خبروں کی کہانی

برطانوی اقدار: ڈیوڈ کیمرون کا مضمون

میگنا کارٹا کی 799 ویں سالگرہ کے موقع پر وزیراعظم نے میل آن سنڈے اخبار کے لئے برطانوی اقدارکے موضوع پر ایک مضمون تحریر کیا ہے.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
The Magna Carta.

Photo: Pat Sullivan/AP/PA Images.

اس ہفتےبرمنگھم کے چند اسکولوں میں ٹروجن ہارس تنازع کے بعد برطانوی اقدارپربڑی بحث چھڑگئی کہ یہ اقدارکیا ہیں اور تعلیم کے شعبے میں انہیں کیا کردار ادا کرنا چاہئیے۔

میں جن اقدار کی بات کررہاہوں – آزادی، دوسروں کے باب میں رواداری، ذاتی اورسماجی ذمے داریوں کا قبول کرنا، قانون کی بالادستی کےاحترام پر یقین- یہ وہ اقدار ہیں جن پر ہمیں روزمرہ عمل کرنا چاہئیے۔ میرے لئے یہ یونین فلیگ، فٹبال، فش اورچپس جیسی برطانوی ہیں۔ بلا شبہ لوگ کہیں گے کہ یہ اقدار دوسروں کے ملکوں میں اتنی ہی اہمیت رکھتی ہیں۔اور بلا شبہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں۔لیکن برطانیہ کو جو چیز دوسروں سے ممیز کرتی ہے وہ روایات اورتاریخ ہے جو ان کو قائم رکھتی اورپھلنے پھولنے اورفروغ پانے کا موقع دیتی ہے۔

ہماری آزادی ہوا کا جھونکا نہیں۔یہ ہماری پارلیمانی جمہوریت اورآزاد صحافت کی جڑ میں پیوست ہے۔ ہمارا احساس ذمے داری اور قانون کی بالادستی کا شعور ہماری عدالتوں اورخودمختارعدلیہ سے وابستہ ہے۔ رواداری میں ہمارا یقین جدوجہد سے حاصل کیا گیا ہےاور مختلف گرجاگھروں اورعقائد گروپوں سے جڑا ہےجو برطانیہ کو اپنا وطن قرار دیتے ہیں۔

یہ ادارے ہماری اقدار کے نفاذ،انہیں برقرار رکھنے اورہرشخص پریکساں اطلاق کی ضمانت میں ہماری مدد کرتے ہیں۔اور انہیں جمع کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ – ہماری اقدار اور تاریخ کے لئے ہمارا احترام جس نے ان اقدار کو مرتب کیا اور ادارے جو انہیں برقرار رکھتے ہیں – برطانویت کی بنیاد ہیں۔اس کے بغیر ہم سڑکوں پر آزادی سے نہیں چل سکتے، وہ نہیں کہہ سکتے جو کہنا چاہتے ہیں، وہ نہیں رہ سکتے جو ہم ہیں، وہ نہیں کر سکتے جو کرنا چاہتے ہیں۔اس قسم کے( ڈیلی میل) اخبارزندہ نہیں رہ سکتے ۔ میرے جیسے رکن پارلیمنٹ جمہوری طورپرمنتخب نہیں ہو سکتے۔ ہماری ملکیت ہماری نہیں رہ سکتی۔

