تقریر

''شمولیت، قانون کی بالادستی اورسیاسی کثرتیت نہیں توعدم استحکام اورممکنہ تصادم ناگزیرہے''

اقوام متحدہ میں برطانوی مشن کے سفیر مارک لائل گرانٹ کا بیان جو مشمولی ترقی اور بین الاقوامی امن اورسلامتی کی برقراری سے اس کے تعلق پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں دیا گیا

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
UNd

اس سال برطانیہ 1215ء میں دستخط کئے جانے والے میگنا کارٹا کی آٹھ سوویں سالگرہ منارہا ہے۔ یہ میرے ملک کی تاریخ میں شمولیتی ترقی کا ایک انقلابی لمحہ تھا۔ میگنا کارٹا نے ریاست اورافراد کے درمیان بنیادی طورپرایک مختلف رشتے کا تصور متعارف کرایا۔ درحقیقت شاہی حکمراں نے پہلی باراتفاق کیا کہ ان کے اختیارات من مانے اورلامحدود اندازمیں استعمال نہیں کئے جاسکتے۔ یہ کہ ریاست اپنے عوام کو جوابدہ ہے۔ یہ کہ ایک طریقہ کارہونا چاہئیے ۔ یہ ‘قانون کی بالادستی’ کا آغازتھاجو کہ ان اصولوں میں سب سے اہم اصول ہے جو مشمولی اداروں اورجوابدہ حکومت کو تقویت دیتے ہیں۔

تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ جہاں شمولیت، قانون کی بالادستی اورسیاسی کثرتیت نہ ہو وہاں عدم استحکام اورممکنہ تصادم ناگزیر ہے۔ تصادم مختلف اسباب کی بنا پرپھوٹ پڑتے ہیں۔ لیکن اس کا بڑھتا ہواثبوت موجود ہے کہ خصوصی گروپوں کو معاشرے میں سماجی، سیاسی اورمعاشی طور سےکنارے لگادینا تصادم کا بڑا محرک بن جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کی ‘عرب انسانی ترقیاتی رپورٹ’ نے 2004ء میں ہمیں انتباہ کیا تھا اور میں وہ الفاظ دہراتا ہوں، عرب دنیا میں ‘ آزادی اور اچھی حکومت سازی کاشدید فقدان’ ہے اور پیش گوئی کی تھی کہ اس سے عدم استحکام پیدا ہوگا۔ چھ سال بعد2010ء میں تیونس کے سڑک پر کاروبار کرنے والے ایک شخص محمد بوعزیزی نے پولیس کے ہراساں کرنے پرخود کو آگ لگالی جس کے نتیجے میں عرب دنیا میں زلزلہ آگیا اوراس کے نتائج سےیہ کونسل اب تک نمٹ رہی ہے۔ ہماری اجتماعی ناکامی– جو کہ اس کونسل میں اکثر ہوتی ہے–اس پیش گوئی کانتیجہ نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ فوری اقدام کے لئے سیاسی عزم کی کمی تھی۔

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون مسلسل کہتے رہے ہیں کہ مشمولی ادارے، کھلے معاشرے اورمعیشتیں، قانون کی بالادستی جسے وہ ‘ ترقی کی سنہری کڑی’ کہتے ہیں، ملکوں کی معاشی ترقی اورتصادم سے بچنے کے لئے لازمی ہیں۔ حکومتوں کو عوام کا خادم ہونا چاہئیے نہ کہ حاکم یا کسی چھوٹے سے طاقتورجتھے کےغلام۔

لہذاسلامتی کونسل کو غورکرنا چاہئیے کہ وہ کس طرح ملکوں کو مشمولی قومی اداروں کی تشکیل میں مدد دے سکتی ہے۔ میرے نزدیک اس میں چارکلیدی چیلنج ہیں:

پہلا، ہمیں صبرسے کام لینا ہوگا۔ مشمولی قومی اداروں کی تشکیل کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ عالمی بنک کا اندازہ ہے کہ بہترین مثال یہ ہے کہ اداروں میں بامعنی بہتری کے لئے دس سے سترہ سال لگ جاتے ہیں۔اس لئے اداروں کی تشکیل و تعمیر میں مسلسل سیاسی اورمالی تعاون ضروری ہوتا ہے۔

