تقریر

سلامتی کونسل تنازعات کے بچاؤ میں اپنے کردار پرغورکرے

اقوام متحدہ میں برطانوی مشن کے سفیر لائل گرانٹ کا تنازعات کے بچاؤ پر سلامتی کونسل کی کھلی بحث میں بیان

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
UN

اس ماہ دنیا نے پہلی جنگ عظیم کے آغاز کی صدی منائی۔ ہم دکھ کے ساتھ اس بھیانک تباہی کو یاد کرتے ہیں جو اس نے اور اس کے بعد کے تنازعات نے انسانوں پر نازل کی، معاشرے اور ریاستیں تاراج ہوگئیں۔ گزشتہ ہفتے بلجئیم میں ہم نے بحث کی کہ اگر اقوام متحدہ سلامتی کونسل 1914ء میں موجود ہوتی توکیا ہم پہلی جنگ عظیم سے بچ سکتے تھے۔میراجواب تھا – نہیں! اس وقت تک نہیں جب تک کہ سلامتی کونسل تنازعات کے بچاؤ کو اس سے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتی جتنا اس وقت لے رہی ہے۔آج کی بحث کونسل کے لئے ایک موقع ہے کہ وہ بچاؤ کے فوری اقدامات کے اخلاقی، انسانی اور سیاسی تقاضوں کی یاددہانی کے ساتھ تنازعات کے بچاؤ میں اپنے کردار پر غور کرے.

گزشتہ 20 سال میں تنازعات کی نوعیت بدل چکی ہے۔ ریاستوں کے پیچیدہ داخلی تنازعات کی جگہ اب اکثر ریاستوں کے مابین تنازعات نے لے لی ہے۔ اس قسم کے تنازعات کے بین الاقوامی پھیلاؤنے کونسل کا ایجنڈا بھر دیا ہے اور ہماری استعدادکی چادرکم پڑرہی ہے۔ اس کے باوجود شایدہم یہ بھول چکے ہیں کہ بچاؤ علاج سے بہتر ہوتا ہے۔ کونسل محض خود کوبحرانی کیفیت میں ہی کام کرنے تک محدود نہیں کر سکتی۔ کونسل کو دھواں الارم کی طرح ڈیزائن کیا گیا تھا، محض آگ بجھانے والے کے طورپرنہیں؛ یہ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 1 اور 24 اور اس کے باب ششم سے واضح ہے.

ہم بعض اوقات ابتدائی وارننگ پرعمل کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی دو وجوہ ہیں:

پہلی، خانہ جنگی کے سلگتے رہنے کی اصل جڑیں پیچیدہ ہیں؛ یہ اندازہ لگانا مشکل ہوسکتا ہے کہ وہ کب بھڑک اٹھیں گی۔اس کا جواب یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے نظام میں ‘‘جلد وارننگ’’ کے ذمے داروں کی جانب سے اشارات پر باقاعدگی سے اور بروقت بریفنگ دی جائے.

دوسری، کونسل پرخودمختاری کے اصول اوراس کے تنازعات کے بچاؤ میں کردار کے درمیان ایک مفروضہ کشمکش نے دباؤ ڈال رکھا ہے۔ تاہم خودمختاری کا اصل دشمن خود تنازع ہے جیسا کہ ابھی نوی پلائی نے بھی کہا۔ تنازعات ریاستوں اور افراد کو تباہ کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس اقوام متحدہ یا علاقائی تنازعاتی بچاؤکے وسائل کی مدد اور تعاون سے ریاست کی خودمختاری کو قوت مل سکتی ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال نیپال کے لئے 2005ء میں ایک چھوٹی سی سویلین ٹیم کی تعیناتی تھی جس نے وہاں تنازع کا خاتمہ کرکے نیپالی عوام کی قیادت میں امن عمل کا آغاز کیا.

