پریس ریلیز

انسانی حقوق و جمہوریت رپورٹ 2012ء - ایران

اکتوبراوردسمبر2013ء کے درمیان ایران میں انسانی حقوق کے باب میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ ایرانی حکومت نے شہری حقوق امور پر مثبت عوامی بیانات کا سلسلہ جاری رکھا.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Aleppo-karm-aljabal

Stock image from the FCO Human Rights Report 2012. Credit: Basma

تازہ ترین صورتحال-ایران

تازہ ترین صورتحال: 31دسمبر2013ء

اکتوبراوردسمبر2013ء کے درمیان ایران میں انسانی حقوق کے باب میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ ایرانی حکومت نے شہری حقوق امور پر مثبت عوامی بیانات کا سلسلہ جاری رکھالیکن انسانی حقوق کی صورتحال کی بہتری کے لئے اداراتی تبدیلی کی علامات نظر نہیں آئیں جوکہ مذہبی اقلیتی گروہوں اورنسلی گروپوں، صحافیوں اورانسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں، قیدیوں اورخواتین کے باب میں نظر آنا چاہئیے تھیں۔

ایران میں بدستورپھانسیوں کی فی کس شرح دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔26 اکتوبر کو16 سزا یافتہ قیدیوں کو 14 ایرانی سرحدی محافظوں کے ایک روز پہلے ہونے والے قتل کے بدلے میں پھانسی دے دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ان قیدیوں کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا اوران کوکسی کارروائی کے بغیرہی سزا دے دی گئی۔ واضح رہے کہ برطانیہ اصولی طور پرسزائے موت کے خلاف ہے۔ 28 اکتوبرکو وزیر برائے مشرق وسطی ہیورابرٹسن نے ایک بیانمیں ایران پر زور دیا کہ وہ سزائے موت کا سلسلہ معطل کرے۔

ایران میں مذہب اورعقیدے کی آزادی کے فقدان پربدستور گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ 4 اکتوبر کی اپنی رپورٹ میں ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ڈاکٹر احمد شہید نے مذہبی اقلیتوں پرجاری ظلم کاذکرکیا۔ رپورٹ میں خاص طورپرمسیحی مذہب اختیار کرنے والے ایرانی، بہائی کمیونٹی اوردرویشی مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کو واضح کیا گیا ہے۔

صحافیوں کی ہراسانی اورسنسرشپ کا سلسلہ جاری ہے۔ کمیٹی برائے تحفط صحافیاں کی 18 دسمبر کی رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ ایران میں دنیا بھر میں دوسری بڑی تعداد میں صحافی جیلوں میں بند ہیں۔ یہ افواہیں بھی ہیں کہ خبروں کی ویب سائٹس اوردوسری اشاعتوں کو بند کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور 16 سے 24 انٹرنیٹ بلاگرزاورماہرین کو دسمبر کے شروع میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

کردوں پر مظالم اور کردش سیاسی رہنماؤں کو سزائے موت دئیے جانے کے واقعات میں اضافے کی اطلاعات ہیں۔ 2نومبر کوانقلابی عدالت کی 28 ویں برانچ نے سلافی گروپ سے تعلق کے الزام میں 3 کردوں کو سزائے موت دی گئی۔ان میں سے ایک گرفتاری کے وقت صرف 17سال کا تھا۔ 4 نومبر کو کرد شہری اور سیاسی سرگرم رہنما شرکو معارفی کی موت کی سزا پر عملدرآمد کردیا گیا۔ان کے وکیل یا ان کے اہل خانہ کو اس کی پیشگی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔ ان کے وکیل نے ایک بیان جاری کیا کہ انہیں اپنے موکل کی موت کی اطلاع میڈیا کے ذریعے ملی۔ایران کا قانون کہتا ہے کہ حکام کو سزاپر عملدرآمد سے پہلے مجرم کے وکیل کو اطلاع دینا ضروری ہے۔ ایرانی حکام کی اپنے قانون سے روگردانی کا یہ ایک اورثبوت ہے۔