سوال یہ ہے:کیا ہمیں ان اقدار کا سرگرمی سے فروغ کرنا چاہئیے؟ میں قطعی طور سے کہہ سکتا ہوں کہ ضرور کرنا چاہئیے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ یہ فخراورقوم پرستی کا معاملہ ہے۔ کبھی کبھی اس ملک میں ہم اپنی کامیابیوں کے سلسلے میں نک چڑھے ہوجاتے ہیں اوراپنی برطانویت پر جھجک بھی محسوس کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔ بلاشبہ ہمیں اپنی تاریخ کے دھبوں وغیرہ کی بھی تعلیم دینا چاہئیے۔ لیکن ہمیں اس پرفخر ہونا چاہئیے جو برطانیہ نے آزادی کے دفاع اور ان اداروں کی تشکیل کے لئے کیا ہے یعنی پارلیمانی جمہوریت، آزاد صحافت، قانون کی حکمرانی جو دنیا کے تمام لوگوں کے لئے ضروری ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس نے فاشزم کے خلاف لڑائی میں مدددی، کمیونزم کا تختہ الٹا اورغلامی کا خاتمہ کیا؛ ہم نےاسٹیم انجن،روشنی کے بلب، انٹرنیٹ ایجاد کیا،اورہم نے دنیا کو طرززندگی کے باب میں وہ بہت کچھ دیا جسے وہ عزیز رکھتے ہیں۔ جیسا کہ صدراوباما نے پارلیمنٹ میں اراکین اور لارڈز سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’ جوابتدا اس جزیرے پر ہوئی وہ یورپ کے براعظم اور دنیا بھرمیں لاکھوں کو متاثر کرے گی۔’

لیکن دو اوروجوہ سے ہمیں ان اقدار کا فروغ کرنا چاہئیے۔ پہلی وجہ معاشی ہے۔

میرا محکم یقین ہے کہ ہماری اقدار ہماری خوشحالی کی بنیاد ہیں۔ متحرک جمہوریت اورآزاد تخلیق کےملے جلے مغربی نمونے نے زبردست پیش رفت اورخوشحالی پیدا کی ہےلیکن اسے دوسرے اقتصادی ترقی کے زیادہ حاکمانہ نموںوں سے چیلنج کا سامنا ہے جیسے روس کا۔

اب وقت ہے خوداعتمادی کے مظاہرے کا۔ سادہ لیکن گہری حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نظام میں حکومت کو عدالت میں شکست ہو سکتی ہے، سیاستدانوں کوووٹ کے ذریعےاقتدارسے باہر کیا جاسکتا ہے اور اخبارات اپنی پسند سے جو چاہیں وہ شائع کرسکتے ہیں۔ یہ کمزوری نہیں یہ بنیادی طاقت ہے۔ دوسرے معنوں میں ہماری اقدار کا فروغ معاشی کامیابی کا کلیدی طریقہ ہے اور اسی لئے ہم اپنے خسارے میں کمی، ٹیکسوں میں کمی اور کاروباروں اور خاندانوں کو آگے بڑھنے میں مدد کرنے کا طویل المدت منصوبہ جاری رکھیں گے۔

دوسری وجہ ہے سماجی۔ ہماری اقدار کو ہمیں متحد رکھنے میں لازمی کردار ادا کرنا ہے۔انہیں یہ یقینی بنانے میں ہماری مدد کرنا ہوگی کہ برطانیہ نہ صرف مختلف ملکوں، ثقافتوں اورنسلوں کے لوگوں کونہ صرف قریب لائے بلکہ یہ بھی یقینی بنائیں کہ مل جل کر ہم ایک مشترکہ گھر بنائیں۔

حالیہ سالوں میں ہماری جانب سے ایکپریشان کن پیغام بھیجے جانے کا خطرہ رہا ہے: اگر آپ جمہوریت میں یقین نہیں رکھنا چاہتے تو ٹھیک ہے؛ اگر مساوات آپ کو پسند نہیں،تو فکر کی کوئی بات نہیں؛ اگر آپ دوسروں کے ذرا بھی روادارنہیں تو ہم اسے بھی برداشت کرلیں گے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے اس سے نہ صرف ہم تقسیم کی طرف گئے بلکہ اس نے متشدداورغیرمتشدد دونوں قسم کی انتہا پسندی کوپنپنےکی اجازت دی- لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں برطانوی اقدار اوران کو سر بلند رکھنے والےاداروں کے فروغ میں مستحکم ہونا چاہئیے۔ ایک حقیقی لبرل ملک ایسا ہی کرتا ہے: وہ مخصوص اقدار میں یقین رکھتا ہے اور سرگرمی سے انہیں فروغ دیتا ہے۔ وہ اپنے شہریوں سے کہتا ہے:یہی ہے جس سے ہمارے معاشرے کی عکاسی ہوتی ہے۔

