تقریر

آج خط تقسیم کشادہ اوربند معاشروں کے درمیان کھنچا ہوا ہے

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں نائب وزیراعظم نک کلیگ کی تقریر' کشادگی کے دفاع میں'سے چند اقتباسات.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Deputy Prime Minister Nick Clegg

میری زندگی میں دنیا کے کئی ٹکڑے ہوئے اوران پر کئی لیبل لگے: مشرق ومغرب،کمیونزم اورسرمایہ داری،جنوب اور شمال،مسیحی اورمسلمان، ترقی یافتہ اورترقی پزیر وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن آج جب ہم یہاں مل بیٹھے ہیں تو سب سے اہم غلط خط جغرافیائی،نظریاتی،مذہبی یا دولت کا نہیں ہے۔ یہ کشادہ اوربندمعاشروں کے مابین تقسیم کا خط ہے۔

کشادہ معاشرے اپنے ہاں جمہوریت اورآزادی کا اوربیرون ملک رابطے اورذمے داری کا انتخاب کرتے ہیں۔ بند معاشرے اپنے شہریوں کی آزادی پر قدغن لگاتے، اپنی سرگرمیوں پر پردہ ڈالتے اورہماری مشترک عالمی زندگی سے دور چلے جاتے ہیں۔ ہمیں یہاں دیانتداری سے کام لیتے ہوئے تسلیم کرنا ہوگا:الگ تھلگ رہنا یا تنہائی حالیہ برسوں میں زیادہ بڑھ گئی ہے۔

جمہوریت کوالزام دینا آسان لگتا ہے۔ مطلق العنان حکومتیں بڑی خوشی سے 2008ء کے مالی بحران کے بعد سے جاری ابتری کی طرف اشاراکرتی ہیں۔جوان کے کہنے کے مطابق ایک منتشر مغربی ماڈل کا ثبوت ہے۔ وہ اپنے آپ کویہ کہنے میں حق بجانب سمجھتی ہیں کہ ان کے شہری اگرچہ کم آزاد ہیں لیکن ان کی ترقی کی شرح مغرب سے زیادہ ہے.

اس کے ساتھ ساتھ مالی بحران سے دوچار کئی ملکوں میں سنگینی نے درون بینی کوجنم دیا ہے،وہ جرات سے سامنا کرنے کی بجائے ہتھیار ڈالنے پر مائل ہیں۔ کشادہ معاشرے تبدیلی سے خوفزدہ نہیں ہوتے اور 21ویں صدی میں پائیداراستحکام اور کامیابی کے لئے اصلاحات کے باب میں کشادگی لازمی ہے.

جمہوریت، آزادئی اظہار، شمولیت، قانون کی نظر میں مساوات، پرامن احتجاج کا حق، تعلیم کا حق، کام کرنے کےمواقع،یہ سب مغربی اقدارنہیں، یہ ہرملک کے شہریوں کی سیاسی اورمعاشی آزادی ہے اوردنیا کے ہرملک میں اس کے لئے جدوجہد بڑھ رہی ہے.

جو حکومتیں اسے نظر اندازکرتی ہیں وہ ہارنے والی جنگ لڑرہی ہیں۔

مصر میں جمہوریت ناکام نہیں ہوئی،انتخابات کا ایک موقع ناکام ہوا ہے۔ مصر کو اب مشمولی جمہوریت کی طرف پلٹنا ہے، جمہوریت کی لگن عوام میں اسی طرح برقرارہے جیسی ان کے ہاں پہلی بار تحریراسکوائرمیں نظرآئی تھی.

دوسرے خطوں میں صورتحال ملی جلی ہے.

میں ایرانی صدر حسن روحانی کے ایران اور باقی دنیا سے تعمیری رابطے اور جوہری مسئلے پر فوری رابطے کی خواہش کے اظہار کا خیر مقدم کرتا ہوں،مجھے امید ہے کہ یہ الفاظ مخلصانہ اقدامات کی شکل میں ظاہر ہونگے۔ مجھے خوشی ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام پرمذاکرات اکتوبر میں دوبارا شروع ہورہے ہیں۔اگر ایران کے الفاظ نے ٹھوس اقدامات کی شکل اختیار کی تو ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں سنگین عالمی خدشات کے دورکرنے میں پیشرفت کا حقیقی موقع پیدا ہوگا۔

ایک چیز جو مشرق وسطی کو بنیادی طورسے تبدیل کردے گی وہ اسرائیلی فلسطینی تنازع کے خاتمے کے لئےفیصلہ کن دو ریاستی حل ہے.

افغانستان میں جہاں ہم اپنی فوجی کارروائیاں ختم کرتے جارہے ہیں، برطانیہ کامیاب منتقلی کے لئےافغان حکومت کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہے۔افغان نیشنل سیکیورٹی فورسزاب تحفظ کی ذمے داریاں سنبھالے ہوئے ہیں اوران کے اعتماد اور اہلیت میں اضافہ ہورہا ہےیہ ایک نمایاں کامیابی ہے.

افغانستان میں آئندہ آنے والے سنگین مسائل کا برطانیہ کوادراک ہے۔لیکن ہمارا پختہ یقین ہے کہ ملک کے طویل المدتی مستقبل کے بارے میں خوش امیدی کی گنجائش ہے۔یہ افغان مرد،عورتوں اوربچوں کے لئےجبکہ وہ2014ء کے انتخابات کی تیاری کررہے ہیں ایک نازک وقت ہے، انتخابات کا معتبر، شفاف اورمشمولی ہونا ضروری ہے.

بلاشبہ ہم سب دہشت گردی کی لعنت سے دوچار ہیں۔خواہ وہ کوئی فوجی ہو جولندن کی ایک سڑک پربے رحمی سے مارا جائےیا نیروبی کے مصروف شاپنگ مال میں گولیوں کا شکار ہونے والے معصوم خریدار ہوں ہم سب ان کے سامنے غیر محفوظ ہیں۔ دہشت گردی کے باب میں ہماراعالمی ردعمل مستحکم، ہوشمندانہ ہونا چاہئیے اوراسے ان تمام شعبوں پر محیط ہونا چاہئیے جہاں ہمارا اجتماعی کام واقعی تبدیلی پیدا کرسکتا ہے۔ ہم تنہا چھوٹے چھوٹے قدم تو آگے بڑھا سکتے ہیں لیکن مل کر ہم لمبی جست لگا سکتے ہیں۔

ہماری قوموں کو درپیش یہ اوردیگر مسائل کے حل کے لئے ہم علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ مربوط ہوکرہی مضبوط بن سکتے ہیں۔پہلے سے زیادہ ہمیں اب الگ تھلگ رہنےوالی اورتنہائی پسندی کی قوتوں کو شکست دیناہوگا اور اپنی اقدارکے لئے کھڑے ہوکر دنیاکی طرف متوجہ ہونا پڑےگا۔

جناب صدربرطانیہ یہی کرےگا۔اور ہم ان سب کا ساتھ دینے کو تیار ہیں جو یہی کچھ کریںگے

شائع کردہ 27 September 2013