قیدیوں کے لئے طبی سہولیات کا فقدان اور جیلوں کی حالت بذات خود تشویشناک ہے۔ 28 نومبر کو اوین جیل میں ہوتان دولتی نے جو دل کی سنگین بیماری میں مبتلا ہیں، بھوک ہڑتالشروع کی جس میں وہ صرف پانی پی سکتے تھے۔ یہ ہڑتال انہیں علاج کی اجازت نہ دئیے جانے کے خلاف احتجاج تھی۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ انہیں مارچ میں گرفتاری کے بعد تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا اور ایک ماہ کے لئےقید تنہائی میں رکھاگیا۔ انہیں قومی سلامتی کے تحت 18 ماہ قید کی سزا دی گئی تھی جس میں ان پر ایک کالعدم سیاسی گروپ اوراس کے بیانات کی اشاعت سےتعلق کا الزام بھی شامل تھا۔جیلوں کی خراب حالت کے علاوہ سیاسی قیدیوں کو ‘جلاوطن’ کئے جانے کی بھی اطلاع ہے جس میں انہیں اپنے خاندانوں سے سینکڑوں میل دور کسی مقام پر رکھا جاتا ہے۔

20 نومبرکوہیومن رائٹس واچ نے ایران میں افغان مہاجرین کی حالت زار کی رپورٹ جاری کی۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہاں تقریبا دس لاکھ افغان کو ایرانی حکومت نےمہاجرین کا درجہ دے رکھا ہے۔ اگرچہ ایران نے تیس سال سے افغان شہریوں کو پناہ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن کئی افراد کو تعصب اور بدسلوکی کا سامنا ہے۔ مناسب طریقہ کار کے نہ ہونے سے افغان اپنے ملک کے بحران سے بھاگ کر ایران میں پناہ نہیں لے سکتے۔ انہیں بلا کیس چلائے ڈی پورٹ کرنے کے واقعات عام ہیں،ان کو مارا پیٹا، جبری مزدوری اور خراب، غیر صحت مندانہ ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ جہاں مہاجرین کو نسبتا بہترمقام پرآباد کیا گیا ہے وہاں،تعلیم، روزگار یا سماجی حقوق تک رسائی، متعصبانہ قوانین اور بیوروکریسی کی بدولت ممکن نہیں۔ خصوصی تشویش ان تنہا مہاجر بچوں کے بارے میں ہے جو ایرانی سیکیورٹی فورسز کی بدسلوکی کا نشانہ بنتے ہیں۔افغان مہاجرین میں بچوں کی تعداد کافی ہے اور اس مسئلے کو خاندانوں کی جبری علیحدگی نے مزید بدتر بنادیا ہے۔ایران نے رضاکارانہ طور پر 1951ء مہاجرین کنونشن پر دستخط کئے تھے اور اس کی یہ پالیسیاں اس کنونشن کی شرائط کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔

26 نومبر کو اپنے انتخابت میں کئے گئے وعدوں کے مطابق صدر حسن روحانی نے شہریوں کے حقوق کے منشورکا ڈرافٹ جاری کیا۔اگرچہ یہ ایک خوش آئند قدم ہے لیکن قوانین یا عدلیہ اور سیکیورٹی فورسز کے طریقہ کار میں تبدیلی کے بغیر کوئی حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔ منشور میں اس کے علاوہ ثقافتی، اقلیتی نسلی اور مذہبی حقوق ، آزادئی فکر و اظہار اور نجی آزادی کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔البتہ اس میں ایرانی شہریوں کے حقوق میں بہتری کے ٹھوس اقدامات کا ذکر نہیں ہے اور ان حقوق کو ایران کے موجودہ قوانین کے’ فریم ورک کے تحت’ رکھا گیا ہے جس میں اب تک کافی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