دوسرا، جہاں قومی سیاسی اداروں کی شمولیت نہیں ہوتی ہمیں یہ مان لینا چاہئیے کہ وہاں تصادم کاامکان بڑھ جاتا ہے۔جب اس کونسل نے گزشتہ سال اگست میں تصادم سے بچاؤ کے لئےقرارداد 2171منظور کی تو میں نے کہا تھا کہ کونسل کو دھواں دیکھ کر آگ کا اندازہ لگانے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے نہ کہ یہ آگ بجھانے والا آلہ ہے۔ ہم اکثر بحرانوں سے نمٹنے کی کوشش کرتےپائے جاتے ہیں اور اس سے بچاؤ کا آلہ کار نہیں بن پاتے۔ ہمیں ایسی صورتحال کی نگرانی کرنا چاہئیے جہاں سیاسی عمل یا اداروں میں مخصوص گروپوں کو کنارے لگادیا گیا ہو۔ ہم سکریٹری جنرل کے ہیومن رائٹس اپ فرنٹ انی شئیٹو کا خیر مقدم کرتے ہیں جو اس بات کی ضمانت دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اقوام متحدہ ہرممکن طور سےانسانی حقوق کی پامالی کے خطرے سے دوچاریا اس کا شکار افراد کی مددکرے اس سے پہلے کہ یہ صورتحال مسلح تصادم اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی طرف بڑھنے لگے۔

تیسرا، متشدد انتہا پسندی اورشمولیت کے فقدان کے درمیان تعلق بڑا پیچیدہ ہے۔ ہم نے اس سال فرانس، یمن،نائیجیریا، عراق، شام اورپاکستان میں بڑےمہلک حملے دیکھے ہیں۔انتہاپسند اپنی فطرت کے مطابق شمولیت کے مخالف ہیں۔ ان کے بیان انقلابی،غیرمصالحت پسندانہ، امتیازی اور علیحدگی پسندانہ ہوتے ہیں۔ ان کا عالمی نقطہ نظر’وہ’ اور ‘ہم’ کے درمیان گھومتا رہتا ہے۔ وہ اکثرخواتین کو الگ تھلگ رکھتے اور اقلیتوں پر ظلم کرتے ہیں۔ ہم ان نظریات کو جڑ پکڑتے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ اقوام متحدہ کی بنیادی اقدار کے برعکس ہیں اور ان کا مقابلہ کیا جانا چاہئیے۔

آخری چیلنج یہ کہ شمولیت بے معنی ہوگی اگر سیاسی اداروں، امن مذاکرات اور پالیسی سازی میں خواتین کا سرگرم کردار نہ ہو۔ خواتین کے بغیرہم محض ایک غیر متوازن اور غیر مستقل امن حاصل کرسکیں گے جو نصف آبادی کی ضروریات کو نظر انداز کرتا ہوگا۔ تاریخ سازقرارداد 1325کو تقریبا پندرہ سال ہوگئے ہیں جس میں پہلی بارخواتین پر تصادم کے منفرداثرات اور تصادم سے بچاؤ، عزم اور امن کی تعمیرمیں خواتین کے نمایاں کردارکو تسلیم کیا گیا تھا۔ اس وقت سے اب تک کچھ پیش رفت تو ہوئی ہے لیکن مشمولی معاشرے کی تعمیر میں درکار مختلف طریقہ ہائے کار کے لئے خواتین کی بامعنی شراکت کو یقینی بنانے کے لئے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس میں انتخابات،امن کی تعمیر اور ثالثی میں عورتوں کی زیادہ شرکت شامل ہونا چاہئیے۔اس کا مطلب ہے پولیس اور سیکیورٹی سروسزمیں عورتوں کی زیادہ تعداد اورمسلح افواج، صنفی اورنسوانی حقوق کے باب میں بہتر تربیت۔

اس ضمن میں ہم اقوام متحدہ کے اس فیصلے کا گرمجوشی سے خیر مقدم کرتے ہیں کہ قرارداد 1325 پرعملدرآمد کے سلسلے میں ایک عالمی مطالعہ کروایا جائیگا جو اکتوبر میں اعلی سطحی جائزے میں مدد دے گا۔

شائع کردہ 19 January 2015