تقریر

اقوام متحدہ منشور کے تین بنیادی ستون: امن وسلامتی، انسانی حقوق اورترقی."

اقوام متحدہ میں برطانوی مشن کے سربراہ مارک لائل گرانٹ کی اقوام متحدہ منشورپرسلامتی کونسل کی کھلی بحث میں تقریر

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
UN

سترسال پہلےاقوام متحدہ منشورنے اقوام متحدہ نظام کےتین بنیادی ستون تشکیل دئیے تھے: امن وسلامتی، انسانی حقوق اورترقی۔ 1945ء کے بعد سے ان ستونوں نے اس کونسل کے لئے ایسافریم ورک فراہم کیاجس سے وہ ایسے چیلنجز سے نمٹ سکے جو ہمارے پیش روؤں نے کبھی تصور بھی نہ کئے تھے۔ لیکن وہ تین ستون آج بھی اتنے ہی متعلقہ ہیں، اور یہی ان کےپائیدار ہونے کا ثبوت ہے۔

بین الریاستی تصادم کا خطرہ بین الاقوامی امن اورسلامتی کے لئے بدستورموجود ہے۔

اورجیسا کہ اقوام متحدہ کے بانیوں نے تصور کیا تھا خطرات اب قومی ریاستوں کے درمیان جھگڑوں تک محدود نہیں رہے۔ یہ خطرات اب سرحدوں سے ماورا، گہری نسلی اورمذہبی تقسیم کی بنیاد پرمتشدد غیرریاستی عناصراوردہشت گردوں اور جہاں حکومت قانون کے نفاز میں ناکام ہوجائے اوراپنے شہریوں کے انسانی حقوق کی پرواہ نہ کرے، وہاں برپا ہوتے ہیں۔

یہ خطرات اب ریاستوں کی خودمختاری کو ایسے انداز میں کمزور کردیتے ہیں کہ جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اگران سے نمٹا نہیں گیا تو جائز شکایات فوری طور سے تشدد اور انتشار میں بدل سکتی ہیں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہئیے کہ اس کونسل کابچاؤ اقدام اور حمایت اور تعاون ریاستوں کی خود مختاری کوبحال کرسکتا ہے۔اس کے لئے ہمیں اپنے پاس دستیاب تمام وسائل کو استعمال کرنا ہوگا۔

امن کوبرقراررکھنا ایک ایساہی وسیلہ ہے اوراقوام متحدہ کے منشورپر عملدرآمد کے باب میں اس کونسل کی لچک کی مضبوط مثال ہے.منشور میں امن برقراررکھنے کا کوئی ذکر نہیں اوراس کے باوجودآج چار براعظموں میں 120,000 سے زائدفوجی اور شہری عملہ امن کو قائم رکھنے اور شہریوں کے تحفظ کے لئے کام کررہا ہے، کئی افراد افریقی یونین یا یورپی یونین کی شراکت داری میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اس سال ہمیں اقوام متحدہ کے امن قائم رکھنے کے عمل کومزید بہتر بنانے کا موقع ملاہے۔ امن آپریشنزریویوشہریوں کے لئے مزیدموثرحفاظتی اقدامات پرغور کرے گا جس میں جنسی تشددکی روک تھام شامل ہے۔ خواتین، امن اور سلامتی قرارداد کی پندھرویں سالگرہ پرہمیں تنازعات کے خواتین پر برے اثرات اور امن کے قیام میں خواتین کے اہم کردار کو تسلیم کرنا ہوگا۔

جیسا کہ سکریٹری جنرل نے کہا کہ 70 سال میں عالمی امن کے قیام میں انسانی حقوق کے احترام کی مرکزی حیثیت بڑھتی رہی ہے۔ اور جب ہم اگلے 70برس کی طرف دیکھتے ہیں توعالمی سلامتی کے تصور کو ہمیں ایک نئی شکل دینا ہوگی وہ جو یہ تسلیم کرے کہ انسانی حقوق و تنازعات کے بچاؤ میں اس کونسل کے کردار کا لازمی حصہ ہے۔

اس سال ہمارے پاس ایک تاریخی موقع ہے کہ ہم ‘ بعد از 2015ء ترقیاتی فریم ورک’ کے ذریعے غربت کے اسباب سے نمٹیں۔ ہم ایسے ایجنڈا کی حمایت کرتے ہیں جو کسی کوتنہانہ چھوڑے اورمردوعورت کے مساوی حقوق کا احترام کرے۔

برطانیہ کو فخر ہے کہ وہ اپنی مجموعی قومی آمدنی کا 0.7 فی صد بیرون ملک امداد پرصرف کرتا ہے۔ ہم جی 20 میں واحد ملک ہیں جو ایسا کرتا ہے۔ جیسا کہ میرے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ یہ امداد ‘ترقی کا ایک سنہری دھاگا ہے’ جو ملکوں کو خوشحال بننے اورتنازعات سے بچنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ مشمولی اداروں، کھلے معاشروں اورمعیشتوں کی تشکیل اور قانون کے نفاذ میں مدد دیتی ہے۔ ایسا نہ کرنے کے نتائج ہمیں عرب بہار کے واقعات میں نظر آچکے ہیں، جس کے اثرات بین الاقوامی امن اور سلامتی کو اب بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

میں اختتام سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان کے ان الفاظ سے کرتا ہوں کہ’‘ہم بغیر ترقی کے سلامتی کو برقرارنہیں رکھ سکتے نہ ہی ترقی بغیر سلامتی کے ممکن ہے اور دونوں انسانی حقوق کے احترام کے بغیرممکن نہیں۔’’ برطانیہ ان الفاظ کی مکمل توثیق کرتا ہے.

شائع کردہ 23 February 2015