نومبر کے اختتام پر ایک مثبت پیش رفت ہوئی جب ایران کے جنوب میں قلات نے ایک سنی خاتون کو مئیرمنتخب کیا۔ سمیہ بلوچ زئی ایک 26 سالہ بلوچ بیوہ ہیں جن کے پاس انجئنیرنگ اور نیچرل ریسورسز منیجمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری ہے۔ وہ ایران میں پہلی خاتون مئیر نہیں لیکن ایک بے حد قدامت پرست صوبے میں ان کا انتخاب حوصلہ افزا ہے۔

ہیو رابرٹسن نے اقوام متحدہ کی تھرڈ کمیٹی کی 19 نومبر کی قرارداد کا خیر مقدم کیا تھا جس میں ایران سے اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو بہتر بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ قرارداد بعد ازاں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں 19 دسمبر کو 86 حمایتی سے منظورہوئی، 36 مخالف ووٹ آئے جبکہ 61 نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

یہ مسلسل دسواں سال ہے کہ تھرڈ کمیٹی نے ایران میں انسانی حقوق کی حمایت میں قرارداد منظورکی ہےاور یہ عالمی برادری کی طرف سے واضح بیان ہے کہ ایران اپنی عالمی ذمے داریوں کولازما پورا کرےاوراپنے تمام شہریوں کےانسانی حقوق کی صورتحال کی بہتری کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔ قرارداد میں چند پیش رفتوں کا خیر مقدم کرنے کے ساتھ ساتھ جن میں صدرروحانی کے نسلی اقلیتوں کے خلاف تعصبات کے خاتمے، آزادئی اظہار کے فروغ، ایران میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس میں خاص طورپرایران میں سزائے موت کی شرح اورجسمانی سزاؤں کے استعمال، اذیت دہی اور عدالتی عمل کے فقدان، ایران کے انسانی حقوق کے دفاع کرنےوالوں اور صحافیوں کے ساتھ سلوک اور مذہبی اقلیوں پر مسلسل مظالم ، خاص طور پر بہائی عقیدے کے حامل اور مسیحی مبلغین کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس میں ایران میں خواتین، اقلیتی نسلی اور لسانی گروپوں کے حقوق میں کافی بہتری کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے

تازہ ترین صورتحال: 17 اکتوبر2013ء

جولائی تا ستمبر 2013ء کے عرصے میں انسانی حقوق کے خراب ایرانی ریکارڈ میں کوئی بہتری نہیں ہوئی ۔البتہ صدر ڈاکٹر حسن روحانی کا جولائی میں انتخاب کچھ خوش امیدی کاسبب بناہے۔ ان کی انتخابی مہم میں انہوں نے سماجی مساوات کامطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا’‘مردوں اورعورتوں میں عدم مساوات کو ختم کردیا جائےگا ‘‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ’‘تمام ایرانیوں کو یقین ہونا چاہئیے کہ انصاف موجود ہے۔ انصاف کا مطلب ہے مساوی مواقع۔ تمام نسلی اقلیتیں،تمام مذاہب حتی کہ مذہبی اقلیتیں سب کو انصاف کایقین ہونا چاہئیے۔’’ یہ الفاظ حوصلہ افزا ہیں اور ہم نےبہتری کے کچھ اشارے بھی دیکھے ہیں جیسے کہ ستمبر میں چند اہم سیاسی قیدیوں کی رہائی۔ البتہ صورتحال کے بارے میں ہمیں اب بھی تشویش ہے اورابھی اداری تبدیلی دیکھناباقی ہے.

