تقریر

افغانستان اوراس کے پڑوسی

بھارت میں برطانوی ہائی کمشنر سرجیمز بیون کا دہلی پالیسی گروپ سے 22 اپریل کوخطاب.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
james bevan

’’ خدا آپکو کوبرا سانپ کے زہر، چیتے کے دانت اورافغانوں کے انتقام سے محفوظ رکھے۔’’

یہ میرے الفاظ نہیں۔ یہ ایک اہم ہستی نے ادا کئے تھے جسے افغانستان کا بڑا تفصیلی تجربہ ہوا تھا یعنی سکندرآعظم۔.

Iان الفاظ سے اپنی تقریر شروع کر نے کا مقصد یہ نکتہ اٹھانا ہے کہ افغانستان بیرونی عناصر کے لئے کبھی آسان مقام نہیں رہاخواہ وہ کہیں سے بھی آئے ہوں۔ایرانیوں کو اس کا علم تھا۔ روسیوں نے بھی یہ دریافت کرلیا ہے.

اور برطانویوں کو اپنی تاریخ کے حوالےسے اس کا علم ہے۔ سلطنت کا شاعر رڈ یارڈ کپلنگ برطانوی استعماریت پر یقین رکھتا تھا۔ لیکن اس نے بھی افغانستان میں مداخلت پر باور نہیں کیا اس نے اپنی ایک سیاہ ترین نظم میں کہا تھا:

'’جب آپ زخمی ہوں اورافغانستان کے میدان میں پڑے ہوں

اورعورتیں بچا کھچا بھی کاٹ ڈالنے کے لئے باہر آجائیں

تو اپنی بندوق اٹھا کرخوداپنے بھیجے کو اڑادیں

اور ایک سپاہی کی طرح اپنے خدا کے پاس پہنچ جائیں.’’

تو پھرپہلا سوال جو آپ کریں گے اور برطانیہ میں متعدد لوگ کرتے چلے آئے ہیں وہ یہ کہ: برطانیہ آخر افغانستان میں موجود کیوں ہے؟

جواب آسان ہے: افغانستان اتنا اہم ہے کہ ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے.

سب سے پہلے تو ہماری سلامتی کے لحاظ سے کہ ہم 11/9 کے بعد وہاں اس لئے گئے کہ افغانستان کو عالمی دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ رہنے دیں.

حکمت عملی کے اعتبار سے ایک غیر مستحکم افغانستان اس پورے خطے کے لئے اورخطے میں ہمارے دوستوں کے لئے جس میں بھارت شامل ہے ایک خطرہ بنا رہے گا.

پھرسیاسی اورذاتی طورپرکیونکہ گزشتہ عشرے میں برطانیہ نے اپنا خون اورسرمایہ افغانستان کو دیا ہے۔ ہماری کارروائیوں پر کروروں پاؤنڈ صرف ہوئے ہیں اور 400 سے زیادہ ہمارے جری مرد اور خواتین سپاہی ہلاک ہوئے ہیں۔ہمارا عزم ہے کہ اتنی بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد ان قربانیوں کا صلہ ضائع نہ ہو بلکہ یقینی رہے.

اسی لئے آج میں یہ نکتہ واضح کررہا ہوں کہ برطانیہ 2014ء کے بعدافغانستان چھوڑ کر نہیں جارہا ہے۔ ہماری لڑاکا فوج افغانستان سےواپس جارہی ہے وہ اس سال کے آخر تک تقریبا تمام کے تمام چلے جائیں گے۔ لیکن افغانستان اتنا اہم اور اب بھی کمزور ہے کہ ہم یا باقی عالمی برادری اسے چھوڑ نہیں سکتی۔ لہذا برطانیہ قابل قیاس مستقبل تک وہاں عمیق طور پر موجود رہے گا.

خاص طور پر:

  • ہم افغانستان کی سلامتی کی ضمانت میں مدد دیتے رہیں گے۔ ہم اپنی سلامتی کا تحفظ اسی صورت میں کر سکتے ہیں جبکہ افغانوں کو ان کی سلامتی کی ذمے داری سنبھالنے میں مدد دیں۔ اسی لئے برطانیہ افغان قومی فوج کی ترقی میں معاونت کررہا ہے.

  • ہم افغانستان کی ترقی کے فروغ میں مدد جاری رکھیں گے۔ برطانیہ ہرسال کم از کم 2017ء تک 300 کرورڈالر ترقیاتی تعاون کے لئے فراہم کرتا رہے گا۔

  • بھارت اور دوسرے ملکوں کے ساتھ ہم نے حالیہ کامیاب انتخابات میں ایک سرگرم کردار ادا کیا۔ ہم ایسے افغان اداروں کی تعمیر میں مدد دے رہے ہیں جو اچھی حکومت سازی، قانون کی حکمرانی، احتساب اور پائیداراستحکام کو یقینی بناسکیں..

تو افغانستان کے امکانات کیا ہیں؟اچھے بشرطیکہ ہم اس راہ پرقائم رہیں.

