تقریر

سکریٹری داخلہ تھریسا مے کا انسدادِ دہشت گردی پربیان

ہم ایک ایسی جدوجہد میں مصروف ہیں جو کئی محاذوں پراور کئی نوعیتوں کے خلاف کی جارہی ہے. تھریسا مے کی تقریرکے اہم اقتباسات پیش ہیں۔

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Home Secretary

مکمل تقریرانگریزی میں

اس موسم گرمامیں مشترکہ دہشت گردی تجزیہ مرکز (JTAC )نے بین الاقوامی دہشت گردی کے خطرے کی سطح ‘کافی ‘ سے ‘شدید’ ہونے کا اعلان کیا۔ اس کامطلب ہے کہ مرکزکو یقین ہے کہ برطانیہ پرحملہ بہت ممکن ہے۔ خطرے کی سطح کو تبدیل کرنے کا فیصلہ بنیادی طور پرشام اورعراق میں حالات کی وجہ سے کیا گیاتھا جہاں دہشت گرد گروپ داعش مختلف علاقوں پرقبضہ کئے ہوئے ہے۔ ہمیں یقین ہےکہ پانچ سوسے زائد برطانوی شہری شام اورعراق گئے ہیں اور ان میں سے کئی اس جنگ میں حصہ لینے گئے ہیں۔اور ان کے ساتھ اب یورپی اور دیگر مغربی ممالک کے ہزاروں افراد شامل ہوچکے ہیں۔

لہذا ہمیں لاحق داعش کاخطرہ واضح ہےاور یہ سنگین ہے۔ لیکن صرف یہی خطرہ نہیں۔ نائیجیریا میں بوکو حرام، یمن میں القاعدہ، متعلقہ تنظیمیں لیبیا میں، مشرقی افریقہ میں الشباب، پاکستان اور افغانستان میں حملوں کے منصوبے بناتے دہشت گرد اور ہمارے ملک میں پرورش پانے والے انتہا پسند جو برطانیہ میں ہی بنیاد پرست بن گئے ہیں۔

ان میں سے کچھ تنظیمیں اپنے ملک سے بہت دوردراز لگتی ہیں لیکن ہر ایک کامقصد ہمارے شہریوں اور ہمارے مفادات پر حملہ کرنا ہےاورہرایک ہماری قومی سلامتی کے لئے حقیقی خطرہ ہے۔ یہ جدوجہد کئی طرح سے کی جارہی ہے۔

ہمیں خطرات دنیا بھر سے اور ملک کے اندر سے لاحق ہیں۔ بیرون ملک اور یہاں ہماری سڑکوں پر برطانوی مفادات کوخطرہ ہے۔ خطرے جو صرف اسلامی انتہاپسندی سے نہیں، اگرچہ اب تک وہ سب سے بڑا خطرہ ہے، بلکہ انتہائی دائیں جانب شمالی آئرلینڈ سے متعلق اور اس کے علاوہ دیگرخطرات ہیں۔ منصوبے جو سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد کوہلاک کرنے کے لئے، منصوبے جو مخصوص افراد کو نشانہ بنانے کے لئے بنائے جارہے ہیں۔ منصوبے جو ہماری معیشت کو بری طرح تباہ کرنے کے لئے ہیں۔ سائبر خطرات دشمن ملکوں اور دہشت پسند تنظیموں کی جانب سے۔ مسجدوں، گھروں اورکمیونٹی مراکز کے بنددروازوں کے پیچھے بلکہ اسکولوں، یونی ورسٹیوں اورجیلوں میں بنیاد پرستی پنپ رہی ہے۔آن لائن اورسوشل میڈیا سے نفرت انگیز بنیاد پرستانہ پروپیگنڈا کھلے طورسے پھیلایا جارہا ہے۔ آن لائن حملوں کے منصوبوں پرخفیہ ایجنسیاں کڑی نظر رکھ رہی ہیں۔

ہم نے ایک مستحکم انسداد دہشت گردی حکمت عملی کوآگے بڑھایا ہے۔

لہذایہ جدوجہد وہ ہے جوکئی محاذوں اور کئی نوع سے کی جارہی ہے۔ اس لئے ہمیں انسداد دہشت گردی کی ایک حکمت عملی کی ضرورت ہےجو جامع اور مربوط ہو۔ جوحکمت عملی ہمیں گزشتہ حکومت سے ورثے میں ملی وہ کافی مستحکم تھی۔اقتدار میں آنے کے بعد ہم نے انسداددہشت گردی کے اختیارات پر نظر ثانی کی اورکچھ خصوصی پالیسی تبدیلیاں کیں البتہ اصل حکمت عملی برقرار رہی۔

