تقریر

'انسداد دہشت گردی کو2016ء میں اگلی نظر ثانی تک روکا نہیں جاسکتا'

اقوام متحدہ میں برطانوی مشن کے مستقل نائب نمائندے پیٹر ولسن نے جنرل اسمبلی میں اقوام متحدہ عالمی انسداد دہشت گردی نظر ثانی پربیان دیا ہے

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
peter wilson

جیسا کہ سکریٹری جنرل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے دہشت گردی کے باب میں عالمی برادری کا ردعمل بچاؤ کے اقدامات، انسانی حقوق کے احترام اور قانون کی بالا دستی سے جڑا رہنا چاہئیے۔ سیاسی عدم استحکام، تنازعات اورمعاشی عدم توازن ایسی صورتحال پیدا کر سکتے ہیں جس میں دہشت گردی کے رحجانات جنم لیتے ہیں۔اس لئے متشدد انتہا پسندی کی روک تھام اورترقی کے مواقع کی تلاش، دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لئے لازمی ہیں.

بین الاقوامی دہشت گردی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ 2012ء میں حکمت عملی پر آخری نظر ثانی کے بعد سے یہ خطرہ بہت بتا ہوا اورمتنوع ہوگیا ہے۔دہشت گردی کے باب میں عالمی کارروائی کے لئے حکمت عملی اہم ہے کیونکہ یہ عالمی برادری کے بنیادی اصولوں اورواضح سمت کو ظاہر کرتی ہے.

اس سال کا جائزہ دو پریشان کن رحجانات کی طرف توجہ دلاتا ہے:

پہلا، دہشت گردگروپوں کو تاوان کی ادائیگی اب بہت سے گروپوں کے لئے مرکزی سرگرمی بن گئی ہے جو اپنی سرگرمیوں کے اخراجات کے لئے لوگوں کواغوا کرتے ہیں ۔ یہ ایک شیطانی چکر بن گیا ہے کہ تاوان کی رقم سے دہشت گرد گروپ مالی استحکام حاصل کرتے ہیں اورمزید اغوا کا محرک بنتے ہیں۔اس چکر کو توڑنا ضروری ہے۔نائیجیریا میں بوکو حرام کے ہاتھوں حال میں اسکول طالبات کا اغوا اس دہشت کی ایک دردناک مثال ہے جو یہ طاقتور، مالی طور پرمستحکم دہشت گروپ پھیلا سکتے ہیں.

دوسرا، لوگوں کی بے مثال تعداد انفرادی طورپرتنازعات کا شکارخطوں جیسے شام ، میں دہشت گرد گروپوں کے ساتھ مل کر لڑنے پہنچ رہی ہے ۔ یہ افراد وہاں سےواپسی پر اپنے وطن کے لئے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔وہ عالمی خطرہ بھی بن سکتے ہیں کیونکہ وہ دنیا میں کہیں بھی اچانک دہشت گردانہ حملہ کر سکتے ہیں۔ برسلز میں یہودی عجائب گھر پر حالیہ حملہ اس رحجان کا مظہر ہے۔ اس خطرے کے سامنے ہماری مشترکہ ترجیح ان افراد کو تنازعاتی علاقوں کی جانب سفر کرنے سے روکنا ہونی چاہئیےاور اس کے بجائے انہیں ایسے محفوظ اور موثر ذرائع فراہم کئے جانے چاہئیں کہ وہ تنازعات سے براہ راست متاثر ہونے والے لوگوں کو انسانی امداد پہنچا سکیں۔ شامی عوام اس باب میں واضح رہے ہیں کہ انہیں تنازع کا سیاسی حل اور انسانی امداددرکار ہے، غیر ملکی جنگجو نہیں۔ لیکن غیر ملکی جنگجو برابر شام کا رخ کر رہے ہیں۔ہم محض روک تھام پر بھروسا نہیں کر سکتے۔ عالمی برادری کوان غیر ملکی جنگجوؤں کو روکنے کے لئے معلومات کے اشتراک اور سرحدوں کے انتظام میں تعاون میں اضافے کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔ ان کو روکنے کے لئے موزوں تعزیری انصاف کی کارروائی کی بھی ضرورت ہے.

اقوام متحدہ نظام، خود اور اس کے اراکین کو دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ اس کردار کی ادائیگی کے لئے اقوام متحدہ کےمتعلقین کو اپنے رابطے اور معلومات کی شراکت کو بہتر بنانا ہوگا ۔ اس کے لئے بڑے عمدہ ذرائع موجود ہیں: کاؤنٹر ٹیررازم ایگزیکٹو ڈائریکٹریٹ تجزیاتی مہارت کا مرکز ہے اور کاؤنٹر ٹیررازم امپلی مینٹیشن ٹاسک فورس استعدادمیں اضافے کا مرکزہے۔ اگر یہ دونوں مراکز مشترکہ ترجیحات اور کارروائی کے پلان پر اتفاق کرلیں تو اقوام متحدہ نظام کے پاس حقیقی اثر پیدا کرنے اوردہشت گردی کے خطرے کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے ملکوں اور خطوں کی مدد کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ خاص طور پر اقوام متحدہ کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر میں استعداد بڑھانے کے پروگراموں پر عملدرآمد میں نمایاں کردار ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہے.

اقوام متحدہ کے اراکین کا دہشت گردی کےخلاف عالمی جدوجہد میں شراکت داروں کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے۔ گلوبل کاؤنٹر ٹیررازم فورم(GCTF) ایک اہم شراکت دار ہے جس نے متشدد انتہا پسندی کی روک تھام اورتعزیری انصاف کے اداروں کے استحکام میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اوراقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی اداروں کے ساتھ قریبی تعاون سے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ GCTF اور دوسرے شراکت داروں کا کام اقوام متحدہ کی کوششوں میں کئی گنا اضافہ کرنےاور ان پر عملدرآمد کے لئے وسائل کو متحرک کرنے کے لئے کافی اہم ہے.

ہم دہشت گردی کی روک تھام کو 2016ء کی اگلی نظر ثانی تک فائل میں بند نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس خطرے کے مقابلے کے لئے چوکس، جوابی کارروائی کے لئے تیار اورمربوط رہنا ہوگا۔ اس نکتےپر اتفاق رائے کےدس سال بعد ہمیں اقوام متحدہ حکمت عملی کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہئیے اوراس موقع کو استعمال کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا چاہئیے.

آپ کا شکریہ.

شائع کردہ 12 June 2014