تقریر

بیرونس وارثی کی اسلامی تنظیم برائے تعاون کے اجلاس میں شرکت

بیرونس وارثی نے آزادئی مذہب یا عقائد،اورملکوں کے درمیان دیانتدارانہ، کھلےاوربے تکلفانہ مکالمے پر بات کی

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
The Rt Hon Baroness Warsi

اسلامی تنظیم برائے تعاون کے قاہرہ میں ہونے والے اجلاس میں برطانیہ سے کابینہ کی سینئیروزیربیرونس سعیدہ وارثی نے شرکت کی۔ ان کی تقریر کے کچھ اقتباسات یہاں پیش کئے جارہے ہیں۔

میں نے اسلامی تنظیم برائے تعاون کی وزرائے خارجہ کانفرنس میں جو قزاقستان میں 2011ء میں ہوئی تھی، کہا تھا کہ برطانیہ اسلامی دنیا سے تعلقات کا مستحکم عہد رکھتا ہے۔ اس کے لئے میں تنظیم کے سکریٹری جنرل احسان اوغلو کی مشکور ہوں۔

آزادئی مذہب یاعقیدہ

ہم نے آج یہاں کئی اہم مسائل پربات کی ہے۔لیکن میں صرف ایک مسئلے پربات کرونگی۔ جس کا تانا باناکئی دوسرے مسائل سے جڑتاہے۔ایسا مسئلہ جو بذات خودایک چیلنج ہے۔لیکن اگرہم اسے درست کر لیں تو کئی دوسرے مسائل کا حل نکل آئے گا۔

وہ اشو ہے مذہب یا عقیدے کی آزادی۔

اسلاموفوبیا

میں جانتی ہوں کہ اسلامی تنظیم برائے تعاون کئی سال سے اسلاموفوبیا یا اسلام کے خلاف نفرت کے تازیانے پرخدشے کا شکار ہے۔

ایک مسلمان، عیسائی اکثریت کے ملک میں ایک اقلیتی عقیدے کی حامل نازاں فرد اور ایک سرکاری وزیر کی حیثیت سے مجھے بھی اس پرگہری تشویش ہے۔لیکن صرف تشویش سے خلیج نہیں پاٹی جاسکتی۔

سوال یہ ہے کہ اس تازیانے سے کیسے نمٹا جائے؟ اسے کیسے شکست دی جائے؟

میں سمجھتی ہوں کہ مذہبی عدم برداشت جہاں بھی آئے اس کا منہ درمنہ مقابلہ کیا جانا چاہئیے اور معاشرے میں سب کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہئیے

Baroness Warsi with His Holiness Pope Tawadros II

Baroness Warsi with His Holiness Pope Tawadros II

برطانیہ کا تجربہ

برطانیہ میں ہم نے یہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ہم نے مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر نفرت کے خلاف قانون سازی کی ہے خواہ وہ مسلم دشمن رویہ ہو یا کسی اور عقیدے یا مذہب کے خلاف ہو۔ یہ ایک جرم ہے لیکن ہم نے2008ء میں توہین مذہب قانون کو ختم بھی کردیا ہے کیونکہ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ آزادئی اظہار سے مطابقت نہیں رکھتاتھا۔

اس باب میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔اس کے لئے تحمل،اوروقت درکار ہے شایداس میں ایک دونسلیں لگ جائیں۔ گزشتہ دوسال میں اس خطے میں عوام وقار، آزادی ، روزگار اور بنیادی حقوق کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں. اوران میں مذہب یا عقیدے کی آزادی قطعا بنیادی ہے،تمام انسانوں کا عالمی حق۔

لیکن دنیا بھر میں اس بنیادی آزادی سے محروم ہیں۔ انہیں کسی ایک مذہب یا عقیدے کی بنا پرنشانہ بنایا جاتا ہے یا قید کردیا جاتا ہے۔میرے لئے مسلمان ہوناپوری انسانیت کے لئے ہے۔

میراماننا ہے کہ انسانی حقوق، اسلامی اقدار کو تقویت دیتے ہیں۔اور یہ حقوق کسی ایک مذہبی عقیدے یا نسلی گروہ کے لئے مخصوص نہیں۔

اسی سبب سے میں عیسائیوں،یہودیوں اوردوسرے عقیدے کے حامل افرادیا کوئی بھی عقیدہ نہ ماننے والوں کے لئے پورے جذبے کے ساتھ آوازاٹھاتی ہوں جیسا کہ اپنے ہم مذہب مسلمانوں کے لئے۔ حکومتوں کا بنیادی فرض اپنے عوام کا تحفظ ہے۔ اس ذمے داری میں کوئی استثنا نہیں۔

اسلئے میری جانب سے آج آپ سب کو گھر لے جانے کے لئے کوئی پیغام ہے تو وہ یہ ہے کہ مذہب یا عقیدے کی آزادی عالمگیر ہے۔

بر طانیہ میں رواداری کا ماحول

برطانیہ بالکل مثالی تونہیں۔لیکن میں یہاں مذہبی رواداری،کثیرالنسلی، کثیرالثقافتی اورکثیرالمذہبی ریاستی ماحول پرنازاں ہوں۔

اب یہی سادہ سی بات دیکھ لیجئیے کہ اور کون سے ملک میں میرے جیسی ایک غریب مسلمان مہاجر کی بیٹی حکومتی کابینہ کی نشست تک پہنچ سکتی تھی؟

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی قرارداد17/16 جو مذہبی عدم برداشت سے نمٹنے کے لئے ہے اب استنبول پراسس کی چھتری تلے آچکی ہے ایسی مضبوط بنیادفراہم کرتی ہے جس پر کام کیا جاسکتا ہے۔اقوام متحدہ کے اراکین نے مشترکہ طورپراس قرارداد پرعملدرآمد کے مطالبےپردستخط کر دئیے ہیں۔

لیکن ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے سیاسی عزم ۔

دو ہفتے پہلے میں نے لندن میں اسی موضوع پر ایک اعلی سطحی اجلاس کی میزبانی کی اور اس میں سکریٹری جنرل احسان اوغلو تشریف لائے، ان کے علاوہ کینیڈا، پاکستان اور امریکا سے وزرااوردوسرے ملکوں سے نمائندے شریک ہوئے۔

میں امیدکرتی ہوں کہ اس اجلاس کی ہمارے بات چیت سے اس مکالمے کی پیشرفت ہوگی۔ایسا مکالمہ جس میں ہم پورے اعتمادسے اور کھل کر بات کریںگے، ایک دوسرے سے سیکھتے ہوئے اور اپنے اپنے ملکوں میں ہم نے یہ مسئلہ کیسے حل کیا ہے اس کی بہترین مثالیں دیتے ہوئے۔’’

شائع کردہ 7 February 2013