پریس ریلیز

انسانی حقوق و جمہوریت رپورٹ 2012ء - پاکستان

گزشتہ تین ماہ میں پاکستان کو انسانی حقوق سے متعلق متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ سب انتہائی مشکل ہوتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال میں ہوا ہے.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Aleppo, Karm al Jabal. This neighborhood is next to Al Bab and has been under siege for 6 months, 4 March 2013. Credit: Basma

Stock image from the FCO Human Rights Report 2012. Credit Basma

تازہ ترین صورتحال- پاکستان

تازہ ترین صورتحال:31 دسمبر 2013ء

گزشتہ تین ماہ میں پاکستان کو انسانی حقوق سے متعلق متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ سب انتہائی مشکل ہوتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال میں ہوا ہے۔ ستمبر میں پشاور کے گرجا گھر میں بم حملے کے بعد شہری معاشرے کی تنظیموں نے لاہور اور اسلام آباد کے گرجوں کے باہر اکتوبر کے وسط میں ایک انسانی شیلڈ بنائی ۔ انہوں نے پشاور کے بم حملے کے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور پیغام دیا کہ پاکستانیوں کی اکثریت مسیحی کمیونٹی پرجارحانہ حملوں کی مذمت کرتی ہے۔

اکتوبر کے اوائل میں مقامی انسانی حقوق گروپوں نے حکومت کے بڑی سزاؤں پر تعطل کا خیر مقدم کیا اور ملک میں سزائے موت پر مکمل نظر ثانی کا مطالبہ کیا۔ یہ اطلاعات ہیں کہ حکومت نے سزائے موت پرعملدرآمد بحال کئے جانے کے منصوبے کو عالمی لابنگ اورجنگجویوں کی حملوں کی تعداد میں اضافے کی دھمکیوں کے بعد ملتوی کردیا۔ آج کی تاریخ تک پاکستان میں کسی کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اگرچہ عدالتیں بدستورسزائے موت کا پروانہ جاری کررہی ہیں ۔ ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اورپاکستان حکومت سے لابی کررہے ہیں کہ وہ ان سزاؤں پر مزید عملدرآمد نہ کرے۔

مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد ‘جینڈر کنسرن انٹر نیشنل نے’ اپنی اکتوبر رپورٹ میں خواتین ووٹروں کی شرکت کو صحیح سمت میں ایک قدم قراردیا۔ عالمی ترقیاتی تنظیم نے سفارش کی کہ پارٹی بجٹ سے خصوصی رقوم خواتین امیدواروں کے لئے مختص کی جائیں اور جن حلقوں میں خواتین ووٹروں پر پابندی ہو وہاں کے انتخابی نتائج کالعدم قرار دئیے جائیں۔ الیکشن ٹریبونل نے مئی میں انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کی تحقیقات شروع کیں اورنومبر میں 339 کیسوں میں سے صرف 65 کافیصلہ جاری کیا- دسمبرمیں شہری معاشرے اور انسانی حقوق گروپوں نے سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں پر زوردیاکہ وہ بلدیاتی انتخابات کو شیڈول کے مطابق کرانے کو یقینی بنائیں۔

واک فری فاؤنڈیشن نے جو آسٹریلیا میں انسانی حقوق مثلا جدید طرزغلامی، کے لئے کام کرتی ہے، اپنا پہلاگلوبل سلیوری انڈیکس جاری کیا۔ پاکستان اپنی آبادی کے لحاظ سے اس میں تیسرے نمبر پر ہے۔2ء2 ملین افراد کسی نہ کسی صورت میں جدید طرزغلامی کا شکار ہیں جس میں بچوں سے مشقت، جبری مشقت شامل ہے( عالمی محنت کش تنظیم کا اندازہ ہے کہ محنت کش بچوں کی تعداد 12 ملین سے زائد ہے)۔ نومبراور دسمبرمیں 37 جبری مشقت کا شکار بچوں کو صوبہ سندھ میں میر پورخاص کے ایک زمیندار سے آزاد کرایا گیا.