عملا اس کا مطلب کیا ہے؟ ہم پہلے ہی چند بڑے قدم اٹھاچکے ہیں۔

ہم یہ یقینی بنارہے ہیں کہ نئے تارکین وطن انگریزی بول سکیں،کیونکہ اگر وہ انگریزی نہ بول سکیں توان کے لئے ان اقدار اور ہمارے اداروں کی تاریخ کو سمجھنا مزید مشکل ہوگا۔

ہم نصاب میں باقاعدہ تاریخ کا مضمون واپس لارہے ہیں تاکہ ہمارے بچے ہمارے جزیرے کی کہانی کو جان سکیں اور یہ انہیں معلوم ہوسکے کہ ہماری آزادیاں اور پارلیمنٹ اور آئینی بادشاہت کہاں سے آئی ہے۔

اور جیسا کہ اس ہفتے ہم نے اعلان کیا ہم اسکولوں کے معاملے میں اپنے طریقہ کارمیں مزیدتبدیلی لارہے ہیں۔ ہم کہہ رہے ہیں کہ اسکولوں میں ان اقدارکا محض احترام کافی نہیں- ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اساتذہ کو انہیں سرگرمی سے فروغ دینا ہوگا۔یہ اختیاری نہیں؛ برطانیہ میں رہنے کے لئے یہ بنیادی بات ہے۔

آخری بات یہ کہ ہمیں ان تمام باتوں سے زیادہ سےزیادہ فائدہ اٹھانا ہے جو ہمیں ایک متنوع،متحدہ قوم کی حیثیت سے قریب لاتی ہیں۔

اگلے سال میگنا کارٹا کی 800 ویں سالگرہ ہے۔آج کے دن 799 سال قبل اس عظیم منشورپرسرے ( برطانیہ کا ایک علاقہ)میں رنی میڈ کے ساحل پر مہرلگائی گئی۔ یہ ہماری تاریخ کی ایک عظیم دستاویزہے- میری پسندیدہ کتاب ‘‘ہمارے جزیرے کی کہانی’’ (Our Island Story’)میں اسے،’‘ہمارے تمام قوانین اورآزادیوں کی بنیاد’’ قراردیا گیا ہے۔اس پرمہرلگاتےوقت شاہ جان کو یہ تسلیم کرنا پڑا تھا کہ ان کی رعایا ملک کےشہری ہیں، اور پہلی بار ان کو حقوق ، تحفظ اور سلامتی دی گئی۔ اس منشورکی بقیا کاپیاں شاید دھندلا چکی ہوں لیکن اس کے اصول اب بھی ہیشہ کی طرح روشن ہیں اورانہوں نے جمہوریت،مساوات، احترام اوران قوانین کے لئے راہ تیارکی ہےجن سے برطانیہ، برطانیہ بنا ہے۔اس لئے میں آنے والی 800 ویں سالگرہ کوہر بچے کے لئے ایک موقع بنانا چاہتا ہوں کہ وہ میگنا کارٹا کے بارے میں جانے، ہمارےشہر اس سالگرہ کو منائیں،اس کی یاد میں تقریبات ہوں۔میں خود کل ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ‘‘ایک سال باقی ہے’’ کے عنوان سے ایک استقبالیہ دے رہا ہوں۔

برطانیہ کے پاس ناز کرنے کو بہت کچھ ہے اور ہماری اقدار اور ادارے اس فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔ان چیزوں کا فروغ، سمجھاجانااور انہیں عزیز رکھنا صرف ان کے لئے ضروری نہیں یہ ہمارے مستقبل کے لئے لازمی ہیں۔ اور اسی لئے میرا یہ عزم قطعی ہے کہ میں ایسا ہی کرونگا.

شائع کردہ 15 June 2014