تقریر

"برطانیہ جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے کا پابند ہے"

جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤمعاہدے پریواین2015ء ریویوکانفرنس میں برطانوی وزارت خارجہ کی وزیرمملکت بیرونس جوائس اینلےکا بیان

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
174 Ko

برطانیہ بدستورجوہری عدم پھیلاؤ معاہدے کا پابند ہے۔ اس نے دنیا کو محفوظ رکھنے اورجوہری ہتھیاروں کی دوڑ روکنے میں غیر مثالی کردار ادا کیا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤکو روکنے، جوہری ہتھیاروں سے محفوظ دنیا کی تشکیل کرنے اور جوہری توانائی کے پرامن استعمال تک رسائی کو ممکن بنانے کی بین الاقوامی کوششوں میں وہ مرکزی مقام رکھتا ہے۔

ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ ریویوکانفرنس 2010ءعملی منصوبے کی کامیابی کو آگے بڑھائے گی اورمعاہدے کو مزید مضبوط کرے گی۔ جیسا کہ ہماری نظر ثانی شدہ قومی رپورٹ میں طے کیا گیا تھا، برطانیہ نے 2010ءکے بعد سے پیش رفت کی ہے۔ ہم عملی منصوبے پر مکمل عملدرآمد کا بدستور عزم رکھتے ہیں خواہ کچھ اقدامات پر عمل میں دوسروں کی نسبت زیادہ وقت درکار ہو۔

برطانیہ قدم بہ قدم تخفیف اسلحہ اور دفعہ چھ کے تحت اپنی ذمے داریوں کی تکمیل کا مستحکم عزم رکھتا ہے۔ ہم نے جنوری میں اعلان کیا تھا کہ ہم نے اپنی تمام تعینات شدہ بیلسٹک میزائل آبدوزوں پر وارہیڈز کی تعداد 48 سے کم کرکے 40 کردی ہےاوران میں سے ہرآبدوز پرآپریشنل میزائلوں کی تعدادآٹھ سے زیادہ نہیں ہے۔

اس سے ہمارے آپریشنل طورپردستیاب وارہیڈز کی کل تعداد 120رہ گئی ہے۔ اس سے 2020ء کے عشرے کے وسط تک ہمارے جوہری وارہیڈزکا مجموعی ذخیرہ 180 سے زیادہ نہیں رہے گا۔

میری حکومت تسلیم کرتی ہے کہ سرد جنگ کے بعد وارہیڈزکی عالمی تعداد میں نمایاں کمی کے باوجود عالمی تخفیف اسلحہ کی سست رفتار پر اضطراب پایاجاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے انسانی اثرات پرہونے والی کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں یہ احساس بہت نمایاں نظر آیا ہے۔

برطانیہ نے ویانا کانفرنس میں شرکت کی تھی کیونکہ ہم اس اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں جو کئی ملکوں نے اس پیش قدمی کودی ہے۔ کئی شرکا نے شدت سے یہ دلیل دی کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے تباہ کن انسانی اثرات ہونگے۔ برطانیہ اس سے اتفاق کرتا ہے۔ لیکن یہ تشویش نئی نہیں ہے۔ یہ این پی ٹی میں بھی شامل کی گئی ہے اورعدم پھیلاؤ اور تخفیف اسلحہ کے باب میں ہمارے طرزعمل کو اس نے ایک خاکہ عطاکیا ہے اوربدستور کررہا ہے۔ ہماری مزاحمتی پالیسی اور ہمارے سخت حفاظتی اورسلامتی اقدامات جو رو بہ عمل ہیں، ان ممکنہ نتائج کو ذہن میں رکھ کر تیار کئے گئے تھے۔

کچھ لوگ تخفیف اسلحہ کے عمل کی رفتار کو، بنا وسیع ترتحفظاتی امکانات پرغور کئے، بڑھانا چاہیں گے۔ یہ این پی ٹی کی کامیابیوں کو خطرے میں ڈالنے اور اس کے مسقتبل کو مخدوش بنانے کے مترادف ہے۔ ہماری یکطرفہ تخفیف کی دوسری قوموں کی جانب سے ہمیشہ پیروی نہیں کی گئی، نہ ہی ان کو اپنی کوششیں روک دینے کے لئےمتاثر کرسکی جو جوہری ہتھیاروں کی استعداد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اس لئے میری حکومت اس وقت تک ایک معتبراورموثر کم ازکم جوہری مزاحمت برقرار رکھے گی جب تک عالمی سلامتی صورتحال اس کی متقاضی ہے۔

لیکن میں یہ واضح کردوں کہ: برطانیہ یہاں خلوص نیت سے مذاکرات کے لئے آیا ہے اور ہم اس صورتحال کی تشکیل کے لئے بدستور جدوجہد کرتے رہیں گے جوجوہری اسلحے سے پاک دنیا کے لئے درکارہے۔

اسی لئے ہم عالمی تخفیف اسلحہ کے لئے بلاکس کی تعمیر کے لئے متوازی پیشرفت کررہے ہیں۔

