تقریر

تنازعات میں جنسی تشدد پرعالمی کانفرنس:سکریٹری خارجہ کے اختتامی کلمات

میں نے بحیثیت سکریٹری خارجہ اس سے پہلے خارجہ پالیسی کے کسی مسئلے پر اتنا غیر معمولی اور متاثر کن اجتماع نہیں دیکھا جو ہم چند روز سے یہاں دیکھ رہے ہیں

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Foreign Secretary closes Global Summit to End Sexual Violence in Conflict' within

میں نے بحیثیت سکریٹری خارجہ اس سے پہلے خارجہ پالیسی کے کسی مسئلے پر اتنا غیر معمولی اور متاثر کن اجتماع نہیں دیکھا جو ہم چند روز سے یہاں دیکھ رہے ہیں۔ کئی لوگوں نے کئی برس تک اس مسئلے پر شدید محنت کی اور ایسا لگتا تھا کہ حالات ان کے مکمل خلاف ہیں۔

لیکن اس کانفرنس سے ایسا لگتا ہے کہ ہم دنیا بھر سے ہرعمرکے، ہرشعبہ زندگی سے، تمام مذاہب کے اورہرممکن ثقافت کے حامل، فنکاروں سے لے کرقانونی ماہرین اور ڈاکٹروں تک، لوگوں کی ایک فوج اکھٹا کرسکتے ہیں جو جنگوں اور تنازعات میں عصمت دری اورجنسی تشدد کے خاتمے کے مشترکہ وژن کے تحت متحد ہوں اوراب یہ معلوم ہوگیا ہے کہ یہ فوج منتشر نہیں کی جاسکے گی۔ یہ اب کامیابی کی طرف بڑھتی رہے گی۔

یہ حقیقت کہ، اس سے پہلے ہم نے اس مسئلے کو کبھی وہ اہمیت نہیں دی جو دینی چاہئیے تھی، دراصل سماجی روئیے اور ناکامیوں کی وجہ سے تھی۔ ہماری ناکامیاں یہ ہیں کہ ہم نےعورتوں کے حقوق سے ایک طویل عرصے تک انکارکی فیصلہ کن اور قطعی انداز میں مذمت نہیں کی۔

ہم نے دنیا کے تمام حصوں میں عورتوں پر تشدد اور ان کے خلاف امتیاز کو برداشت کیا اوراب بھی کررہے ہیں۔ اورعورتوں کو کئی ممالک کی معیشت، سفارتکاری اورحکومتوں میں اپنا جائز مقام ابھی تک نہیں مل پایا ہے۔

مجھے یہ بھی دکھ ہے کہ عورتوں کے گروپوں کو اب بھی مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے سوال کرنا پڑتا ہے جیسے کہ یہ انہیں کوئی رعایت دی جارہی ہویا ان کو بادل ناخواستہ یہ حق دیا جارہا ہو جبکہ بہتر فیصلوں اورمضبوط تر اورمحفوظ تر معاشرے تک پہنچنےکے لئے یہی واحد راستہ ہے۔

بحیثیت حکومت ہمیں اس یاد دہانی کی ضرورت نہیں کہ خواتین کو فیصلہ سازی کے ہر فورم میں نشست دی جانی چاہئیے اور صدیوں سے پڑی عادتوں کو تبدیل کرنے کی جدوجہد بہت سخت نہیں ہونا چاہئیے۔

ان چار دنوں کے متعدد قیمتی اور متاثرکن تجربات میں جو سب سے نمایاں تاثر اورعزم میں نے دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ہر متاثرہ شخص خواہ وہ عورت ہو،مرد ہو لڑکی ہو یا لڑکا، اگر وہ عصمت دری کے تجربے کو بیان کرسکے اور اپنی اذیت کواپنے لئے قوت اور دانائی اور دوسروں کے لئے احساس ہمدردی میں بدل ڈالے تووہ شخص حقیقی حوصلے، قوت اور لیڈرشپ کا مظاہرہ کررہا ہے۔

ہمیں اس کانفرنس سے حاصل کی گئی دانائی اور تجربے کو اپنی تمام جدوجہداورخارجہ پالیسی کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔

ہمیں دنیا بھر میں اس بات کا واضح یقین ہونا چاہئیے کہ متاثرین کو لگے بدنامی کے داغ ناانصافی ہیں، یہ بالکل غلط لگائے جاتے ہیں اور حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہ انسانیت کے دشمن ہیں اور متاثرہ شخص کو معاشرے کے لئے بھرپور کردار ادا کرنے سے روک دیتے ہیں۔

عصمت دری کا داغ ناقابل برداشت ہے کیونکہ اس سے ناانصافی پر ناانصافی پیدا ہوتی ہے، اذیت کا شکار افراد مزید تنہاہوجاتے ہیں اور ان کے لئے اپنے وقار کو برقرار رکھنا یا دوبارا حاصل کرنا مزیدناممکن ہوتا جاتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس ہفتے ہم نے اس مسئلے پر زبردست پیشرفت کی ہےاور میں تمام رہنماؤں کو جنہوں نے یہاں اپنے خیالات کا اظہارکیااور ‘کال فار ایکشن’ میں شامل ہوئے ہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

مجھے فخر ہے کہ ہم نے 70 وزرا اور 123 سے زائد ملکوں کو ایک بے مثال اتحاد اور سیاسی عزم کا اظہار کرتے دیکھا۔

ایک ہزار ماہرین نے 20 سیشن میں اس مسئلے کے ہر پہلو پرغورکیا۔ پہلےعالمی پروٹوکول پر وسیع حمایت دیکھنے میں آئی۔

متاثرین کے لئے مالی امداد کی فراہمی ہوئی جس میں امریکا اور برطانیہ شامل ہیں۔

نئی قومی حکمت عملی اور منصوبے تشکیل دئیے گئے۔ ہزاروں لوگوں نے اس میں دنیا بھر سے شرکت کی۔ اوراب ہم اس ہفتے اتنا کچھ کرچکے ہیں تو ہمیں مزید کام کرنا ہے اور آنے والے مہینوں اورسالوں میں کام کی رفتار کو بڑھانا ہے۔

ہمیں عالمی پروٹوکول پر عملدرآمد پر نظر رکھنا ہے اورسب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں عملی اقدامات کرنا ہیں۔

ہم نے یہاں لاکھوں لوگوں کے سامنےیہ مظاہرہ کیا کہ تنازعات میں جنسی تشدد کو ختم کرنا ممکن ہے۔

لیکن ہم آنے والے مہینوں میں یہ یقینی بنانے تک کسی وقت بھی آرام سے نہیں بیٹھیں گے کہ اس ہفتےہم نے لندن میں جو عالمی سطح کے کمٹمنٹس اور بے پناہ حمایت دیکھی ہے اسے عملی اقدامات میں ڈھالا جائے۔

اس میں حصہ لینے پرمیں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں.

کانفرنس کو لائیو دیکھئیے

*وزارت خارجہ فیس بک

*اردوویب سائٹ

شائع کردہ 13 June 2014