تقریر

(P) قیام امن کے تین پی

سکریٹری خارجہ بورس جانسن نے اقوام متحدہ قیام امن دفاعی وزارتی کانفرنس میں 8 ستمبر 2016ء کواختتامی تقریرکی، اس کے اہم اقتباسات یہ ہیں

UN Peacekeeping Defence Ministerial

آج اس ہال میں موجود ملکوں اورعالمی تنظیموں کی تعداد بتاتی ہے کہ یہ موضوع کس قدراہمیت رکھتا ہے۔

میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ آج کی میٹنگ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ برطانیہ عالمی امورمیں اپنے کرداراور خاص طور پر اقوام متحدہ سے اپنے تعاون کو کتنی سنجیدگی سے لیتا ہے۔ برطانیہ عالمی امن اورسلامتی کے حصول کے لئے اپنے اتحادیوں کے ساتھ کام کے کمٹ منٹ میں ہمیشہ ثابت قدم رہا ہے۔

اقوام متحدہ میں ہمارا کردار اس عالمی کمٹمنٹ کا مرکزی پہلو ہے۔

برطانیہ کا قیام امن کے لئے عزم آج کی اس وزارتی کانفرنس سے شروع یا ختم نہیں ہوتا ۔ ہم قیام امن میں یقین رکھتے ہیں اورہم اس کو بہتر بنانے کے لئے آپ کے ساتھ کام کریں گے۔ برطانیہ قیام امن کے باب میں نیویارک میں پہلے ہی قائدانہ آواز کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس کے علاوہ ہم جنوبی سوڈان اورصومالیہ میں برطانوی فوجیوں اور پولیس کی مزید تعداد بڑھارہے ہیں۔ ہم نے یہاں بہت کچھ حاصل کیا ہے اور کئی نئے عہد کئے ہیں۔آپ اتنے سارے لوگوں کا دستخط کردہ اعلامیہ ، اور میں سمجھتا ہوں کہ بعد میں اور بھی کئی لوگ دستخط کریں گے، اس سے مستقبل کے لئے ایک نقشہ اورکمٹ منٹ ابھرتا ہے جوقیام امن کے تین پی کو آگے لے جائیگا۔ تین پی یعنی منصوبہ بندی، عہد اور کارکردگی۔ (Planning. Pledges. Performance)

ہمارے آج کے عہد قیام امن کے رضاکاروں کے درجات بڑھادیں گے۔ لیکن ہمارا مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک کہ اقوام متحدہ ان فوجوں کو جو وہ کسی تنازع کے لئے بھجواتی ہے، صرف اس بنیاد پر بھیجنے کی بجائے کہ کون دستیاب ہے، یہ جاننے کے بعد نہ تعینات کرنا شروع کردے کہ اس مقصد کے لئے بہترین کون ہے۔

ہم نے اپنی افواج میں خواتین کی تعداد بڑھانے کا اپنا عزم طے کرلیا ہے۔ لیکن ہمارا یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک قیام امن کے ہرشعبے میں ان کی بھرپور نمائندگی نہ ہوجائے۔ کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ قیام امن کو خواتین کی ان غیر معمولی صلاحیتوں سے فائدہ ہو جووہ تنازعات کے حل میں استعمال کرسکتی ہیں۔

ہم نے آج کارکردگی کے احتساب کی روایت ڈالنے کی بات کی ہے۔ مشن کمانڈرز، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو جوابدہی۔ اورسب سے بڑھ کران لوگوں کو جوابدہی کہ جن کے تحفظ کے لئے مشن کو بھیجا جائے۔ لیکن یہ مقصد ہم اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتے جب تک ہم ان لوگوں کو یہ نہ دکھادیں کہ خراب کارکردگی کی صورت میں فوری اورشفاف کارروائی ہورہی ہے اوریہ جاننے کی حقیقی کوشش ہورہی ہے کہ غلطی کیوں ہوئی۔

ایسا کرنے کے لئے ہمیں اصلاحات اوراقوام متحدہ کے امن مشن کے ڈی این اے کو بہتر بنانے کی خواہش کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس زبردست کام کو اگلے سکریٹری جنرل تک جاری رکھنا ہے جو موجودہ سکریٹری جنرل بان کی مون اوران کی ٹیم کررہی ہے۔

اور اس سب کے لئے ہم سب کو، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور فوجی اور پولیس دستے بھیجنے والے ملکوں کو ایک ہی سمت میں بڑھنا ہوگا۔ وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کو۔ اقوام متحدہ کےمختلف شعبوں اورایجنسیوں کو ۔ ہمارے دارالحکومتوں اور دنیا بھر کے لوگوں کو۔

اور ہمیں، رکن ریاستوں کو ان افراد پر پوراسیاسی وزن ڈالنا ہوگا جو تنازعات پیدا کرتے یا انہیں ہوا دیتے ہیں۔ان پر جو امن کے ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں جو اقوام متحدہ کا موقف ہے۔ ہمیں قیام امن رضاکاروں کو میدان میں اپنے تمام وسائل، منظوریوں اور بندشوں سے لے کرپرانے فیشن کی سفارتکاری تک سے معاونت کرنا ہوگی۔ میں آپ کو یہ بتادوں کہ برطانیہ اس اجتماعی کوشش کا ہمیشہ ایک حصہ رہے گا۔ اقوام متحدہ کی اہمیت کا، سفارتکاری کی قوت اور قیام امن کے مستقبل کا کٹرحمایتی۔

آنے والے مہینوں اور سالوں میں ہم اس کو آگے بڑھاسکتے ہیں جس پر آج اتفاق کیا ہے، تین پی کو ایک حقیقت بناسکتے ہیں؛ قیام امن کے لئے کام کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہوکر شہریوں کو تحفظ دے سکتے ہیں، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کرانے میں مدد کر سکتے ہیں،اور انسانی امداد فراہم کرسکتے ہیں، تب ہی ہم حقیقی معنوں میں تنازعات میں کمی کی امید کرسکتے ہیں ۔ اورشاید ایک دن ہمیں ان نیلے ہیلمٹس والے بہادر مردوں اورعورتوں کی کم تعداد میں ضرورت پڑے۔ لیکن ابھی ہمیں ان کی واقعی ضرورت ہے، لہذا آئیے مل کر یہ یقینی بنائیں کہ ہمارے پاس ان کی صحیح تعداد، صحیح صلاحیتوں اور صحیح آلات کے ساتھ درست انداز میں کام کرنے کے لئے موجود ہے۔ .

شائع کردہ 9 September 2016