اب افغان پارلیمنٹ میں ہمیشہ سے زیادہ خواتین رکن ہیں اور انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

افغانستان کو احساس ہونے لگا ہے کہ خواتین اس کی سلامتی اورمعاشی ترقی میں کتنا اہم کردارادا کرسکتی ہیں۔

متعدد خاندانوں کے لئے خواتین کی ملازمت ایک معاشی ضرورت بن گئی ہے۔ ملازمت کے شعبے میں خواتین کی کافی تعداد کی وجہ سےان کی تعلیم، اورعوامی زندگی میں خواتین کے بیش قیمت کردارکو تسلیم کیا جانے لگا ہے۔

گزشتہ سال سینئیرافسران نے سیلف ریلائنس فارمیوچوئل اکاونٹیبلٹی فریم ورک متعارف کروایا۔اس فریم ورک کے ذریعے حکومت افغانستان نے خواتین کی انصاف تک رسائی میں بہتری اورحکومت میں ان کی مزید شرکت اوران کی ہراسانی اور تشدد روکنے کے لئے کمٹمنٹ کیا ہے۔

اب حکومت کے لئے مشکل کام یہ ہے کہ وہ کمٹمنٹ کو پورا کرواسکےاورگزشتہ 15 سال میں ہونے والی پیش رفت ضائع نہ ہوجائے۔

افغانستان میں خواتین کی بہبود اورذریعہ معاش نچلی سطح پر ہونے کے باوجودکئی ہزارخواتین کے لئے صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ افغان حکو مت جہاں خواتین کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے کام کررہی ہے وہیں عالمی برادری ایسا اہم کام کررہی ہے کہ خواتین کی ان کے حقوق تک رسائی بہتر ہو۔

عالمی کانفرنس کے عہد پہلا اہم قدم ہیں لیکن ان الفاظ پرعملدرآمد لازمی ہے تاکہ تبدیلی دیرپا ہو۔ حقیقی پیش رفت تب ہی ہوسکتی ہے جب عالمی برادری اورملک کے پراثر شہری معاشرے میں ہم آہنگی ہو اور وہ انسانی حقوق کے حوصلہ مند دافعین کو تعاون فراہم کرے۔

افغانستان میں خواتین کے مستقبل کے باب میں 2016ء ایک اور اہم سال ہوگا۔ان سب میں اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ سارے عہد اور عالمی کانفرنسیں افغان حکومت کو وہ پلیٹ فارم فراہم کریں گی جہاں وہ اپنی کامیابیوں کا مظاہرہ کرسکے اور ان مسائل کی وضاحت کر سکے جو اسے درپیش ہیں۔ بد قسمتی سے افغانستان اور اس کے عوام سرگرم شورشیوں کی جانب سے 2016ء میں بھی مسائل کا سامنا کرتے رہیں گے۔ عالمی برادری کی حیثیت سے ہمیں بحران سے دوچار خطوں میں جنسی تشدد کی روک تھام کے لئے مشترکہ کام جاری رکھنا ہوگا۔

ہمارا اپنا تجربہ یہ ہے کہ خواتین کے حقوق تب ہی تسلیم کئے جاتے ہیں جب ان پر داخلی طور سے زور ڈالا جائےنہ کہ بیرونی طور سے۔ اسی لئے میرا کہنا ہے کہ افغانستان میں تبدیلی کی قیادت داخلی طور پر کی جائے اورتمام افغان عوام اس میں کردار ادا کریں تاکہ خواتین اپنی تمام صلاحیتیں استعمال کرسکیں۔

برطانوی حکومت اپنے اس کمٹمنٹ پر قائم ہے کہ حکومت افغانستان کو انسانی حقوق سے متعلق اس کی آئینی اورعالمی ذمے داریوں پرعملدرآمد میں مدد کرسکے۔

ہم ہر ملک میں ہر عورت کووہ حقوق دلوانے کا عزم رکھتے ہیں جو انسانی حقوق کے عالمی ڈیکلریشن کے تحت ہمیں حاصل ہیں۔ افغانستان اس سے مستثنی نہیں اور اس ہدف کے لئے ہم آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔

مزید معلومات

Media enquiries

For journalists

ای میل newsdesk@fco.gov.uk

شائع کردہ 26 February 2016