کیس اسٹڈی

ایک بہترمستقبل کا تانا بانا بنتے ہوئے

جہان جیسےکاروباری مالکان کو اپنے پیروں پردوباراکھڑےہونے میں برطانوی حکومت کس طرح مدد کررہی ہے.

Picture: Pakistan MDTF

Picture: Pakistan MDTF

اٹھائیس سالہ جہان اقبال ضلع سوات کے مقام منگورہ میں رہتے ہیں۔ دس سال پہلے انہوں نے اقبال برادرز سلک مل قائم کی جہاں 21 افراد کام کرتے تھے اور 42 بڑی مشینیوں پر ریشم کی مصنوعات بنائی جاتی تھیں.

یہ کوئی آسان سفرنہیں تھا۔ مجھے ریشم کی تیاری کی باریکیوں کو سیکھنے اوران میں مہارت حاصل کرنے میں کئی سال سخت محنت کرنا پڑی، تاہم میرا ہمیشہ سے عزم تھا کہ میں ایسا کام کروں جو پائیدارہواورجو میرے خاندان کے لئے بہتر زندگی فراہم کرسکے۔ اس جدوجہد میں میرے خاندان کی ہرقدم پرمعاونت بیش بہا رہی.

پھر 2006ء کے آخر میں سوات کی صورتحال کافی خراب ہوگئی۔ جہان کی فیکٹری کے قریب حملہ ہواجس میں درجنوں فوجی ہلاک ہوئے اورفیکٹری کی چھت تباہ ہوکرنیچے مشینوں پر گر پڑی۔ سلامتی کی صورتحال مزید بگڑنے سے جہان کو پشاور آنا پڑا اورپھر مردان کے ایک آئی ڈی پیز کیمپ میں منتقل ہونا پڑا جہاں وہ تین سال رہے.

میں بہت پریشان تھا۔ میری زندگی بھر کی محنت میرے سامنے بکھرگئی تھی۔اور اس پرمستزاد مجھے اپنا گھرچھوڑ کر اہلخانہ کے ساتھ مردان جانا پڑگیا تھا۔ اس کیمپ میں زندگی دشوارتھی۔ حالات مشکل تھے، خاص طور پربچوں کے لئے بہت مشکل تھی.

جب وہ 2009ء میں واپس آئے تو علاقے میں انفرااسٹرکچر بہت حد تک تباہ ہوچکا تھا اور گھر، اسکول، اسپتال اور بازارویران پڑے تھے۔ان کی فیکٹری کی عمارت بشمول سازوسامان سب مکمل طور سے تباہ ہوگئے تھے۔ مدد کے لئے پریشان جہان کو ترقیاتی ایجنسی برائےچھوٹےاوردرمیانے کاروبار(SMEDA) کے ایک نمائندے سے ملاقات کا موقع ملا۔اس ایجنسی کی مالی امدادملٹی ڈونر ٹرسٹ فنڈ (MDTF) کے ذریعے ہوتی ہے جو خیبرپختونخواہ اورفاٹا اقتصادی بحالی منصوبےکے تحت ان چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کوفراہم کی جاتی ہے جوعلاقے میں تنازع کی وجہ سے متاثرہوئے ہوں۔ خیبرپختونخواہ اورفاٹا پاکستان کے غریب ترین علاقے ہیں۔ سلامتی صورتحال اوراس کے بعدکے بحران نے 2009ءمیں تخمینے کے مطابق 2 ملین (بیس لاکھ )افرادکو بے گھر کردیا تھا اورانفرااسٹرکچراورذریعہ معاش بری طرح تباہ ہوئے تھے.

Picture: Pakistan MDTF

Picture: Pakistan MDTF

برطانیہ (MDTF) کے لئے سب سے زیادہ عطیات دیتا ہے اور یہ ادارہ نئے روزگار تخلیق کرنے اور ان لوگوں کی مدد کرنے میں تعاون کرتا ہے جو بحران کے نتیجے میں بے روزگار ہوگئے تھے اورعلاقے میں مجموعی کاروباری حالات کو بہتربناتا ہے۔ چھوٹے اوردرمیانے کاروبارمنتخب کرکےان سے متعلق اعداد وشمار جیسے کہ ملازمین کی تعداد، ایک مستحکم بزنس پلان اورکاروبار کی مالیاتی تاریخ کی بنیاد پر ان کو گرانٹ دی جاتی ہے.

چند ہفتے بعد SMEDA کی ایک ٹیم نے فیکٹری کادورہ کیا تاکہ نقصانات کی قطعی تصویرسامنے آسکے اورجلد ہی جہان کو آگاہ کیا گیا کہ ان کے لئے آٹھ لاکھ روپئیے کی گرانٹ منظورہوگئی ہے جو تین قسطوں میں دی جائیگی.

پہلی قسط سے جہان نے ٹرانسفارمرخریدا، عمارت اور مشینوں میں چھوٹے چھوٹے مرمتی کام کروائے اورایک سال کا کرایہ پیشگی ادا کردیا۔اب ان کے پاس اس وقت آٹھ مشینیں کام کرنے کی حالت میں ہیں لیکن پیسے کی کمی کی وجہ سے صرف تین پرکام ہورہا ہے.

ہر مشین سو میٹر کپڑا روزانہ تیار کرتی ہے۔ جب مجھے باقی گرانٹ مل جائیگی تو میں باقی پانچ مشینوں کے لئے ریشم گخریدونگا۔اس سے نہ صرف میری سالانہ آمدنی میں ۵ لاکھ روپئیے کا اضافہ ہوگا بلکہ میں علاقے سےمزید چھ افراد کوملازم رکھ سکونگا.

جہان نے بتایا کہ گرانٹ کی رقم ملنے کے بعد سے علاقے کے دس افراد نے ان سے رابطہ کرکے اسی قسم کی گرنٹ کے بارے میں پوچھا۔اس کے بعد ان میں سے دو کو گرانٹ مل گئی ہے اور باقی کیسوں پرکام ہورہا ہے.

اس قسم کے انیشئیٹو سے نہ صرف میرے جیسےکاروباری مالکان کو دوبارہ پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد ملتی ہےبلکہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی روک تھام بھی ہوتی ہے جس سے طویل عرصے میں علاقے میں امن اورسلامتی کا فروغ ہوتا ہے.

شائع کردہ 23 March 2015