جہاں کونسل کی بنیادی ذمے داری بین الاقوامی امن اورسلامتی برقراررکھنا ہے کئی اور کرداروں کا بھی اس میں حصہ ہے۔ لچکداری اس کی کلید ہے۔ بہت سی دوسری چیزوں کی طرح امن اور سلامتی گھر سے شروع ہوتی ہے۔ انفرادی ریاستیں یہ یقینی بنائیں کہ تناؤ میں کمی اور اس کے حل کے لئے کلیدی اقدامات موجود ہیں، انسانی حقوق کا احترام، جمہوریت اور مضبوط اداروں کی بنیاد قانون کی بالا دستی پر رکھی گئی ہے.

اقوام متحدہ میں ہمیں افق پرموجود امکانی تنازعات کی کھوج لگانا اوران پربات چیت کرنا ہوگی۔ ہمیں منشور کےباب ششم میں دئیے گئے وسائل کا بہتر استعمال کرنا چاہئیےجس میں مذاکرات اورثالثی شامل ہے جیسا کہ سکریٹری جنرل نے ہمیں ابھی یاددہانی کرائی ہے۔اور ہم نے کچھ کامیابیاں دیکھی بھی ہیں.

آج ہم نے جو قرارداد اختیار کی ہے وہ تنازعات کی باربار ابھرنے کی فطرت اور اس میں اقوام متحدہ کے علاقائی دفاتر، خصوصی سیاسی مشن، امن آپریشن،علاقائی اور ذیلی علاقائی تنظیموں کے اس چکر کو توڑنے میں اہم کردار کا اعتراف کرتی ہے۔ امن کی تعمیر ایک ایسادھاگا ہے جس سے ان سب اقدامات کو باندھا جانا چاہئیے.

قرارداد2171 کا ایک اور اہم پہلو یہ تسلیم کیا جانا ہے کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی تنازع کا اشارہ ہوسکتی ہے اور اس کا نتیجہ بھی۔ عصمت دری کا بطور جنگی ہتھیار استعمال تنازع میں شدت پیدا کرسکتا ہے اور زندگی تباہ کرسکتا ہے۔ یہ نکتہ سرگیو ویرا ڈی میلو کے کیس سے واضح ہوتا ہے جن کی المناک موت کی یاد دوروزپہلے منائی گئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ جغرافیائی سیاست میں جو کمی ہے وہ ‘’ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ انسانی حقوق کی کھلی اور باضابطہ خلاف ورزی اکثر عالمی عدم تحفظ کا مرکزی سبب بنتی ہے۔’’ اس لئے تنازعات کے چکر کو توڑنے کے لئے، احتساب لازمی ہے جو بہت سنگین جرائم کے لئے بھی کیا جائے ۔ معاشروں کو سنبھلنا اور مستقبل میں مجرموں کو روکنا ہوگا.

اخلاقی، سیاسی اور انسانی وجوہ سے برطانیہ، سکریٹری جنرل کے محرک’ رائٹس اپ فرنٹ’ کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے عملے سے کہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ابتدائی وارننگ علامات کے بارے میں اطلاع دینے کی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں۔اس کونسل کو بھی سکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کےمحافظ کرداروں کی جانب سےدی جانے والی ابتدائی علامات پر توجہ دے کے اور کارروائی کرکےاسی اخلاقی جرات کاثبوت دینا ہوگا۔

دنیا کو درپیش خطرات میں جیسے جیسے تبدیلی آرہی ہے اورتنازعات کی جڑوں کے بارے میں ہماری سمجھ بڑھ رہی ہے ہمارے مجموعی سلامتی نظام کو اس کے مطابق بنانا ہوگا۔ جب ہم آج کے تنازعات سے نمٹتے ہوئے کل کے لئے منصوبہ بندی کررہے ہوں تو کونسل کو بہترین پرہیزی علاج اوراس کے معالجین کون ہوں پر غورکرنا ہوگا۔ مختصرا یہ کہ کونسل کو ردعمل سے ہٹ کر تنازع کے بچاؤ کا ذہن بنانا ہوگا۔ تب ہی ہم اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہم پر عائد ذمے داری کو صحیح طور پر پورا کرسکیں گے۔

شائع کردہ 21 August 2014