پریس ریلیز

وزارت خارجہ:گمشدہ بچوں کا عالمی دن

وزارت خارجہ برطانیہ ہرہفتے بچوں کے اغوااوربین الاقوامی تحویل کے 10 نئےکیس نمٹاتی ہے۔ .

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Child Abduction

وزارت خارجہ کے وزیر برائےکونسلرسروسزمارک سمنز نے ان افراد کے حوصلےکی تعریف کی ہے جو کسی بچے کے اغوا یا گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں.

گمشدہ بچوں کے عالمی دن کے موقع پرمارک سمنزنے کہا:

آج کادن عوام کو ان بچوں کے بارے میں آگاہی دلانے کا دن ہے جو گمشدہ ہیں یا برطانیہ کے اندر یا بیرون ملک اغوا کرلئے گئے ہیں۔ بچے کئی قسم کے حلات میں لاپتا ہوتے ہیں اور تمام صورتوں میں ہم ان کو تلاش کرنے اور ان کے گھر واپس لانے کے لئے بے حد کوشش کرتے ہیں.

ان میں وہ بچے شامل ہیں جو اپنے ہی ماں یا باپ کے ہاتھوں اغوا ہو کے بیرون ملک لے جائے جاتے ہیں۔ ان کیسوں کو عام طور پر اتنی توجہ نہیں مل پاتی لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ والدین کے ہاتھوں بچے کا اغوا بھی بچوں پر تباہ کن اثرات پیدا کرتا ہے ، ان کے اپنے والدین سے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے گھروں سے محروم ہوجاتے ہیں.

یہ مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ 9 سال میں نئے کیسوں میں 81 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ 4/2003ء میں وزارت خارجہ نے 51 ملکوں میں کیسوں پرکام کیا،یہ تعداد اب 84 ممالک میں تبدیل ہوچکی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ کتنا پھیل چکا ہے اور دنیا کے ہر حصے میں لوگوں کو متاثر کررہا ہے.

ہم بچوں کےبین الاقوامی اغوا سے متاثرہ خاندانوں کو مشورے اورتعاون فراہم کرنے کے لئے جو ممکن ہوا کرتے رہیں گے۔ لیکن یہ کیس بے حد مشکل سے حل ہوتے ہیں اوراس حقیقت کے باوجود کہ ان کے لئے مدد میسر ہے، ان کو حل کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں.

لاپتا بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں محض لاپتا اوراغوا شدہ بچوں کے ہی بارے میں نہیں سوچنا چاہئیے بلکہ یہ غورکرنا چاہئیے کہ اغوا کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے کس طرح ختم کیاجائے۔ والدین کے درمیاں اختلافات ایسے نہیں کہ انکی خاطر بچوں کوان کے گھر سے محروم ہونے کی اذیت میں مبتلا کیا جائے.

کیس اسٹڈی- الگزینڈرخان جو اغوا کرکے پاکستان لے جائے گئے

میرے والدین کا تعلق بے حد مختلف پس منظر سے ہے۔ میرے والد پاکستان سے اوروالدہ انگریز ہیں۔ان کی شادی ساٹھ کے عشرے کےاواخر میں ہوئی جب مخلوط نسل کی شادیاں اتنی پسند نہیں کی جاتی تھیں۔ اس رشتے پر میرے والدکے خاندان کی طرف سے کافی دباؤ پڑاکیونکہ وہ سب ناخوش تھے کہ انہوں نے ایک’کافر’ سے شادی کی ہے۔ کچھ عرصے بعد پتاچلا کہ میرے والد پاکستان میں پہلے ہی ایک شادی کرچکے تھے۔جب میں تین سال کا ہوا تو میرے والدین میں چند سال کی شادی کے بعدعلیحدگی ہوگئی۔

علیحدگی کے بعد یہ طے پایا کہ میں ماں کے ساتھ رہونگا اوروالد کو ملنے کی اجازت ہوگی۔ ایک روزمیرے والد مجھے والدہ کی اجازت سے باہر لے گئے۔ انہوں نے والدہ سے کہاکہ وہ مجھے پارک لے جارہے ہیں اورانہوں نے خوشی سے اجازت دے دی۔انہیں کیا پتا تھا کہ تین گھنٹے بعد میں اپنے والد کے ساتھ پاکستان جانے کے لئے جہاز پربیٹھا ہوا ہونگا ۔

میں اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے یاد نہیں کہ مجھے اغوا کیا گیا اورمیں اپنی والدہ سے دورپاکستان میں پلا بڑھا۔ میں نے ابتدائی شخصیت سازی کے اہم سال اپنی والدہ کے بغیر اپنے والد اوران کے خاندان کے درمیان گزارے۔ جب میں سات سال کا ہوا تووالد نے برطانیہ واپسی کا فیصلہ کیا اورہم واپس آکر اپنی آنٹی کے ساتھ رہنے لگے۔

