دنیا کی خبروں کی کہانی

افغانستان میں انتخابات کی فضا دوسری جمہوریتوں کی مانند ہے

برطانوی سفیر برائے افغانستان سر رچرڈ اسٹیگ کا آنے والے انتخابات کے بارے میں اخبارمیں ایک مضمون.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
British Ambassador to Afghanistan Sir Richard Stagg

British Ambassador to Afghanistan Sir Richard Stagg

ایک سفیر کی حیثیت سے میرے فرائض میں برطانیہ کے لوگوں کو یہ بتانا شامل ہے کہ افغانستان میں کیا ہورہا ہے۔ان کے لئے کابل میں میرے پڑوسیوں کی طرح اس وقت گرماگرم موضوع آنے والے انتخابات ہیں.

کابل بھر میں امیدواروں کے پوسٹرز لگے ہوئے اور انہیں ٹیلی ویژن پر مباحثے کرتے دیکھ کر افغانستان میں ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیساکہ کسی بھی جمہوریت میں، مثلابرطانیہ یابھارت میں جہاں میں نے کام کیا ہے، انتخابات کے وقت لگتا ہے۔ مجھے خود کو یہ یاد دلانا پڑتا ہے کہ 10 سال پہلے تک افغانوں کو کبھی اپنے رہنما منتخب کرنے کا حق نہیں ملا تھا،حکومتیں ان پر مسلط کردی جاتیں جیسے کہ طالبان یا کمیونسٹ.

5 اپریل کو ہرعلاقے اور ہر پس منظر سے تعلق رکھنے والے ہرافغان مرد وعورت کو ووٹ کا حق ہوگا۔ ہر ووٹ کا درجہ مساوی ہوگا خواہ وہ کسان نے ڈالا ہو یا کسی وزیر نے.

بہت سے لوگوں کو پہلے ہی معلوم ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔ دوسرے منتظر ہیں کہ امیدوارکیا کہتے ہیں۔ لیکن کسی کو نتائج کا علم نہیں۔ یہی جمہوریت کی روح ہے.

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ شاید وہ ووٹ نہ دے پائیں یا اس میں مداخلت یا دھاندلی ہوجائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں ہرانتخابات میں مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ لیکن میرا قوی تاثر ہے کہ جو لوگ اس میں شامل ہیں- انتخاباتی حکام، حکومت، عالمی برادری – سب ماضی سے ضروری سبق سیکھ چکے ہیں.

تیاریاں صحیح جارہی ہیں۔ سب سے زیادہ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ لوگ ووٹ دے سکیں۔ ساڑھے تین کرور سے زائد نئے ووٹرز کارڈ جاری ہوچکے ہیں جن میں سے تہائی تعداد عورتوں کی ہے۔ پولنگ مراکز کے انتخابات کے دن کھلے رہنے کو یقینی بنانے کے لئے سیکیورٹی فورسز اور انتخابی حکام قریبی تعاون سے کام کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بڑی اکثریت کھلی رہے گی۔

کسی بھی گزشتہ انتخابات کے برعکس اس بار دھاندلی کرنا بہت مشکل ہوگا۔ نئے بیلٹ پیپر کی نقل بنانا ناممکن ہوگا۔ انہیں محفوظ مقام پر رکھا جائیگااور جب بھی ان کی منتقلی ہوگی اس کا ریکارڈ ہوگا۔ ملک بھر میں پولنگ مراکز پر ہزاروں غیر جانبدارمبصر موجود ہونگے۔

اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ خودمختار انتخابی کیشن، خودمختار انتخابی شکایات کمیشن اورمیڈیا کمیشن کے اراکین نے وعدہ کیا ہے کہ وہ دیانتداری سے اپنا اپنا کام کریں گے۔ ابھی کافی کام باقی ہے لیکن ان انتخابات کے لئےکسی بھی گزشتہ انتخابات سے بہتر تیاری ہوچکی ہے۔

میں ان لوگوں کے ساتھ مکمل اتفاق کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ کامیابی کے لئے ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ کوئی مداخلت نہ کی جائے۔ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ انتخابات وقت پر ہونگےاور اس کے وسائل کو کسی ایک امیدوار کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ یہ بہت ضروری ہے اور میں جس افغان سے ملتا ہوں وہ حکومت کو اس کے وعدوں کی پاسداری کا ذمے دار قراردیتا ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی اتناہی اہم ہے کہ غیر ممالک کی طرف سے نتائج میں مداخلت نہ ہو۔ افغانوں نے بیرونی عناصر کے ہاتھوں بہت مصائب برداشت کئے ہیں اس لئے میں لوگوں کی اس پریشانی کو سمجھ سکتا ہوں۔

جہانتک برطانیہ کا تعلق ہے تو میں پورے اختیار کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہم کسی امیدوار کی مدد نہیں کریں گے۔ ہمارے لئے نتیجے میں کوئی ترجیح ملحوظ نہیں ہے۔ یہ فیصلہ کہ افغانستان پر اگلے پانچ سال تک کون حکومت کرے گا صرف افغان عوام کوکرنا ہے۔ افغان ہی اپنے صدرکے لئے درست شخص کا انتخاب کسی اورسے زیادہ بہترطور پرکرسکتے ہیں۔ عالمی برادری کا صرف ایک ہی جائز کردار ہے اور وہ ہے اچھے انتخابات میں تعاون۔

برطانیہ کے کیس میں ہم یہی کو شش کررہے ہیں۔ ہم مثلا 30 ملین ڈالر سے زائد اقوام متھدہ کے ذریعے دے رہے ہیں تاکہ افغان انتخابی ادارے ووٹنگ کا انتظام کرسکیں۔ ہم افغان اداروں کی معاونت کررہے ہیں کہ وہ غیر جانبدار مبصرین متعین کریں جو دھاندلی سے نمٹ سکیں گے اور انتخابات اور مسائل کے بارے میں شعور پیدا کرسکیں گے۔ ہم خواتین سے بھی تعاون کریں گے کہ وہ ان مسائل سے نمٹ سکیں جن کا انہیں صوبائی کونسلوں کی نشستوں کے لئے امیداوری میں سامنا ہے۔اوراگر افغان حکام کو ضرورت ہوئی تو آئیساف کے تحت ہمارے فوجی انتخابی مواد کو دوردراز مقامات تک پہنچانے کے لئے تیاررہیں گے۔ ہمارا مقصد عوام کو اپنی بات کہنے کا اہل بنانا ہے۔ ہم کسی انتخابی مہم میں مالی امداد نہیں دے رہے ہیں۔ نہ ہی ہم کسی امدوار کی سر پرستی کریں گے۔

آنے والے انتخابات تاریخی ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ ایک افغان صدر نے انتخابات سے الگ رہنے پراتفاق کیا ہے اور جیسا کہ آئین کا تقاضا ہے لوگوں کو اپنے جانشین کے انتخاب کا موقع دیا ہے۔ ایک دہائی پہلے ایساسوچنا بھی ناممکن تھا۔ میری جانب سے انتخابات سے جڑے تمام افراد کے لئے نیک تمنائیں! .

مزید معلومات کے لئے:

Sheena Lavery, Mobile: 0796666060, E-mail: sheena.lavery@fco.gsi.gov.uk

Emal Maqsood, Mobile: 0700379741, E-mail: emal.maqsood@fco.gov.uk

ڈیجیٹل چینلز کے لئے:

شائع کردہ 6 March 2014