ہم پیش رفت کررہے ہیں، تحفظ کی ذمے داری اب تقریبا تمام تر افغان قومی فوج کے ہاتھ میں ہے۔ اب یہ فوج نہ کہ بین الاقوامی آئیساف پورے افغان عوام کا تحفظ کررہی ہے.

ملک میں معاشی ترقی نمایاں ہے۔افغانستان کی مجموعی قومی پیداوار 2001ء سے بڑھ گئی ہے اور کابل اب ایک پھلتا پھولتا ہوا تجارتی مرکز ہے.

تعلیم ترقی پر ہے۔60 لاکھ سے زائد افغان بچے اب اسکول جاتے ہیں جن میں 20 لاکھ سے اوپر لڑکیاں ہیں۔ .

صحت بہتر ہورہی ہے۔ صرف ایک عشرے میں اوسط عمر میں 18 سال کا اضافہ ہوگیا ہے.

حکومت سازی بہتر ہورہی ہے۔اس سال کے انتخابات سے یادداشت میں پہلی بار اقتدار پرامن جمہوری انداز میں منتقل ہوگا۔ انتخابات سے واضح ہواہےکہ افغان خود اپنے جمہوری مستقبل کے لئے پرعزم ہیں.

کیا اس سب کا مطلب ہے کہ امن عمل آسان ہوگا؟ نہیں- تمام امن عمل طویل، پیچیدہ اوررکاوٹوں سے پر ہوتے ہیں، یہ کوئی مستثنی معاملہ نہیں.

لیکن کیا ایک مستحکم تر، جمہوری اورخوشحال افغانستان کا حصول ممکن ہے؟ ہاں- بشرطیکہ ہم مل جل کر کام کرتے ہوئے اس کے حصول میں مدد دیں.

اس مہم میں بھارت کو مرکزی کردار ادا کرناہے۔ افغانستان میں بھارت کے اہم مفادات ہیں۔ افغانستان کے استحکام اور امن کو یقینی بنانے میں بھارت کا بہت بڑا اسٹیک ہے کہ وہ بھارت یا وسیع تر خطے میں دہشت گردی برآمد نہ کرسکے۔

افغانستان میں بھارت کا جو اثر ہے وہ کسی اور ملک کا نہیں۔ بھارت کو افغان عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ رائے عامہ کے سروے سے باقاعدگی سے معلوم ہوتا ہے کہ افغانوں کے نزدیک بھارت کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ محترم ہے۔بھارت سے نزدیکی اوراس کے سائز کا مطلب ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں افغانستان میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔

بھارت کی خوشحالی اور افغانستان کے ساتھ تجارتی روابط کی وجہ سے وہ ملک کی ترقی اور معاشی پائیداری میں اہم رہے گا۔ بھارت کا 2 بلین ڈالر کا امدادی پروگرام افغانستان کی ترقی میں نمایاں کردارادا کررہا ہے۔

بھارتی حکومت کی طرح نجی بھارتی کاروبار بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ افغانستان میں بھارتی کمنیاں سب سے بڑے سرمایہ کاروں میں سے ہیں۔گزشتہ سال ایک بھارتی کنسورشیم نے لوہے کی کانکنی کا 10 بلین ڈالرکا معاہدہ حاصل کیا ہے۔ دیگر کمپنیاں دوسری معدنیات، صحت اور تعلیم میں سرمایہ کاری کے لئے کوشاں ہیں۔ آنے والے عشرے میں عالمی امداد میں کمی ہوتی جائے گی اور اس کے ساتھ نجی شعبہ جس کی قیادت بھارت کرے گا افغانستان کی خوشحالی اور استحکام میں زیادہ اہمیت اختیار کرلے گا۔

لہذا افغانستان برطانیہ اور بھارت دونوں کے لئے بے حداہم ہے اور ہم دونوں افغانستان کے لئے اہم ہیں۔ اسی لئے میرا ماننا ہے کہ آنے والے چند سال میں مستحکم ،پر امن خوشحال اور جمہوری افغانستان کے فروغ کے لئے برطانیہ اور بھارت دونوں کےلئے مل جلکر کام کرنے کا موقع ہے۔

اور ہم افغانستان کی سر زمین پر ایسا ہی کررہے ہیں۔ کابل میں ہمارے موجودہ سفیر سر رچرڈ اسٹیگ یہاں بھارت میں میرے پیش رو تھے۔ وہ بھارت اور اس کے مفادات کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ وہ کابل میں اپنے بھارتی ساتھیوں کے ساتھ قریبی تعاون سے کام کرتے ہیں اور اکثر دہلی آتے ہیں تاکہ صورتحال کے بارے میں اپنے تجزئیے کو بھارتی حکومت کے ساتھ بانٹ سکیں۔

رابطہ رکھنا مہنگاہوتا ہے لیکن رابطے میں ناکامی ہم سب کواس سے زیادہ مہنگی پڑے گی۔ جیسا کہ لیون ٹراٹسکائی نے ایک بار کہا تھا:’’ ممکن ہے آپ جنگ میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں،لیکن جنگ کو آپ سے دلچسپی ضرورہے۔’’

شائع کردہ 22 April 2014