ہم ناروے اور امریکا کے ساتھ اپنے تاریخی تصدیقی کام کو جاری رکھیں گے۔

ہم نے ‘وسطی ایشیا جوہری ہتھیاروں سے فری زون کا پروٹوکول’ پردستخط کئے اورتوثیق کی ہے۔

ہم نے فروری میں لندن میں پی- 5 کانفرنس منعقد کی جس میں شفافیت کے باب میں مزید قدم اٹھائے گئے۔ صرف کھل کر اور بے تکلفی سےبات چیت کرکے ہی ہم مزیدتیزی سے جوہری تخفیف اسلحہ کے لئے موزوں صورتحال پیداکرسکتے ہیں۔ ہم اس قسم کی پیش قدمیوں کے منتظر ہیں۔

پھیلاؤ کے باب میں ایک پرعزم کارروائی تمام ریاستوں کے لئے ایک چیلنج ہے۔ یہ این پی ٹی کی موثر کارکردگی میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم عالمی جوہری توانائی ایجنسی سے تعاون اور ان اقدامات کے مستحکم بنانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے جس سے ہم سب کو اعتمادہوسکے کہ ریاستیں این پی ٹی کی ذمےداریوں کو پورا کررہی ہیں۔

ای3+3 کے رکن کی حیثیت سے برطانیہ نے 2 اپریل کو ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر ایک جامع معاہدے کی حدودپر اتفاق کیا۔ بین الاقوامی برادری کی یقین دہانی کے لئے، کہ ایران کا پروگرام کلی پر امن ہے، یہ ایک بڑا سنگ میل تھا۔

اہم سیاسی اور تیکنیکی امور پر اب بھی کام باقی ہے لیکن ہم اس سال جون کے اختتام تک طے شدہ حدود کے اندرتمام تفصیلات کو حتمی شکل دینے کا ہدف رکھیں گے۔

ہم مشترکہ عملی منصوبے کے تحت ایران کے اپنے جوہری کمٹمنٹس کی پابندی کاخرمقدم کرتے ہیں اورعالمی جوہری توانائی ایجنسی کی اس کی تصدیق کے لئے حمایت کرتے ہیں۔ ہم ایران پرزور دیتے رہیں گے کہ وہ باقی غیر حل شدہ امور کے لئے ایجنسی کے ساتھ مکمل تعاون جاری رکھے، جن میں ممکنہ فوجی امور شامل ہیں۔

برطانیہ مشرق وسطی پر 1995 قرارداد اورمشرق وسطی کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک زون بنانےکے ہدف کی حمایت کرتا ہے۔

اور ہمیں بہت افسوس ہے کہ ایسے زون کی تشکیل کے لئے کوئی کانفرنس اب تک نہیں کی گئی ہے۔ ہم نے سہولت کار اور دیگر شریک کنوینروں کے ساتھ انتھک کام کیا تاکہ علاقائی ریاساتوں کی کانفرنس کے انتظامات کے سلسلے میں حوصلہ افزائی کی جاسکے اور ہم ان تمام ریاستوں کی نمایاں کوششوں کاخیرمقدم کرتے ہیں جنہوں نے غیر رسمی مشاورتوں میں شرکت کی۔ ہمیں امید ہے کہ باقی ماندہ اختلافات جلد ہی دور کر لئے جائیں گے۔

جہاں ہم ہر ریاست کے دفعہ 10 کے تحت این پی ٹی سے نکلنےکے حق کو تسلیم کرتے ہیں وہیں یہ امید کرتے ہیں کہ یہ کانفرنس اصولوں کے ایسے مجموعے کا تعین کردے گی کہ اس حق کا استحصال نہ ہوسکے۔

ہم تمام ریاستوں کے اس مطلق حق کی بھی توثیق کرتے ہیں کہ وہ جوہری توانائی کےپرامن استعمال تک دسترس حاصل کرسکتی ہیں بشرطیکہ وہ اپنی ذمے داریوں کو بھی پورا کریں۔ ہم محفوظ اورپرامن شہری جوہری توانائی کی تیاری میں ریاستوں کی مدد کے لئے آمادہ ہیں۔

اس نظر ثانی کونسل میں اتفاق رائے ایک چیلنج ہوگا۔ لیکن بڑھتی ہوئی عالمی بے یقینی کے دوران ہمیں یہ یادرکھنا ہوگا کہ این پی ٹی نے ہمیں محفوظ رکھا ہے اوراسے جاری رکھا جانا چاہئیے۔

برطانیہ اسی لئے ایسےنتیجے کے حصول کے لئے اپنا کرداراداکرے گا جو ہمارے بے تخفیف تحفظ کے اجتماعی حقوق کےلئے موزوں ترین ہو اور اس کے ساتھ ہمیں جوہری اسلحے سے پاک دنیا کے ہدف کے قریب تر لے جائے۔

شائع کردہ 27 April 2015