رہنمائی

ڈاٶنز سنڈروم،ایڈورڈز سنڈروم اور پٹاٶز سنڈروم: 1 جون 2021 کے بعد کیا جانے والے مجموعی یا کواڈروپل یعنی چوہرا ٹیسٹ

اپ ڈیٹ کردہ 4 August 2022

پبلک ہیلتھ انگلینڈ (PHE) نے یہ معلومات NHS کی جانب سے تیار کی ہیں۔ اِن معلومات میں حرف ‘ہم’ سے مراد NHS سروس ہے جو کہ سکریننگ مہیا کرتی ہے۔


اِس مختصر اینیمیشن میں دوران حمل ڈاٶنز سنڈروم،ایڈورڈز سنڈروم اور پٹاٶز سنڈروم کی سکریننگ کی وضاحت کی گئی ہے۔ ڈاٶنز سنڈروم،ایڈورڈز سنڈروم اور پٹاٶز سنڈروم کی ویڈیو

1. سکریننگ کا مقصد

یہ معلوم کرنا کہ آیا آپ کے بچے کو ڈاؤنز سنڈروم (Trisomy 21 or T21)، ایڈورڈز سنڈروم (Trisomy 18 or T18) یا پٹاؤز سنڈروم (Trisomy 13 or T13) ہونے کا کتنا امکان ہے۔

سکریننگ کروانا آپ کی منشا پر منحصر ہے۔ آپ کو یہ سکریننگ ٹیسٹ کروانا ضروری نہیں ہے۔ کچھ لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا ان کے بچے کو ان کیفیات میں سے کوئی کیفیت لاحق تو نہیں ہے اور بعض نہیں چاہتے۔ سکریننگ کامل نہیں ہے اور نادرست نتائج دکھا سکتی ہے۔ اِس لیے یہ آپ کے حمل کے بارے میں بات کو ذاتی منشا تک لے جا سکتی ہے۔

اگر آپ سکریننگ کروانے کا انتخاب کریں تو آپ کی سکریننگ ہو سکتی ہے:

  • سبھی 3 بیماریوں کے لیے
  • صرف ڈاؤنز سنڈروم کے لیے
  • صرف ایڈورڈز سنڈروم اور پٹاؤز سنڈروم کے لیے

اِس سکریننگ کی پیشکش کی جائے گی چاہے آپ کے ہاں ایک بچہ پیدا ہو یاں جُڑاواں بچے۔

2. سکریننگ کا طائرانہ جائزہ

سکرننگ میں متعدد مختلف ٹیسٹس شامل ہو سکتے ہیں۔

پہلے سکریننگ ٹیسٹ کو کمبائنڈ یعنی مجموعی ٹسیٹ (یا اگر آپ کا حمل کافی پُرانا ہو تو پھر کواڈروپل یعنی چوہرا ) کہتے ہیں۔ پھر آپ کو ایک دوسری نوعیت کے ٹیسٹ کی پیشکش کی جا سکتی ہے جِسے این آئی پی ٹی (نان-انیویسیو پیرنیٹل ٹیسٹنگ) کہا جاتا ہے۔ اِس میں سے کسی بھی ٹیسٹ کے بعد آپ کو ایک تشخیصی ٹیسٹ کی پیشکش اِس بات کا تعین کرنے کے لیے کی جا سکتی ہے تاکہ تصدیق کی جا سکے کہ آیا آپ کے بچے کو اِن میں سے کوئی عارضہ تو لاحق نہیں ہے۔

ڈاؤنز سنڈروم, ایڈورڈز سنڈرومپٹاؤز سنڈروم کے بارے میںاین ایچ ایس کی ویب سائٹ پر مزید معلومات تلاش کریں

