تقریر

اوپی سی اے ٹی کی دسویں سالگرہ:بیرونس جوائس اینلے کی تقریرسے اقتباسات

برطانیہ تشددیا اذیت رسانی کی روک تھام کے انسانی حقوق کو ترجیح دلوانے والے عالمی نظام میں اپنی آواز کے استحکام کے لئے پرعزم ہے.

The Rt Hon Baroness Anelay of St Johns DBE

آج اذیت رسانی کے خلاف اقوام متحدہ کنونشن کے اختیاری پروٹوکول [OPCAT]کےنفاذ کی دسویں سالگرہ ہے۔

سب سے پہلے میں یہ واضح کردوں کہ ہمارا کثیرپہلو کام ، خاص طورپروہ جو اقوام متحدہ کے ذریعے ہوتا ہے دنیا میں برطانیہ کے مستقبل کے لئے اب ہمیشہ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ گزشتہ ہفتے یورپی یونین ریفرنڈم کی ووٹنگ کے بعدہم بدستوربہت پرعزم ہیں کہ عالمی نظام میں برطانیہ کی آواز کو، بشمول اذیت رسانی کے انسداد کی انسانی حقوق ترجیح، کے مستحکم رکھیں۔

جب میں ان خطوں کا دورہ کرتی ہوں جہاں انسانی حقوق بہت خطرے میں ہوں تو میں رہنماوں سے اکثر اذیت رسانی کے پھیلے ہوئے خطرات کے بارے میں سنتی ہوں جو ان کی سیکیورٹی سروسز، جیلوں اور نظربندی مراکز میں موجود ہیں۔ ان مسائل کے بارے میں اس قسم کی وضاحتیں اور امکانی حل سنائی دیتے ہیں:

’’ ہمارے ہاں تو اب اذیت رسانی کاکوئی وجود نہیں، ہم نے اسے غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔’’

’’ اگر اذیت رسانی کا کوئی واقعہ ہوا تو ہم اس کے ذمے داروں کو پکڑ لیں گے۔’’

ہمیں خطرناک دھمکیوں کا سامنا ہے- دہشت گردی، بچوں کا اغوا۔’’

اگرچہ میں ان سے اظہار ہمدردی کرتی ہوں تاہم یہ واضح ہے کہ ہم مل جل کر اذیت دہی کوختم کرنے کے لئے خواہ کچھ بھی کررہے ہوں وہ ابھی موثرثابت نہیں ہورہا ہے۔ تیس سال سے اذیت رسانی کے خلاف اقوام متحدہ کنونشن نے اسے ناقابل قبول قراردے رکھا ہے۔ دنیا کے تقریبا تمام ملک یہی کہیں گے کہ وہ اس پابندی پر عمل کرتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو گزشتہ سال 141 ممالک سے شکایات موصول ہوئیں، یہ تعداد اقوام متحدہ کے اراکین کی تین چوتھائی کے برابر ہے۔ اگر ہم اذیت رسانی کو انسانیت کے خلاف اور بہیمانہ سمجھتے ہیں تو پھریہ تقریبا ہر جگہ کیسے موجود ہے۔

اس کا جواب دارالامرا کے انیسوں صدی کے ایک رکن اور مصلح کے الفاظ میں موجود ہے،’’ طاقت بدعنوان بناتی ہے اور مطلق طاقت، مطلق بدعنوان ۔’’ یہ افسوس کی بات ہے کہ جب بھی کسی مرد کو - اور زیادہ تر یہ مرد ہی ہوتا ہے- دوسرے مرد پر اختیار مل جائے جیسے: صوابدیدی نظر بندی؛ جبری محکومی؛ بلاخوف ظلم، کا تو ہمیشہ اس طاقت اور ختیارکے استحصال کی ترغیب پیدا ہوتی ہے۔

اذیت رسانی خفیہ، قابل تردید ہونےاورکمزوریوں کی وجہ سے فروغ پاتی ہے۔ یہ پھلتی پھولتی ہے جب قیدی تنہا رکھے جائیں، ان کی خبر نہ لی جاسکے اور ان سے ملنے یا ان کی وکالت پر پابندی ہو۔ یہ تب بھی فروغ پاتی ہے جب ان سے جبری اعتراف کراکے سزادے دی جائےاورحراست میں ان کو جو زخم آئے اس کی تحقیقات نہ کرائی جائے۔

اوریہیں اوپی سی اے ٹی کا کام شروع ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقی21ویں صدی کا آلہ ہے جو’ اذیت رسانی غلط ہے’ جیسےایک سادہ اعلامیے سے بہت آگے کی چیز ہے۔ اوپی سی اے ٹی میں تسلیم کیا گیا ہے کہ تمام حراستی نظام ایسے مقامات بن سکتے ہیں جہاں اذیت دی جاسکے: یاتو بدسلوکی کی اجازت دے کر، یا افراد اپنی مطلق طاقت کو ایک لاچارقیدی پراستعمال کرکے۔ اس رحجان کو ختم کرنے کے لئے نگرانی، احتیاط اورمستعدی کی ضرورت ہے۔ جیل افسر کسی ایسے قیدی پر تشدد نہیں کرے گا جس سے کوئی ملاقاتی ملنے آنے والا ہو۔ ایک تفتیش کنندہ زیادتی نہیں کرسکے گا اگر اسے نگرانی یا دیکھے جانے کا خدشہ ہو۔ ایک قانونی نظام اگراپنا احترام برقراررکھے تو وہ زبردستی برداشت نہیں کرے گا۔

میں آج ان تمام ریاستوں سے مطالبہ کرتی ہوں جنہوں نے اب تک اوپی سی اے ٹی کی توثیق نہیں کی ہے یا قومی انسدادی میکینزم قائم نہیں کیا ہے تو وہ ایسا کرلیں۔

اس عمل کو متحرک کرنے کے لئے میں نے ابھی انسداد تشدد کے کئی منصوبوں کی منظوری دی ہےجن کومیگنا کارٹا کے انسانی حقوق و جمہوریت فنڈ سے رقم دی جائے گی۔ یہ فنڈ اس سال تقریباڈیڑھ کرورپاونڈ جرائم کے عالمی انصاف نظام میں انسانی حقوق کی بہتری کی پیش قدمیوں پرصرف کررہا ہے۔ یہ ایک پرعزم منصوبوں کا مجموعہ ہے جو بیس ممالک میں کام کررہے ہیں۔اس سال اذیت رسانی کی روک تھام پر 725000پاونڈ کی لاگت آرہی ہے اگلے سال اس سے زیادہ کی جائے گی۔ یہ ہمارا اس عالمی نظام سے کمٹ منٹ ہے جس کے تحت تشدد پر پردہ ڈالا جاتا ہے نہ اسے نظر انداز کیاجاتا ہے بلکہ اس کا سراغ لگا کے جڑ سے اکھاڑا اورآئندہ کے لئے روک تھام کی جاتی ہے۔

شائع کردہ 29 June 2016