تقریر

ڈیوڈ کیمرون اورمحمود عباس کی پریس کانفرنس

وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اورفلسطینی صدر محمودعباس کی یروشلم میں مشترکہ پریس کانفرنس کے چند اقتباسات.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
David Cameron

سنئیے Audioboo پر

صدرمحمود عباس

اسرائیلی مقبوضہ فورس نے حال میں مغربی پٹی میں 3اور غزہ میں 3 افراد کو ہلاک کردیا اور ہمیں اسرائیلی حکومت کی طرف سے کوئی معذرت نہیں سنائی دی۔کل غزہ سے راکٹ فائر کئے گئے جن کاجواب اسرائیل نے دیا، ہم جارحیت اور فوجی جارحیت کی ہر شکل بشمول راکٹ حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔

ہم ایک بار پھر پر زورطور پر کہتے ہیں کہ ہم ایک پرامن سیاسی حل کی کوششیں جاری رکھیں گےجس سے اس خطے میں امن اوراستحکام آئے گا۔ اس سے اسرائیل کےقبضے کا خاتمہ ہوگا جو 1967ء میں شروع ہوا تھا۔

صدر محمود عباس نے جان کیری،صدر اوباما، عالمی اتحاداربعہ،روس،یورپی یونین، اقوا م متحدہ اور تمام دوست ممالک کی امن عمل کے آگے بڑھانے کی کوششوں کی قدر کرتے ہیں۔ خاص طور پر یورپی یونین کی جو اس کے بیانات، فیصلوں اور اقدامات کی شکل میں ظاہر ہوتی رہی ہے تاکہ اسرائیل- فلسطینی تنازع کا حل نکل سکے جو عالمی حوالہ جات کے مطابق ہو۔عرب لیگ کونسل نے اس ماہ 9 کو وزرائے خارجہ کی سطح پر اسی موقف پر زور دیا ہےاور ایک بارپھر فلسطینی موقف اورامن عمل کی حمایت کی ہے بشرطیکہ یہ عالمی قراردادوں اورعرب امن انی شئیٹو کی بنیاد پر ہو اور یہودی ریاست کو قبول نہ کیا جائے۔ انہوں نے ڈیوڈ کیمرون کی فلسطینی علاقہ جات میں آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون

یہ میرابحیثیت وزیراعظم فلسطینی علاقوں کا پہلا دورہ ہے۔ آج ہمارے مذاکرات بہت اچھے رہے۔ میری توجہ تین امور پرمرکوز ہے ۔ پہلا امن عمل اور آپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کی قیادت جسنے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔مجھے معلوم ہے کہ پائیدار امن کا حصول مشکل فیصلوں اور پیش رفت کےحقیقی عزم کامتقاضی ہے۔

ہمارا موقف صاف ہے۔ ہم دو ریاستی حل چاہتے ہیں۔ ایک قابل عمل اور خودمختار فلسطینی ریاست جو 1967ء کی سرحدوں کی بنیاد پر ہو اور اس میں متفقہ طور پر اراضی کا تبادلہ کیا جائے۔ اس کے برابر میں محفوظ اسرائیل ہو۔ یروشلم جو تین عظیم مذہبوں کے لئے مقدس ہےدونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت ہو، غزہ فلسطینی ریاست کا لازمی حصہ ہو۔

آپ کے اوروزیراعظم نتن یاہو کے ساتھ اپنے دوروز کے مذاکرات سے مجھے یہ حوصلہ ملاہے کہ دونوں جانب عزم موجود ہےلہذا میں دونوں پرزوردیتا ہوں کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ دوسرے، ہم نے امن سے پیدا ہونے والے مواقع پر بات کی ہے۔ برطانیہ فلسطین کومستحکم اداروں اور مستحکم معیشت کی تشکیل میں مدد دینا چاہتا ہے۔ لہذا آج ہم نے تقریبا 100 فلسطینی کاروباروں کو مزید مسابقتی بنانے کے لئے اضافی تعاون پر اتفاق کیا ہے یعنی ایریا سی میں فارمنگ اراضی کی بحالی کے لئے6 ملین پاؤنڈکی فراہمی۔ اس سے 1000 فارمنگ کمیونٹیز کو فائدہ ہوگا اور عالمی بنک کے اندازے کے مطابق فلسطینی معیشت میں 700 ملین ڈالر کااضافہ ہوگا۔ ہم ہالو کو رقم کی فراہمی سے مغربی بنک میں 3 بارودی سرنگوں کے خاتمے میں مدددیں گے جس سے یہ اراضی دیہی فلسطینی کمیونٹیز کو واپس مل سکے گی اوراس سے معاشی نمومیں اضافہ ہوگا۔

تیسرا یہ کہ اس منزل کو جانے والا راستہ آسان نہیں ہوگا۔امن کی طرف آخری چند قدم دشوار لیکن اس کا صلہ عظیم ہوگا۔ایک فلسطین بلا کسی چیک پوائنٹ کے جہاں آپ آزادی سے اپنے ملک میں اور اس سے باہر سفر کر سکیں گے اور مغربی بنک اور غزہ پھر ایک ہوسکیں گے۔ایک ایسی دنیا جہاں آپ کا وقار اور آزادی ہو اور عوام کو تحفظ حاصل ہو۔یہ آسان نہیں ہوگا لیکن ہم اسی وژن سے کمٹ منٹ رکھتے ہیں ۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا صدر اوباما سے ملاقات میں مذاکرات کی مدت بڑھا کر ایک سال کردی جائے گی،صدر محمود عباس نے کہا کہ انہوں نے مذاکرات کی مدت کے لئے 9 ماہ پر اتفاق کیا تھا اور اسے نہیں بڑھایا جائے گا اور نہ ایسی کوئی تجویز آئی ہے۔

ڈیوڈ کیمرون نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ آپ نے کل اپنی تقریر میں کہا اسرائیل یہودیوں کا وطن ہوگا،کیا اس سے امن مذاکرات کو نقصان نہیں پہنچے گا،کہا کہ اسرائیل یہودیوں کا وطن ہے ہولو کاسٹ میں لاکھوں یہودی مارے گئے اور اسی لئے یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔’’ لیکن میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسرائیل کی تشریح اوراس کا اسٹیٹس فلسطین اور اسرائیل کے درمیان طے ہوگا ہمیں اس میں مداخلت نہیں کرنا چاہئیے۔ میں نے یہ بھی کہاکہ یہ اہم ہے کہ اسرائیل دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو حقوق دے جیسے کہ عیسائی،مسلم اور اسرائیلی عرب۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔

صدر محمود عباس نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ڈیوڈ کیمرون نے اسرائیل کے بائیکاٹ کی مخالفت کی ہے کیا وہ اس سے اتفاق کرتے ہیں، جواب دیا کہ ہم نے اسرائیلی ریاست کےبائیکاٹ کی کال نہیں دی کیونکہ اس ریاست سے تو ہم معاملت کرتے ہیں اس لئے اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ہم نے مقبوضہ آبادکاری کے بائیکاٹ کی کال دی ہے، ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ یہ غیر قانونی ہیں لہذا ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ ہونا چاہئیے۔

شائع کردہ 13 March 2014