ایران میں پھانسی کی سزا کی فی کس شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، چین مجموعی تعداد کے لحاظ سے اس سے بھی آگے ہے۔ برطانیہ اصولی طورپرکسی بھی حالت میں سزائے موت کا مخالف ہے۔ جولائی سے ستمبر تک 100 پھانسیاں دی گئیں۔ اگست کے صرف ایک ہفتے میں کم از کم 35 افراد کو سزائے موت دی گئی، اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ان میں سے کئی سرعام دی گئیں۔ان میں سے کئی منشیات کے جرائم کے ضمن میں تھیں جو کہ ‘‘سنگین ترین جرائم’’ میں شمار نہیں ہوتے کہ جن پرعالمی اتفاق رائے کے مطابق سزائے موت دی جاسکتی ہے۔26 ستمبر کو وزیر برائےمشرق وسطی السٹئیر برٹ نے چھ ایرانی کردوں کی متوقع پھانسیوں پر عوامی بیان دیا جنہیں مبہم الفاظ میں لگائے گئے الزامات پر سزائے موت سنائی گئی تھی جن میں ‘’ اللہ سے دشمنی’’ اور کرہ ارض پر بدعملی’’ جیسے الزامات تھے۔

ایرانی کورونر کے دفتر سے 10 جولائی کو بلاگر ستار بہشتی کی موت کے بارے میں تحقیقات بند کئے جانے کا اعلان ہوا جو حراست کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔انہوں نے نتیجہ نکالا کہ ستار بہشتی سے کی جانے والی بدسلوکی جان لیوا نہیں تھی۔ اور یہ بھی کہ ان پر کئے گئے وار میں سے ایک بھی جسم کے اہم اعضا پر نہیں تھا نہ ہی ان کے جسم میں کوئی ہلاکت خیز مواد پایا گیا.

اس کیس میں ابھی کسی کو سزانہیں دی گئی ہے، جو اس کا ثبوت ہے کہ ایرانی حکومتی افسروں کو کتنی رعایت حاصل ہے۔

جولائی میں 1988ء کے جیل میں ہونے والے قتل عام کی 25 ویں برسی تھی جب پانچ ماہ میں ایران بھر کی جیلوں میں ہزاروں سیاسی قیدیوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ اطلاعات مختلف ہیں لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کی فہرست کے مطابق یہ 4842 اموات تھیں بلکہ کچھ میں یہ تعداد 30 ہزار تک بتائی گئی تھی۔اس کو جنگ عظیم دوئم کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا بدترین مظاہرہ قرار دیا گیا ہے لیکن اب تک کسی کو اس کا ذمے دار نہیں ٹہرایا گیا ہے.

ہمیں جیلوں کی خراب صورتحال پر بدستور تشویش ہے جہاں کئی قیدی احتجاجا بھوک ہڑتال کرچکے ہیں۔ جولائی میں ہمیں اطلاعات ملیں کہ آراش صدیقی جو ایک سرگرم طالب علم کی حیثیت سے قید تھے، 47 دنوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں کیونکہ انہیں 20 ماہ سے قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ جولائی کے آخرمیں ایک اورنظر بند کارکن ابو الفضل عابدینی کو جنہوں نے ستار بہشتی کے کیس میں گواہی دی تھی، بغیر کسی وضاحت کےاہواز جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف عابدینی نے بھوک ہڑتال کردی.

ایک اور تشویشناک رحجان جیل کے قیدیوں کے لئے مناسب طبی دیکھ بھال سے انکار ہے۔ مثلا بلاگر اورسرگرم کارکن حسین رونقی مالکی کو طویل بیماری اورجیل کے اسپتال میں ناکافی طبی آلات کے باوجودحکام نے بیرون جیل علاج کے لئےایک ہفتے کی رخصت دینے سے انکار کردیا۔

