خبروں کی کہانی

ہماری مساجد اوردینی اداروں کاتحفظ

وزیر برائے سلامتی جیمز بروکنشئیرنے کمیونٹیز کے مل جل کر انتہا پسندی سے نمٹنے کی اہمیت پرمضمون تحریرکیا ہے.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
First person article by Security Minister James Brokenshire on the importance of communities working together to tackle extremism.

ہمارا ملک رہنے کے لئے ایک بہت متنوع جگہ ہے اور مختلف پس ہائے منظر کے حامل افراد کا گھر ہے۔ برمنگھم کے اپنے آخری دورے میں میں نے خود دیکھا کہ مختلف عقائد اورثقافتوں کے افراد نے ہمارے معاشرے کوکتنا کچھ دیا ہے.

اس خزانے اور تنوع کی ہمیں حفاظت کرنا چاہئیے۔ لیکن افسوس کہ وزیر سلامتی کی حیثیت سے میں خوب جانتا ہوں کہ ایسے بھی لوگ ہیں جو اسے چیلنج کرتے ہیں۔ اس سال ہم نے وولچ میں ڈرمرلی رگبی کا قتل ہوتے دیکھا، ایک دادا محمد سلیم کی ہلاکت سے دوچار ہوئے اور والسال، ٹپٹن اورولورہیمپٹن کی مساجد میں بم نصب پائے گئے.

ویسٹ مڈلینڈزحملوں کےبعد ہوم سکریٹری اور میں نے متاثرہ مساجد کے نمائندوں اورمحمد سلیم کے اہلخانہ سے ملاقات کی۔ ان لوگوں کے پر وقار ردعمل سے ہم بہت متاثر ہوئے اورایک بار پھرعزم کیا کہ برطانوی عوام کو ان لوگوں سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے جو ہمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، اوراس ملک میں ہر شخص کے لئے عبادت اور اپنے عقیدے پرعمل کی آزادی کو یقینی بنائیں گے.

عبادت کی آذادی

اس کے بعد محمد سلیم کے قتل اوردہشت گردی کے دوسرے جرائم میں پاولوف لیپشن کوسزاہوئی ہے۔اسے عمر قید کی سزادی گئی ہے اوراسے کم ازکم 40 سال کے بعد ہی پیرول پررہاکرنےکے بارے میں غور کیا جاسکے گا.

اس کے بعد محمد سلیم کے قتل اوردہشت گردی کے دوسرے جرائم میں پاولوف لیپشن کوسزاہوئی ہے۔اسے عمر قید کی سزادی گئی ہے اوراسے کم ازکم 40 سال کے بعد ہی پیرول پررہاکرنےکے بارے میں غور کیا جاسکے گا.

اس ہفتے میں مسلمان اوردوسرے مذہبی رہنماؤں سے حضرت سلطان باہو جامعہ اسلامیہ مسجد میں ملنےکے لئے برمنگھم واپس جانا چاہتا تھا تاکہ انہیں بتاسکوں کہ پولیس اورحکومت تحفظ کی ضمانت فراہم کرنےاور ہر قسم کی انتہا پسندی کی روک تھام کے لئے کیا اقدامات کررہی ہے.

کمیونٹی کا تحفظ

اس سال کے شروع میں وولچ میں ہونے والے خوفناک واقعہ کے بعدملک بھرمیں تمام کمیونٹیز کوامکانی ردعمل کا خطرہ تھا۔ چند علاقوں میں مساجد اوراسلامی مراکز پرہولناک حملے بھی ہوئے.

گزشتہ کام کو اگے بڑھاتے ہوئے ویسٹ لینڈز کی پولیس نے 200 سے زائد مساجد،مدرسوں اور دیگراسلامی مراکز کا دورہ کیا تاکہ کمیونٹی کو ان مثبت اقدامات کا یقین دلا سکییں جو وہ تمام مجرمانہ سرگرمیوں کے خلاف کریں گے،خا ص طور پر ان جرائم کے خلاف جو دہشت گردی یا منافرت پر مبنی ہیں۔ پولیس نے مذہبی مقامات کے حفاظتی اور بنیادی تحفظ کے بارے میں معلومات بھی فراہم کیں. جہاں ضرورت ہوئی وہاں سلامتی کے خصوصی مشیروں ںے تحفظاتی سفارشات بھی فراہم کیں اور کچھ علاقوں میں اضافی گشتی پولیس بھی تعینات کی گئی جس میں مخصوص مقامات پر جیسے مساجد کے ارد گرد وقفے وقفے سےافسران خود گشت کررہے ہونگے.

انتہاپسندی ٹاسک فورس

وولچ کے واقعے کے بعد وزیراعظم نے انتہاپسندی ٹاسک فورس مقرر کی تاکہ انتہاپسندی کے خلاف جو بھی ممکن ہو کیا جاسکے۔ یہ کام اب مکمل ہوچکا یے اور حکومت نے موجودہ ا نداز کار کے مطابق انتہاپسندی کے خلاف عملی اقدامات پر اتفاق کر لیا ہے۔اس میں مختلف شعبوں جیسے جیلوں، اسکولوں، یونی ورسٹیوں اورآن لائن کے باب میں اقدامات شامل ہیں۔ اس میں مسلم مخالف نفرت اورانتہائی دائیں بازو کی انتہاپسندی سے نمٹنے کے لئے اقدامات جیسے کہ انتہائی دائیں بازو کی انتہاپسندانہ سوچ رکھنے والے ان افراد کی شناخت کے بارے میں جو برطانیہ آنے والے ہوں، دوسرے ملکوں کومعلومات دینے کے لئے پولیس کی کارروائی.

اس کے ساتھ حکومت نے ماماکو بتاو[Tell MAMA (Measuring Anti-Muslim Attacks)]کی تشکیل میں مدد دی ہے جو 2012ء میں قائم کی گئی اور ایک ایسا انی شئیٹو ہے جس سے برطانیہ میں مسلم مخالف واقعات کی نگرانی اور گرفت کی جاتی ہےاور متاثرین کو معاون خدمات فراہمکی جاتی ہیں.

متحدہ ردعمل

برمنگھم کے اپنے آخری دورے میں مجھے لوگوں کے متحدہ ردعمل نے بڑا متاثر کیا اور خاص طور پر مذہبی رہنماوں نے کسی بھی ممکنہ کشیدگی کو دور کرنے کے لئے جو کردار ادا کیا۔ اس ہفتےمیرا دورہ اس تاثر کی دوبارا تصدیق کرتا ہے اور میرے اس یقین کی بھی کہ ہم جب ایک دوسرے کی مدد کرتے اور مل جل کر کام کرتے ہیں تو یہ ہماری بہترین کارکردگی ہوتی ہے.

دہشت گرد اورانتہاپسند امن اور باہمی تعاون کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ حکومت اور پولیس تحفظ اور سلامتی کی ضمانت کے لئے سخت محنت کررہی ہے۔سب سے اہمبات یہ کہ برطانیہ بھر کے عوام کی مزاحمت اور عزم ، بشمول ان افراد کے جن سے میں برمنگھم میں اس ہفتے ملا ہوں، یہ یقنی بنائے گا کہ انتہا پسند کبھی کامیاب نہیں ہونگے.

شائع کردہ 12 December 2013