3. اِن بیماریوں کے بارے میں

ہمارےجسم کےخلیوں کےاندر ننّھی منّی سے چیزیں ہوتی ہیں جنہیں کروموسومز کہا جاتا ہے۔ یہ ڈی این اے (جینیاتی مواد) سے بنے ہوتے ہیں۔ ان میں وہ جینز موجود ہوتے ہیں جو فیصلہ کرتےہیں کہ ہماری نشوونما کیسے ہو گی۔ ہرخلیے میں کروموسومز کے 23 جوڑے ہوتے ہیں۔ نطفے یا بیضےکے خلیات میں تبدیلیاں ہو سکتی ہیں، جن سے بچے میں ایک اضافی کروموسوم ہو سکتا ہے۔ ڈاٶنز سنڈروم، ایڈورڈز سنڈروم اور پٹاٶز سنڈروم والے بچے ہر عمر کی ماٶں کے ہاں جنم لے سکتے ہیں لیکن ماں کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اِن بیماریوں میں سے کسی ایک بیماری کے حامل بچوں کے پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اِن سب کا باعث جسم کے ایک یا تمام خلیات میں کروموسوم کی ایک اضافی نقل کا موجود ہونا ہے۔ صرف ایک خلیے کے اندر اضافی کروموسوم کا ہونا پچی کاری کی شکل کہلاتا ہے اور اِس کے بچے میں ہلکے اثرات ہو سکتے ہیں۔ سکریننگ سے یہ شناخت نہیں ہو سکتی کہ آپ کے بچے کو معذوری کی کونسی شکل یا معذوری کا کونسا درجہ لاحق ہو گا۔

ڈاؤنز سنڈروم (T21)

ڈاؤنز سنڈروم، جسم کے تمام یا کچھ خلیوں میں کروموسوم 21 کی ایک اضافی نقل ہونے کے سبب ہوتا ہے۔ ڈاؤنز سنڈروم میں مبتلا فرد کو کچھ حد تک سیکھنے کی معذوری ہوگی۔ اس کا مطلب ہےکہ وہ نئی باتوں کو سمجھنے اور نئے کام سیکھنے میں عام لوگوں سے زیادہ دقّت محسوس کریں گے۔ انہیں بات چیت کے ذریعے پیغام رسانی اور روزمرّہ کے کاموں میں مسائل اور مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ڈاؤنز سنڈروم والے لوگوں کے چہرے کی خصوصیات امتیازی ہوتی ہیں لیکن وہ سب ایک جیسے نہیں نظر آتے۔

ڈاؤنز سنڈروم کا شکار زیادہ تر بچےعام سکولوں میں جائيں گے لیکن انہیں اضافی اعانت درکار ہوگی۔

ڈاؤنز سنڈروم کا شکار لوگوں میں صحت کے کچھ مسائل زیادہ عمومی ہوتے ہیں۔ اس میں دل کی بیمایاں اور سماعت اور بصارت کے مسائل شامل ہیں۔ ذہنی صحت مسائل کا علاج کیا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے لگ بھگ 5% بچے اپنی پہلی سالگرہ تک نہیں جی پائیں گے۔ جن بچوں کو صحت کے سنگین مسائل نہیں ہیں ان کے زندہ رہنے کا امکان دیگر بچوں کی طرح ہی ہے اور ڈاؤن سنڈروم والے زیادہ تر لوگ اپنی 60 سال یا زیادہ کی زندگی جیئیں گے۔

ڈاؤنز سنڈروم کے شکار لوگ ایک اچھے معیار کی زندگی گزار سکتے ہیں اور زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے خوش ہیں۔ اعانت کے ساتھ، ڈاؤنز سنڈروم والے مزید بہت سارے لوگ بلوغت میں ملازمت حاصل کرسکیں گے، رشتے بنا سکیں گے اور کسی حد تک خودمختارانہ زندگی گزار سکیں گے۔

ایڈورڈزسنڈروم (T18) اور پٹاؤز سنڈروم (T13)