آنٹی مجھ پر بہت سختی کیا کرتی تھیں، ان کے ساتھ گزارے ہوئے عرصے کی یادیں ناخوشگوار ہی ہیں، تاہم جب میں 10 سال کا ہواتو میرے والد کی پاکستانی بیوی اوربچے برطانیہ آگئے اور ہم ان کے ساتھ رہنے لگے۔ اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کے ساتھ رہ کراوران کا اپنی ماں کے ساتھ گھلنا ملنا دیکھ کے میں نے والد سے اپنی ماں کے بارے میں سوالات شروع کر دئیے۔ وہ سب مجھےبتاتے کہ میری والدہ شرابی، بدقماش اورمیری پرورش کے نااہل تھیں۔ میں نے ان کا یقین کرلیا اوران کے ساتھ رہتا رہا۔

چند سال بعد میرے والد کا اچانک حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوگیا، میں سوتیلی ماں اور بہن بھائیوں کے ساتھ رہ رہا تھا لیکن خوش نہیں تھا۔ جب میں 20 سال کا ہوا تو میں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنی زندگی بہتربناؤں اوراس کمیونٹی سے باہرنکلوں جو میں سمجھتا تھا کہ میرا اس سے تعلق نہیں ہے۔ گھر سے نکل کے میں برطانوی فوج میں بھرتی ہوگیا جس سے میرے اندر اپنی ماں کو تلاش کرنے کے لئےبڑا اعتماد اورطاقت پیدا ہوئی۔2000ء میں میں نے انٹرنیٹ پرماں کی تلاش شروع کردی۔

جب میں 33 سال کا ہوا تو مجھے اپنی ماں کا سراغ آن لائن ایک ٹریکر سے مل گیا ورنہ میں تو سمجھ رہا تھا کہ شاید وہ اس دنیا میں نہیں۔ ابتدائی رابطے کے بعد ہم باقاعدگی سے ٹیلی فون پر لمبی لمبی گفتگو کرنے لگے، وہ میرے ہر سوال کا جواب دیتیں۔ پھر جلد ہی انہوں نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرے سامنے ماں کی جو نقشہ کشی کی گئی تھی وہ سب جھوٹی تھی۔ وہ تو اس وقت سے میری تلاش میں تھیں جب میں غائب ہوگیا تھا، نہ وہ شرابی تھیں اورنہ بدقماش۔ میرے والد کے خاندان نے میرے بارے میں میری ماں سے بھی جھوٹ بول رکھا تھا۔ان سے کہا گیا تھا کہ میں ایک کارحادثے میں ہلاک ہوگیا اورپاکستان میں دفن ہوں تاہم انہوں نے اس پر کبھی یقین نہیں کیا۔

ہم 30 سال کی جدائی کے بعد ملے۔ لیکن اس اغوا کے اثرات اب بھی ہمارے رشتے میں دکھائی دیتے ہیں۔ ماں سے جدائی نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا ہے۔اگر مجھے بچپن میں معلوم ہوتا کہ اس قسم کی صورتحال میں مددمل سکتی ہے تو میں بھی ایک نارمل انسان ہوتا۔’’

مزید معلومات

اپریل 2011ء سے مارچ2012ء کے دوران وزارت خارجہ نے بچوں کے اغوا ، بین الاقوامی تحویل اوررسائی کے 512 نئے کیسوں میں تعاون فراہم کیا، جو کہ اوسطا روزانہ 4 کالوں کے برابر ہے، ان میں سے نصف سے زیادہ نئے کیس تھے۔ متعدد کیسوں کی اطلاع نہیں دی جاتی کیونکہ والدین اپنے بچوں کی تحویل کے لئے غیر ملکی عدالتوں سے یا نجی طور پر خاندان میں ہی ثالثی کے ذریعے معاملات نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں، اس لئے یہ عداد کئی گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔ > اگر آپ کسی بچے کے اغوا کے بارے میں فکر مند ہیں تو ری یونائٹ انٹر نیشنل چائلڈ ایبڈکشن سینٹر سےٹیلی فون نمبر 234 2556 0116 پررابطہ کیجئیے

ملاحظہ کیجئیےبچوں کے بین الاقوامی اغواپر رہنما دستاویز

وزارت خارجہ کی معلومات چند مخصوص ملکوں میں بچوں کا اغوا

والدین کے ہاتھوں بچوں کا اغوا

مارک سمنز ٹوئٹر پر@MarkJSimmonds

اردو میں ٹوئٹر @UKUrdu

اردو میں فیس بک facebook

شائع کردہ 25 May 2013