خبروں کی کہانی

کیمپ باسٹین بند ہوجائیگا

اس سال کے خاتمے تک افغانستان میں برطانیہ کا مرکزی فوجی اڈا بند کردیا جائیگا۔ آئیے اس شخص سے ملئیے جو یہ کام سر انجام دےگا.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Lieutenant Colonel Laurence Quinn [Picture: Crown copyright]

Lieutenant Colonel Laurence Quinn

ویسے تو یہ منظر ایک تجربہ کار آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے لیکن اگر کیمپ باسٹین پر بلندی سے نظر ڈالی جائے تو وہ برطانوی اور امریکی ٹاؤن پلاننگ کے فرق کی ایک اچھی مثال نظر آتا ہے۔ایک چارٹرڈ سول انجینئیر اورجوائنٹ فورس سپورٹ کے انفرا اسٹرکچر ماہر کی حیثیت سے لفٹنینٹ کرنل لارنس کوئن ایسی ہی نگاہ رکھتے ہیں.

ایک وسیع بریفنگ میز کے گرد چلتے ہوئے جس پر کیمپ کا ہوائی فوٹو رکھا ہوا تھا، کرنل کوئن نے کیمپ باسٹین کا بڑی محبت سے خاکہ کھینچا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ایک چھوٹی سی برطانوی آبادی کا نقشہ بیان کررہے ہیں کہ کیسے وہ کئی نسلوں کے دوران تعمیر ہوئی اورصنعتی ضروریات اور آبادی دباؤ کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی اور ایک گاؤں سے شہرمیں تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے کہا:

ہم نے شروعات ایک چھوٹے سے کیمپ اور چند خیموں سے کی اور ایک فلائٹ لائن تھی جسے ہم’ ننھا ہیتھرو’ کہتے تھے۔ آپ بس کے ذریعے لینڈنگ پٹی پر جاتے جس کی کوئی حفاظت بھی نہیں کی جاتی تھی اوربس.

A C-130 aircraft lands at Camp Bastion

The first C-130 aircraft lands at the temporary landing zone at Camp Bastion in 2006 (library image) [Picture: Corporal Mike Fletcher, Crown copyright]

انہوں نے بتایا کہ کس طرح دھیرے دھیرے ہم نے رقبے میں اضافہ کیا اور اسے رہائش گاہوں اورعملے سے بھر دیا۔ سننے میں یہ انوکھی سی بات لگی ۔انہوں نے تصویر میں ایک دوسرے خاصے مختلف ایریا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

اور پھر امریکی آگئے۔ انہوں نے یکدم ہی سارا کام کرلیا۔ بڑے منظم طریقے سے امریکی طرز کی سڑک پر واحد پاور نظام کے ساتھ ۔ امریکی مشین کی قوت اور توانائی جبکہ ہم برطانوی خوشی خوشی ادھر ادھر ٹکڑے لگاتے رہے۔ اور باسٹین 2 اور باسٹین 3 اور مزید وجود میں آتے رہے۔ بہت بنیادی سا کام تھایہ.

کرنل کوئن کیمپ باسٹین کی بنیاد کے وقت وہیں تھے۔انہوں نے اسے بڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ آخر تک وہیں ہونگے۔انہوں نے بتایا:

میں نے رضاکارانہ یہ پیش کش کی کیونکہ یہ آخری بڑا انفرااسٹرکچرچیلنج ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہم آئندہ اس پیمانے پر کوئی اور تعمیر کریں گے.

یہ ایک زبردست اڈا ہے، برطانوی فوج نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اب تک جتنے اڈے تعمیر کئے ہیں شاید ان میں سب سے بڑا۔اور یاد رکھئیے یہاں جو کچھ بھی آپ دیکھ رہے ہیں ہر شے یہاں ہیلی کاپٹر یا جہاز سے لائی گئی ہے.

اس کی تعمیر عین اس مقام کے وسط میں جسے سکندر اعظم نے’’ موت کا صحرا ‘’ کا نام دیا تھا اور ایسے دشمن کے ہوتے ہوئے کی گئی جو ہمیں ہلاک کرنا چاہتا تھا.