اس عرصے میں ایران میں اقلیتوں پر ظلم وتشدد جاری رہا جن میں مذہبی اقلیتی گروہ شامل تھے۔ برطانیہ بدستور ایران پربہائی کمیونٹی کے خلاف منظم ظلم اور کسی بھی گروہ پر اس کے عقیدے یا مذہب کی بنا پر دباوکو ختم کرنے پر زور دے رہاہے۔ جولائی کے اواخر میں مصطفے[محمدہادی] بردبار کو جو عیسائی ہوگئے تھے،اور جنہیں تہران میں دسمبر 2012ء میں کرسمس پارٹی سے گرفتار کیا گیا اور ‘‘گھروں میں گرجا گھر کے اندرسازشی میٹنگوں ‘‘کے الزام میں 10 سال قید کی سزا سنادی گئی۔ 26 ستمبر کو پادری سعید عابدینی کوتہران کی جیل میں قید ہوئے ایک سال ہوگیا ہے۔ انہیں اپنے مسیحی عقیدے کی وجہ سے آٹھ سال کی سزا ہوئی ہے۔

سات درویشوں کو 13 جولائی کو ایک ایسی ویب سائٹ چلانے کے جرم میں مجموعی طور پر 56 سال سزا سنائی گئی جس پر صوفی سلسلوں اور انسانی حقوق سے متعلق خبریں شائع کی جاتی تھیں۔ انہیں 2011ء میں ابتدائی طور پر “ ولی فقیہ کی توہین “ ‘’ قومی سلامتی کے خلاف اجتماع اور تصادم ‘’ ‘’ دروغ گوئی پھیلانے’’ اور ‘‘منحرف گروہ کی رکنیت’‘کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔حامدرضا مرادی سرویستانی[ویب سائٹ منیجر] کو 10 سال 6 ماہ،رضا انتصاری [ ویب سائٹ فوٹوگرافر] کو 8 سال اور 6 ماہ، مصطفے دانشجو،فرشید یاداللہی، امیراسلامی، افشین کرم پور [ وکلا] کو 7 سال6 ماہ سزادی گئی۔

البتہ مثبت تبیلی کے بھی چند آثار ملے ہیں۔29 اگست کو ایران کی وزارت خارجہ نے ایک تجربہ کار سفارتکار مرضئیے افخم کو نیا ترجمان مقرر کیا، یہ پہلی بار ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے کسی خاتون کو اس عہدے پر متعین کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے پہلی بار بیرون ملک خواتین سفیروں کی تقرری کا بھی ارادہ کیا ہے۔ ایران میں 12 ستمبر کو ہاوس آف سنیما کو دوسال کے بعد کھولنے کا فیصلہ کیا گیا جسے گزشتہ حکومت نے بند کردیا تھا – یہ مرکزی فلمی صنعت گلڈ ہے جس نے کئی عالمی شہرت یافتہ ایرانی فلموں سے تعاون کیا ہے۔

شاید سب سے خوش آئند تبدیلی 19 ستمبر کو واقع ہوئی جب 80 سیاسی قیدی رہا کئے گئے۔ ان میں سے ممتاز ترین افراد میں سے ایک انسانی حقوق کی وکیل نسرین ستودہ ہیں جنہیں ستمبر 2010ء میں ‘’ پروپیگنڈا کرنے اور ریاستی سلامتی کونقصان پہنچانے کی سازش کرنے’‘کے الزام میں بند کیا گیا تھا۔ سکریٹری خارجہ نے ان کی رہائی کاخیر مقدم کیا اورایران میں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

سیاسی قیدیوں کی رہائی اور نئے صدر کی جانب سے مثبت بیانات خوش آئند ہیں۔ برطانیہ تمام ایرانی شہریوں کے حقوق میں بہتری کے لئے منظم ٹھوس اقدامات دیکھنے کا خواہشمند ہے،جس میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق میکانزم سے ایران کا تعاون شامل ہے۔اس وقت تک برطانیہ ایران پر اپنی عالمی ذمے داریاں پوری کرنے کے لئے زوردینا اورتشویشناک معاملات کو منظرعال پرلانے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔

شائع کردہ 17 October 2013
آخری اپ ڈیٹ کردہ 20 January 2014 + show all updates
  1. Latest Update of the Human Rights and Democracy Report 2012

  2. First published.