ایڈورڈز سنڈروم والے بچوں کے تمام یا کچھ خلیوں میں کروموسوم 18 کی ایک اضافی نقل ہوتی ہے۔ پٹاؤز سنڈروم والے بچوں کے تمام یا کچھ خلیوں میں کروموسوم 13 کی ایک اضافی نقل ہوتی ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ زندہ رہنے کی شرحیں کم ہیں اور ایسے بچوں کی زندہ پیدائش اور اپنی پہلی سالگرہ تک زندہ رہنے کی شرح، ایڈورڈز سنڈروم کے ساتھ لگ بھگ 13% اور پٹاؤز سنڈروم کے ساتھ 11% ہے۔ کچھ بچےجوانی کو پہنچتے ہیں لیکن یہ بہت کم ہوتا ہے۔ ایڈورڈز یا پٹاؤز سنڈروم کے ساتھ پیدا ہونے والے تمام بچّوں کو سیکھنے کی معذوری اور وسیع پیمانے پر جسمانی مسائل کا سامنا ہوگا، جو انتہائی سنگین ہو سکتے ہیں۔ انہیں ان کے دل، نظام تنفس، گردوں اور نظام انہضام کے مسائل ہو سکتے ہیں۔

پٹاؤز سنڈروم والے لگ بھگ نصف بچوں کو ہونٹ اور تالو میں شگاف بھی ہوگا۔ ایڈورڈز سنڈروم یا پٹاؤز سنڈروم والے بچوں کا وزن پیدائش کے وقت کم ہوگا۔

اپنی دشواریوں کے باوجود بچے اپنی نشوونما میں دھیرے دھیرے پیش رفت کر سکتے ہیں۔ دیگر بیماری والے زیادہ عمر کے بچوں کو خصوصی سکول جانے کی ضرورت ہوگی۔

ہر 10،000 پیدائشوں میں سے 10 میں ^ ڈاؤنز سنڈورم ہوتی ہے۔ ہر 10،000 پیدائشوں میں سے 3 میں ایڈورڈز سنڈروم ہوتی ہے۔ ہر 10،000 پیدائشوں میں سے 2 میں پٹاؤ سنڈروم ہوتی ہے۔

4. پہلا سکریننگ ٹیسٹ

اگر آپ کمبائنڈ ٹیسٹ کروانے کا انتخاب کریں تو اِس میں شامل ہیں:

  • خون کا نمونہ جو حمل کے 10 اور 14 ہفتوں کے بیچ آپ کے بازو سے لیا جائے گا
  • آپ کے بچے کی گردن کے پچھلے حصے میں موجود مائع کی پیمائش کے لیے ایک الٹراساؤنڈ سکین 11 اور 14 ہفتوں کے حمل کے

دوران کیا جائے گا - اِسے انچل ٹرانس لوسنسی (NT) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اِن معلومات کو آپ کی عمر کے ساتھ جوڑ کر آپ کے بچے کے اندر عارضے کی موجودگی کے امکان کا حساب لگایا جائے گا۔ اگر آپ کا حمل 14 ہفتوں سے زیادہ کا تو کمبائنڈ ٹیسٹ مناسب نہ ہو گا۔ آپ کو پھر بھی پیشکش کی جائے گی:

  • خون کے ایک ٹیسٹ کی جسے کواڈروپل ٹیسٹ کہا جاتا ہے، ڈاؤنز سنڈروم کے لیے حمل کے 14 اور 20 ہفتوں کے درمیان (یہ ٹیسٹ کمبائنڈ ٹیسٹ جتنا مستند نہیں ہے)۔
  • 20-ہفتے کا سکین جو کہ ایڈورڈز سنڈروم اور پٹاٶز سنڈروم کی سکریننگ کرتا ہے۔