A Royal Marines commando is treated at Camp Bastion's medical facility

A Royal Marines commando is treated at Camp Bastion's medical facility in 2006 (library image) [Picture: Petty Officer (Photographer) Sean Clee, Crown copyright]

بنیادی فائدہ

ایسا لگتا ہے کہ جب اسے منہدم کرنے کا وقت آئیگا تو ٹاؤن پلاننگ کا برطانوی انداز انفرااسٹرکچر ماہرین کے لئے زیادہ درد سر کا سبب نہیں ہوگا۔ بنیادی طرز تعمیر کا ایک فائدہ یہ ہے کہ کرنل کوئن اسے دفاعی استحکام کی پرواہ کئے بغیرگرا سکتے ہیں:

ان آلات کو، جو برطانیہ رکھنا چاہتا ہے جس میں 3345 گاڑیاں،50 جہاز اور 5500 شپنگ کنٹینرزہیں،منتقل کرنا اس عمل کا حصہ ہوگا۔ ناکارہ یا استعمال شدہ اشیا کا مسئلہ دوسرا ہے۔ ہزاروں ٹائر، ٹنوں کے حساب سےبیلسٹک شیشے اور سینکڑوں ائر کنڈیشننگ یونٹ اور پرنٹر کارٹریج اسکریپ یا فروخت کردئیے گئے ہیں کیونکہ ان کو واپس لانامالی نقصان کا سبب بنتا.

Camp Bastion's dining facility

Camp Bastion's dining facility has fed up to 4,900 people a day (library image) [Picture: Crown copyright]

بند کرنا

کرنل کوئن کے پاس اب تفصیلی فہرست موجود ہے کہ کن اثاثوں کا ہوگا جس میں خاردار باڑھ سے لیکر زہر آلود ٹینک شامل ہیں۔اس عمل کو یقینی بنانے کے لئے کرنل نے ایک کاؤنٹ ڈاؤن فہرست تیار کی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

میں لوگوں سےکہہ سکتاہوں کہ ہاں اب کھانے کا انتطام فلاں دن ختم ہوجائیگا اس کے بعد ابلا ہوا پانی اور راشن کے پیکٹ ملیں گے۔ فلاں وقت رہائشی سہولت ختم ہوجائے گی تو آپ اس سے پہلے آخری بار نہالیں اورفلش چلالیں۔ اس کے بعد آپ خیموں میں ہونگے۔آخری 2 یا 3 ہفتوں میں یہ جگہ بالکل بدل چکی ہوگی.

آخری مرحلوں میں کرنل کوئن کے ساتھ انجینئروں کی ایک ٹیم ہوگی جو پاور بندکرنے، پانی کا کنکشن بند کرنے اور افغانوں کو یہ بتانے کا کام کرے گی کہ وہ چاہیں تودوبارا اس کنکشن کو کیسے جوڑ سکتے ہیں اور انہیں ان اشیا کے مینوئل بھی دے دئیے جائیں گے اور ہر شے محفوظ حالت میں ہوگی.

کرنل کوئن کو افغانوں سے بات چیت کرکے یہ اندازہ ہوا ہے کہ وہ کیمپ باسٹین سے بہت متاثر رہے ہیں۔اور انہیں امید ہے کہ کیمپ کا مستقبل کیسا بھی ہو وہ کارآمد رہے گا.

A handler walks her dog along a snow-covered road

A handler walks her dog along a snow-covered road at Camp Bastion in February 2013 (library image) [Picture: Sergeant Dan Bardsley, Crown copyright]

میراث

کرنل کوئن کے خیال میں کیمپ باسٹین کو کس انداز سے یاد رکھا جائیگا؟

مختلف طریقوں سے۔ کچھ لوگ ‘باسٹین کی جنگ’ کے طور پر یاد رکھیں گے اور کچھ ایک مخاصمانہ ماحول میں ایک معتبر پناہ گاہ کے طور پر.

یہ وہ جگہ تھی جہاں سے پورے آپریشن کے دوران پانی کی بوتلوں سے لے کر تیزرفتار فضائی تعاون فراہم کیا جاتا رہا۔ یہاں آپ کے کپڑے دھلتےاور جو لوگ باہر کارروائی میں حصہ لیتے وہ واپس آکر کچھ نارمل وقت گزار سکتے تھے، نہاتے،شیو کرتے اور کافی پیتے.

یہ وہ سہولت تھی جس نے ہمیں ہلمندمیں کارروائی میں مدد دی۔ اس کے خاتمے سے کچھ دکھ ہورہا ہے.

یہ انٹرویوپڑھنے کے لئے Defence Focus – یہ میگزین فوج کے ہر شخص کے لئے ہے.

شائع کردہ 19 June 2014