تقریر

برطانوی اقدار اورعالمی خارجہ امور

سفارتی نمائندوں کی انجمن بنگلا دیش (DCAB)میں برطانوی ہائی کمشنر رابرٹ گبسن کی تقریر سے چند اقتباسات۔ مکمل تقریرانگریزی میں دیکھی جاسکتی ہے

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
DCAB talks: Speech by British High Commissioner to Bangladesh

میں آج ان امور پر اپنی توجہ مرکوز رکھونگا جو میرے نزدیک بنگلا دیش میں ہماری پالیسی سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد میں آپ کے سوالات یا کسی بھی اور موضوع پر آپ کے تبصرے خوشی سے سننا چاہونگا۔ جب موجودہ برطانوی حکومت منتخب ہوئی تو سکریٹری خارجہ ولیم ہیگ نے ایک شعوری فیصلہ کیا کہ وہ برطانیہ کے سفارتی نیٹ ورک اور بیرون ملک سرگرمیوں میں وسعت اور بہتری لائیں گے۔ وہ چاہتے تھے کہ برطانوی ڈپلومیٹک سروس دنیا کی بہترین سروس شمار ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم جو بھی کریں اس کے لئے ایک ہی لفظ ہو ‘عمدہ سفارتکاری’ اس کا عملی نتیجہ یہ ہے کہ اب دنیا بھر کے 270 سفارتی دفتروں میں ہمارے 14000 افراد کام کرتے ہیں۔ان میں 10000 وہ لوگ ہیں جو 170 ان ملکوں کے باشندے ہیں جن میں ہم کام کرتے ہیں۔ ہمارے ہائی کمیشن اور سفارتخانوں میں حکومت کے کئی محکموں کی نمائندگی ہے جس میں بلاشبہ ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کی وزارت شامل ہے۔ اور میں یہاں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ اس سال برطانیہ نے بیرون ملک ترقی میں اقوام متحدہ کا مجموعی ملکی آمدنی کا ہدف07۔0 فی صد حاصل کرلیا ہے۔ برطانوی حکومت نے خارجہ پالیسی کی واضح سمت متعین کررکھی ہے۔ تو وہ خارجہ پالیسی کیا ہے؟میں وزارت خارجہ برطانیہ کی حکمت عملی میں سے یہ جملہ دہراتاہوں،’’ ہمارا مقصد ایک متحرک اور سرگرم خارجہ پالیسی کی جدوجہد ہےجو ہماری اقدار کے استحکام کے لئے ضابطوں پر مبنی نظام کے لئے کام کرے۔’’ ہمارے جیسا نسبتا چھوٹا ملک ایک موثر عالمی کردار ادا کرنا، استحکام اور خوشحالی اور اپنےشہریوں کی سلامتی کی جدوجہدکرناجاری رکھے ہوئے ہے۔اب برطانیہ کی نئی مرکزی ترجیحات میں برطانوی اقدار کا اشتراک اوران کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔ تو یہ اقدار کیا ہیں۔ عملا اس کا کیا مطلب ہے؟ ایک مرکزی قدر انسانی حقوق ہیں۔ ہم ان ملکوں کی حمایت میں اپنی آواز اٹھانا چاہتے ہیں جو اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہیں اوران ملکوں کا احتساب چاہتے ہیں جو اپنے شہریوں کے انسانی حقوق ظالمانہ اور باضابطہ طریقے سے سلب کرتے ہیں۔ جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس نہ لیا جائے وہاں شخص اس کا شکار ہوتا ہے۔ عدل،وقار، آزادی اور انصاف کے ہمارے تصورات ہماری تاریخ کا قیمتی عطیہ ہیں۔ جمہوریت اس کا ایک کلیدی عنصر ہے۔ محض انتخابات ہی ایک آزاد اور جمہوری معاشرہ تخلیق نہیں کر سکتے۔ ہمیں مضبوط اداروں، ذمے دار اور جواب دہ حکومت، ایک آزاد صحافت،قانون کی بالادستی اورمرد وعورتوں کے لئے یکساں حقوق کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی جہاں بھی ہورہی ہو ہم اسے نظر انداز نہیں کریں گے۔من مانی نظر بندی، سیاسی اور مذہبی بنیاد پر تشدد اور خواتین یا کسی بھی فرد کے حقوق سے انکار بشمول ان کے جو اقلیتی نظریہ رکھتے ہوں، ہمارے لئے کسی بھی وقت اورمقام پرناقابل قبول ہے۔ ہم ان ملکوں کی طرف سے کبھی آنکھیں بند نہیں کریں گے جو جمہوریت کے نعرے لگاتے ہیں لیکن بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں نہ ان ملکوں کی طرف سے جو قانون کی بالادستی کا دعوا کرتے ہیں جبکہ وہاں خودمختار عدالتیں اورریاستی قوت کے استحصال کے احتساب و شفافیت کا باقاعدہ نظام نہیں ہے۔ یہ محض برطانوی اقدار نہیں ۔یہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیئے میں بھی موجود ہیں۔ یہ سب پر یکساں لاگو ہوتی ہیں۔اور یہ فرد اور معاشرے کی فلاح اور خوشی کے لئے لازمی ہیں۔ ایک جدید اور مہذب معاشرے کی تشکیل کے لئے ان میں سے ہر قدر لازمی ہے۔ایسے مہذب معاشرے کے لئے جس میں ہم سب زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔خواہ یورپ کے ہوں یا ایشیا کے۔ اس وقت ہم عالمی امور کے باب میں ایک دور ابتلاسے گزر رہے ہیں۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے شاید یہ سب سے زیادہ ناقابل اعتبار اور غیر مستحکم دور ہے۔ اس وقت:

  • قومیں اپنا اپنا قومی مفاد چاہتی ہیں،
  • انتہا پسند نظریات جن کی ہمیں روک تھام کرنا ہے،
  • جنگیں جن کو ہمیں روکنا ہے،
  • نئے خطرات جن کی ہمیں پیش بینی کرنا ہے
  • معاہدے جن پرہمیں مذاکرات کرنا ہیں.
شائع کردہ 5 June 2014