تقریر

سزائے موت کے خلاف عالمی دن

وزیربرائے انسانی حقوق بیرونس جوائس اینلے نے سزائے موت کے خلاف عالمی دن پر پورٹکلس ہاؤس میں تقریرکی ہے.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Foreign Office Main Building

آپ سب کولیکچردینایادوسرے ملکوں کویہ تجویز دینا کہ ان کی پالیسیاں کیا ہوں، میرا مقام نہیں۔ بلکہ ہم سب کویہ آج موقع ملا ہے کہ اس مسئلے پران ریاستوں کے نمائندوں کے ساتھ مباحثہ کیا جائے جو ہم سے اتفاق نہیں کرتے۔ اورمیں آپ سب کی حوصلہ افزائی کرونگی کہ اس موقع کو استعمال کریں اور جوں ہی مباحثہ شروع ہو آپ سب اس میں اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔’’

بیرونس نے کہا’’ برطانیہ اس کی ہر پہلو سے مخالفت کرتا ہے لیکن وہاں بھی اس کے بارے میں دو رائے ہیں اورہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسی طرح دوسرے ملکوں میں بھی اس مسئلے کو مختلف اندازمیں لیا جاتا ہے۔ اورہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے پر ایک دیانتدارانہ بحث ہو اورتمام دلائل کا جائزہ لیا جائے۔

جب ٹموتھی ایونز اور ڈیرک بینٹلی کو 1950 ءاور 1953 ء میں سزائے موت دیدی گئی اوربعد میں انکشاف ہوا کہ ان کے مقدمے میں سقم تھا اورانہیں بعد ازمرگ الزامات سے بری کیاگیا۔ان سانحات سے ہمیں سزائے موت کے غیر انسانی ہونے کی یاددہانی ہوئی ۔ اورپھرسزائے موت کے غلط ہونے کا خطرہ- اس کے نتیجے میں وقوع پزیرہونے والا المیہ۔

اس سال برطانیہ میں سزائے موت پر آخری بارعملدرآمد کو 50 سال ہوگئے ہیں۔

لیکن آج مختلف بیرون ملک 14 برطانوی شہریوں کو سزائے موت کا سامنا ہے۔ اورجب تک سزائے موت پرپابندی عائد نہ ہو تو مستقبل میں تعداد بڑھ سکتی ہے۔

وزارت خارجہ اپنے شہریوں سے مسلسل رابطے میں ہے۔ ہم ان کو اوران کے اہلخانہ کو تعاون فراہم کرتے ہیں اورمتعلقہ حکومتوں کے سامنے کیس بہت مضبوط طریقے سے پیش کرتے ہیں کہ ان لوگوں کا جرم کچھ بھی ہوانہیں ریاستی حکام کے ہاتھوں نہیں مارا جانا چاہئیے۔ مجھے خوشی ہے یہ کہتے ہوئے کہ اس تعاون سے فرق پڑتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہم نے سزائے موت پرعملدرآمد کورکوانے یا تاخیر کروانے میں مدد کی ہے۔

اور اتنی مدد بڑی اہم ہوسکتی ہے کیونکہ خاص طورپرجیسا ہم نے گزشتہ سال دیکھا کہ انصاف کاکوئی نظام غلطی سے مبرا نہیں۔ کئی ملکوں میں نئی شہادتیں اوربے گناہی کے مستحکم ثبوت آنے پرمعافی دی جاچکی ہے۔ کئی باریہ نئی ٹیکنیک جیسے ڈی این اے جانچ وغیرہ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

کچھ کیسوں میں قیدیوں کو کئی عشروں کی قید- اکثر قید تنہائی- اوروہ بھی ان جرائم میں جو انہوں نے کئے ہی نہیں، کے بعد رہائی ملی ہے۔ لہذا سزائے موت جب تک برقرار ہے غلطی سے اس سزا کا امکان باقی رہے گا۔

میری آپ سے ایک درخواست ہے کہ اس سال کے آخرمیں جیسا کہ آپ کو علم ہے جنرل اسمبلی میں سزائے موت پرعالمی پابندی کی قرارداد پرپھر رائے شماری ہوگی۔ دو سال پہلے اس قرارداد کو 193 میں سے 111 ووٹ ملے تھے۔ اس کے حق میں ووٹوں میں اضافےکی رفتار سست لیکن مستقل ہے۔ اورہمیں امید ہے کہ اس میں 2014ء میں اضافہ ضرورہوگا۔

مزیدمعلومات

*وزارت خارجہ ٹوئٹرپر @وزارت خارجہ

*وزارت خارجہ فیس بک اور گوگل+

*وزارت خارجہ اردوٹوئٹریوکےاردو

*وزارت خارجہ فیس بک

*اردوویب سائٹ

Media enquiries

For journalists

ای میل newsdesk@fco.gov.uk

شائع کردہ 15 October 2014