5. ٹیسٹ سے متعلق تحفظ

اس سکریننگ ٹیسٹ سےآپ کو یا آپ کے بچےکو نقصان نہیں پہنچ سکتا لیکن ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ خوب غور کے بعد کرنا چاہئیے۔ یہ ٹِسٹ یقینی طور پر یہ نہیں بتا سکتا کہ بچّے کو اِن عارضوں میں کوئی واقعی ہے یا نہیں۔ اس سکریننگ ٹیسٹ سے ایسی معلومات مل سکتی ہیں جن سے آپ کے حمل کے بارے میں اہم فیصلے کرنے میں آسانی ہوگی۔

اگر آپ کو پہلے سکریننگ ٹیسٹ سے زیادہ-امکان والا رزلٹ ملتا ہے تو پھر آپ کو غور کرنا چاہیے کہ آیا آپ دوسرا سکریننگ ٹیسٹ کروانا چاہتی ہیں یا پھر ایک تشخیصی ٹیسٹ کروانا چاہتی ہیں جس میں حمل گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اگر آپ تشخیصی ٹیسٹ کرواتی ہیں تو پھر رزلٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہو سکتا ہے کہ آپ فیصلہ کرنا پڑے کہ آیا آپ حمل جاری رکھنا چاہتی ہیں یا گرانا چاہتی ہیں۔ ## سکریننگ کے ممکنہ نتائج

اِس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آپ نے سکریننگ ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کرتے وقت کیا طلب کیا تھا، ہم آپ کو مندرجہ ذیل کے ایک یا دونوں نتائج دیں گے:

  • ڈاؤنز سنڈروم کے لیے نتیجہ
  • ایڈورڈز سنڈروم اور پٹاٶز سنڈروم کے لیے مشترکہ نتیجہ

کم-امکانی نتیجے کا مطلب ہو گا کہ بچے میں عارضہ ہونے کا امکان شاذو نادر ہو گا، اگرچہ اب بھی ممکن ہے۔ زیادہ تر (تقریباً 97٪) سکریننگ ٹیسٹس کم امکان والے ٹیسٹ ہوتے ہیں۔

زیادہ-امکانی نتیجے کا مطلب ہو گا کہ بچے میں عارضہ ہونے کا امکان زیادہ ہو گا، اگرچہ اب یقینی نہیں ہے۔ مجموعی طور پر تقریباً 3٪ سکریننگ ٹیسٹ کے نتائج زیادہ امکان والے ہوتے ہیں۔

ہم ہر نتیجے کو ایک امکان کا نام دیں گے، مثلاً آپ کے بچے کا ڈاؤنز سنڈروم کے ساتھ پیدا ہونے کا ‘150 میں سے 1 امکان’ ہے۔ پہلا نمبر جتنا بڑا ہو گا (جیسے 150)، تو اُتنا ہی آپ کے بچے میں جنم سے ہی کسی عارضے میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہو گا۔ چنانچہ، ‘200 میں سے 1 امکان’ ‘100 میں سے 1 امکان’ سے کم ہے۔

A ‘کم-امکانی’ نتیجہ 151 یا زیادہ میں 1 امکان ہے، مثلاً 300 میں 1 امکان۔ ایک ‘زیادہ-امکانی’ نتیجے میں 150 تک میں 1 امکان ہے، مثلاً 100 میں 1 امکان۔

یہ سمجھنے کے لیے کیا، مثلاً ‘300 میں 1 امکان’ کا کیا مطلب ہوتا ہے، 300 خواتین کے ایک گروہ کا تصور کریں۔ اِن خواتین میں ایک عورت کسی ایسے بچے کو جنم دے گی جس میں یہ عارضہ موجود ہوگا۔

6. ٹیسٹ نہ کروانا

اگر آپ ڈاؤنز سنڈروم، ایڈورڈز سنڈروم اور پٹاؤز سنڈروم کے لیے سکریننگ ٹیسٹ نہ کروانے کا انتخاب کرتی ہیں، تو بھی دوران حمل کی آپ کی بقیہ دیکھ بھال متاثر نہیں ہوگی۔