ہم نے ہمیشہ کہاہے کہ ہم دہشت گردی قوانین اورانسداد کی اہلیت پر نظر ثانی کرتے رہیں گے اس لئے ہم واقعات، نئے خطرات اوراپنے دشمنوں کے مختلف طریقہ کار پرکارروائی کے اہل ہیں۔ ہم نے 7/7 کی تحقیقات سے سیکھا ہے کہ ہنگامی سروسز کے درمیان بہتر عملی تعاون کی بہت ضرورت ہے۔ ہم نے 2008 میں ممبئی کے حملوں سے بھی سیکھا ہے۔ ہم نے ان غیرملکیوں سے نجات پانے کو آسان بنانے کے لئے بہت محنت کی ہے جن میں دہشت گرد اور مشتبہ دہشتگردشامل ہیں جنہیں اس ملک میں نہیں ہونا چاہئیے۔ ہم نے قانون میں تبدیلی کی ہے تاکہ عدالتوں پرواضح ہوجائے کہ انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کی دفعہ آٹھ جو خاندانی زندگی کے حق کے بارے میں ہے وہ کوئی غیر مشروط حق نہیں بلکہ حالات سے مشروط ہے۔

میں یہ نہیں کہونگی کہ یہ سب آسان کام تھا۔ لیکن مشکلات کے باوجود ہم نے وسیع طور سے مستحکم حکمت عملی کو جو ہمیں گزشتہ حکومت سےورثے میں ملی، آگے بڑھایا ہے اور ہمارا ریکارڈاس معاملے میں بہت مستحکم ہے کہ ہم نے پولیس اورسیکیورٹی سروسز کو وہ اختیارات اوروسائل دئیے ہیں جن کی ضرورت انہیں ہمارے تحفظ کے لئے تھی۔

نیا انسداددہشت گردی اورسلامتی بل

میں یہ تصدیق کرسکتی ہوں کہ جیسا کہ وزیراعظم نے اس موسم گرمامیں اعلان کیا تھا، حکومت بدھ کو ایک نیا انسداددہشت گردی اورسلامتی بل متعارف کررہی ہے۔

اس بل کے تحت ہمیں بنیاد پرستی، دہشت گردی سے بچاؤ اور تحقیقاتی اقدامات(TPIM) نظام کے استحکام، بیرون ملک جاکر لڑنے والے افراد کی نقل و حرکت پر کنٹرول اور ان کومنتشر کرنے کے لئے مزیداختیارات، اپنی سرحدوں کی سلامتی کی بہتری اور یہ یقین دہانی کہ برطانوی کمپنیاں لاشعوری طور پرتاوان کی ادائیگی تو نہیں کررہی ہیں، کے لئےمزید اختیارات مل جائِیں گے۔

بنیاد پرستی جیسا کہ میں نے پہلے وضاحت کی کہ ہم نے بچاؤ (PREVENT)پروگرام کی اصلاح کی ہےلیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا اب بھی بہت کچھ کرنا ہے اور آگے جانا ہے۔

ہم اداروں کوجیسے اسکولوں، کالجوں، یونی ورسٹیوں، پولیس، جیلوں، پروبیشن فراہم کرنے والوں اور مقامی حکومتوں پر قانونی فریضہ عائدکریں گے کہ وہ لوگوں کو دہشت گردی کی جانب جانے سے روکیں۔ لہذا مثال کے طور پر یونی ورسٹیوں کو انتہاپسندی سے متعلق پالیسی رائج کرنا ہوگی اور جیلوں کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ انتہا پسند قیدیوں سے موزوں طریقےسے نمٹ رہی ہیں۔

نئےبل سے حکام کو ان افراد کو منتشر کرنے اور ان کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے کے لئے مزید اختیارات مل جائِیں گے جو بیرون ملک جاکر لڑنا چاہتے ہیں۔

لوگوں کو ملک چھوڑنے سے روکنے کے ان نئے اختیارات کے علاوہ بل سے ایک قانونی عارضی بےدخلی حکمنامہ بھی تشکیل پائے گا وہ ایسے برطانوی شہری کی برطانیہ واپسی کو کنٹرول کرسکیں گےجس پر بیرون ملک دہشت گردی کی سرگرمیوں کا شبہ ہو۔

ہم فضائی سلامتی کے انتظامات کو بھی سخت تر کررہے ہیں۔اس کامطلب ہے کہ ائر لائنوں کومسافروں کی تفصیلات زیادہ موثر انداز میں فراہم کرنا ہونگی۔اور برطانیہ کی سرحدوں پر ہمیں سیکیورٹی اوراسکریننگ کی اپنی اہلیت میں اضافہ کرنا ہوگا۔اگر ائر لائن ہمیں مسافروں کی معلومات نہیں دیں گی یا ہمارے سیکیورٹی اسکریننگ ضابطوں کی تعمیل نہیں کریں گی تو ہم انہیں برطانیہ آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ہمارے جیسے کھلے اور آزاد معاشرے میں ہم دہشت گردی کے خطرے کومکمل طور سے تونہیں ختم کرسکتے۔ لیکن ہمیں ہر ممکن کوشش کرنا چاہئیے کہ اپنے دشمنوں سے لاحق خطرات کو کم کرسکیں۔ حکومتی پالیسی،ہماری انسداددہشت گردی حکمت عملی اور یہ قانون تمام کامقصد یہی ہے۔ ہماری جدوجہد کئی سال چلے گی۔اور اس وقت جو خطرہ ہمیں لاحق ہے وہ شاید ہمیشہ سے زیادہ سنگین ہے اورہمیں اپنے دفاع کے لئے اختیارات کی ضرورت ہے جو ہمیں ملنا چاہئیں.

شائع کردہ 24 November 2014