آپ کے حمل کے دوران کیے گئے کسی سکین سے بچے میں جسمانی مسائل کا پتہ چل سکتا ہے جو ان بیماریوں سے متعلق ہو سکتے ہیں۔ اگر سکین کے دوران کوئی غیر معمولی چیز پائی جاتی ہے تو آپ کو ہمیشہ بتایا جائے گا۔

7. اپنے نتائج حاصل کرنا

اگر آپ کا سکریننگ ٹیسٹ کم امکان والا نتیجہ دکھاتا ہے، تو آپ کو ٹیسٹ ہونے کے بعد 2 ہفتوں کے اندر بتا دیا جائے گا۔ اگر آپ کا سکریننگ ٹیسٹ زیادہ-امکان والا نتیجہ دکھاتا ہے، تو آپ کو ٹیسٹ ہونے کے بعد ایک ہفتے کے اندر بتا دیا جائے گا۔ آپ کو بات چیت کرنے کے لئے ملاقات کے وقت کی پیشکش کی جائے گی:

  • ٹیسٹ کے نتائج اور اِن کا کیا مطلب ہے
  • وہ عارضہ جو آپ کے بچے کو ہونے کا امکان ہے
  • آپ کے لیے دستیاب راستے

8. مزید ٹیسٹس

اگر آپ کا نتیجہ کمتر-امکان والا ہے تو، آپ کو مزید ٹیسٹ کی پیشکش نہیں کی جائے گی۔

اگر آپ کا نتیجہ زیادہ-امکان والا آتا ہے تو پھر آپ کو فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے:

  • مزید ٹیسٹنگ نہ کروانے کا
  • یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کہ آیا تشخیصی ٹیسٹ کروایا جائے یا نہ، زیادہ مستند سکریننگ رزلٹ حاصل کرنے کے لیے، ایک دوسرا سکریننگ ٹیسٹ کروانے کا (جسے این آئی پی ٹی کہا جاتا ہے)
  • فوراً تشخیصی ٹیسٹ کروانے کا

آپ کے فیصلوں کا احترام کیا جائے گا اور نگہداشت صحت کے پیشہ ور افراد آپ کی اعانت کریں گے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے فیصلوں کا احترام نہیں کیا جا رہا ہے تو آپ آواز اٹھا سکتے ہیں۔ سپورٹ فراہم کرنے والے ادداروں سے بھی معلومات دستیاب ہیں۔ آپ کو اِن سکریننگ یا تشخیصی ٹیسٹوں سے جو بھی نتائج حاصل ہوں، آپ کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد دینے کے لیے کہ آگے کیا کرنا ہے، مدد اور سپورٹ فراہم کی جائے گی۔

9. دوسرا سکریننگ ٹیسٹ (این آئی پی ٹی)

دوسری نوعیت کے سکریننگ ٹیسٹ کو این آئی پی ٹی (نان-انیویسیو پیر نیٹل ٹیسٹنگ) کہا جاتا ہے۔

این آئی پی ٹی ٹیسٹ کمبائنڈ اور کواڈروپل ٹیسٹ سے زیادہ مستند ہے اگرچہ یہ جُڑواں بچوں والے حمل میں اُتنا مستند نہیں ہوتا۔ یہ آپ کے خون میں ڈی این اے (جینیاتی مواد) کی پیمائش کر کے کیا جاتا ہے۔ اِس میں کچھ ڈی این اے بچے کے پلیسنٹا یعنی آنول سے لیا جاتا ہے۔ اگر کروموسومز 21، 18 یا 13 میں توقع سے زیادہ ڈی این اے موجود ہو تو اِس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے بچے کو ڈاؤنز سنڈروم، ایڈورڈز سنڈروم یا پٹاؤز سنڈروم ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ہر سکریننگ ٹیسٹ کی طرح یہ ایک قطعی جواب نہیں دیتا ہے۔ این آئی پی ٹی اپکے بچے کو گزند نہیں پنچاتا ہے۔ زیادہ تر خواتین کو اُن کے نتائج 2 ہفتوں کے اندر مل جائیں گے۔

زیادہ تر لوگوں کو کمتر-امکانی نتائج حاصل ہوں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بچے میں یہ عارضہ ہونے کا امکان کم ہے۔ آپ کو تشخیصی ٹیسٹ کی پیشکش نہیں کی جائے گی۔

اگر آپ کے این آئی پی ٹی ٹیسٹ کا نتیجہ زیادہ-امکانی ہو گا تو آپ کے بچے میں اِس عارضے کے ہونے کا امکان زیادہ ہو گا۔ اِس کے بعد آپ کو تشخیصی ٹیسٹ کی پیشکش کی جائے گی، اگرچہ یہ کروانے یا آپ کے نہ کروانے کا اختیار آپ کو حاصل ہے۔ بہت تھوڑے معاملات میں امکان ہوتا ہے کہ این آئی پی ٹی کوئی نتیجہ فراہم نہ کرے۔ اِس کے بعد آپ مزید ایک این آئی پی ٹی، تشخیصی یا مزید کوئی ٹیسٹ نہ کروانے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔

10. تشخیصی ٹیسٹ (سی وی ایس یا ایمینیو سینٹیسیس)

تشخیصی ٹیسٹس ایک قطعی جواب دیتے ہیں۔ یہ پلیسنٹا یا آپ کے بچے کے ارد گرد مائعات کے خلیے ٹیسٹ کرتا ہے۔ تشخیصی ٹیسٹوں میں ڈاٶنز سنڈروم، ایڈورڈز سنڈروم یا پٹاٶز سنڈروم کے علاوہ بھی عارضے پکڑے جاتے ہیں لیکن یہ شاذونارد ہی ہوتا ہے۔ ٹیسٹ کروانے والی 200 خواتین میں سے 1 (5۔0٪) خاتون کا حمل یہ ٹیسٹ کروانے کی وجہ سے گر جائے گا۔ تشخیصی ٹیسٹ کی 2 قسمیں ہیں: کرونک ویلس سیمپلنگ (سی وی ایس) اور امینیو سینٹیسیس

10.1 سی وی سی (کرونک ویلس سیمپلنگ)

یہ عموماً حمل کے 11 سے 14 ہفتوں میں کیا جاتا ہے لیکن بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایک باریک سوئی سے، جو عموماً ماں کےپیٹ میں سے ڈالی جاتی ہے،آنول سے ایک ننھا سا نمونہ ٹشو کا لیا جاتا ہے۔

امینوسنٹیسیس

یہ عموماً حمل کے 15 ہفتوں بعد کیا جاتا ہے۔ ایک باریک سوئی ماں کے پیٹ میں سے رحم میں ڈال کر ایک تھوڑا سا نمونہ اس مائع کا لیا جاتا ہے جس میں بچہ گھرا ہوا ہوتا ہے۔

11. تشخیصی ٹیسٹ کے نتائج

تشخیصی ٹیسٹ کے بعد کچھ خواتین کو معلوم ہو گا کہ ان کے بچّےکو ڈاؤنز سنڈروم، ایڈورڈز سنڈروم یا پٹاؤز سنڈروم لاحق ہے۔ وہ پھر حمل جاری رکھنے یا حمل ساقط کروانے کا فیصلہ کرسکتی ہیں۔ اگر آپ کو یہ انتخاب کرنے کی ضرورت ہو تو فیصلہ کرنے میں آپ کی مددکے لیے آپ کو بیماری اور نگہداشت صحت کے پیشہ ور افراد کی جانب سے اعانت کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوگی۔ سپورٹ فراہم کرنے والے ادداروں سے بھی معلومات دستیاب ہیں۔

12. اس کتابچہ کے بارے میں

مذکورہ بالا تصویر استعمال کرنے کی اجازت دینے کے لیے ڈاؤنز سنڈروم ایسوسی ایشن کا تہ دل سے شکریہ۔