ہمیں پاکستان میں مسلم اورغیر مسلم مذہبی اقلیتوں پر حملوں کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ نومبرمیں وزارت خارجہ برطانیہ کے افسران برطانیہ کی احمدی کمیونٹی کے نمائندوں سے ملے جنہوں نے پاکستان میں اپنی صورتحال پر خدشات کا اظہار کیا۔ اکتوبر میں کراچی میں پاکستان ہندوکونسل نے اطلاع دی کہ ہرماہ20 ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے جبرا مسلمان بنایا جاتا اور ان سے شادی کی جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس کے ردعمل میں ہرماہ تقریبا 50 ہندو خاندان پاکستان سے بھارت منتقل ہورہے ہیں۔

ہزارہ کمیونٹی کو بلوچستان میں مسلسل حملوں کا سامنا ہے۔ نومبر میں کوئلے کے چھ ہزارہ کانکنوں کو کالعدم جیش الاسلام گروپ نے مچھ کے قریب گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا۔ نومبر میں شیعہ مسلمانوں کی ٹارگٹ ہلاکت کے بعداور سارا سال ہیومن رائٹس واچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے شیعہ اوردوسرے گروپوں کو نشانہ بنانے کے ذمے دارافراد کو گرفتار کرنے اورسزائیں دینے کا مطالبہ جاری رکھاہے۔

شیعہ اور سنی مسلم دونوں ہی اس عرصے میں فرقہ وارانہ تشدد کے کئی واقعات کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ نومبر میں محرم کے آغاز پرپانچ شیعہ افراد کو کراچی میں ہلاک کردیا گیا اس کے کئی روز بعد چھ سنیوں کو غالبا اس کے بدلے میں مارڈالاگیا۔ محرم کے جلوس عام طور پر پرامن رہے سوائے راولپنڈی کے جہاں فرقہ وارانہ تصادم میں 11 ہلاکتیں ہوئیں اور ایک مسجد اوردکانیں جلائی گئیں۔ شہر میں کرفیو نافذ کردیا گیا اورمزید ایسے واقعات سے بچنے کے لئے سیکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا۔دسمبر کے اختتام پر کراچی میں چار شیعہ ایک شیعہ عبادتگاہ کے باہر بم دھماکے میں ہلا ک ہوئے اور ایک شیعہ جماعت کے تین اراکین پر فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جو بلدیاتی انتخابات کے امیدوار تھے۔

اکتوبر اور دسمبر میں پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ بلوچ باغیوں سے بات چیت کرے اورمبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جس میں افراد کا لاپتہ ہوجانا، اچانک گرفتار کیا جانا، تشدد اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں، جو کہا جاتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز اورانٹیلی جنس ایجنسیوں نے کی ہیں، کے بارے میں تحقیقات کروائے۔ نومبر میں وزارت خارجہ کے افسران کو برطانیہ میں مقیم بلوچ سرگرم کارکنوں نے صوبے کی صورتحال سے آگاہ کیا ۔ لاپتا بلوچ افراد کے عزیزوں نے نومبر اوردسمبر کے درمیان کوئٹہ سے کراچی تک مارچ کیا۔’ لاپتا بلوچ افراد کی آواز’ کی مہم سے وابستہ افراد نے بتایا کہ 14000 سے زائد بلوچ افراد ‘لاپتا’ ہیں۔

عورتوں پر تشدد کے خاتمے کےعالمی دن پر جو ہرسال 25 نومبر کومنایا جاتا ہے، شہری معاشرے کی تنظیموں نے پاکستانی معاشرے میں عورتوں پر بڑھتے ہوئے مظالم پر تشویش کا اظہار کیا۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق 5151 عورتوں کو2013ء میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 774 کو قتل اور 217 کو عزت کے نام پر ہلاک ، 1569 کو اغوا، 706 کی عصمت دری اور 427 کو خودکشی پر مجبورکیا گیا۔ پارلیمنٹ کو فراہم کی جانے والی ایک رپورٹ میں وزارت قانون،انصاف اورانسانی حقوق نے جنوری 2012ء تا ستمبر 2013ء کے دوران عزت کے نام پر 860 قتل، 481 گھریلو تشدد کے واقعات، 90 تیزاب پھینکے جانے کے واقعات، 344 عصمت دری کے اور 268 جنسی حملے کے واقعات دی گئی۔

دسمبر میں برطانیہ کی ایک رسک انالیسس کمپنی میپل کرافٹ نے اپنی سالانہ انسانی حقوق رسک اٹلس میں پاکستان کو 197مالک میں چوتھے مقام پردکھایا ہے جہاں عوام کے انسانی حقوق کو ‘انتہائی خطرہ’ لاحق ہے۔

تازہ ترین صورتحال:17 اکتوبر 2013ء

گزشتہ تین ماہ پاکستان میں انسانی حقوق کے لئے بدستورمشکلات کا شکار رہے، اس دوران نئی منتخب حکومت کو ملک بھر میں کئی سیکیورٹی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ جولائی میں پاکستان حکومت نےوزارت برائے انسانی حقوق کو وزارت قانون و انصاف کا ایک حصہ بنادیا، اس اقدام کی مقامی شہری معاشرے اور انسانی حقوق گروہوں نے مخالفت کی تھی۔اگست میں ہیومن رائٹس واچ نے نوٹ کیا کہ 2008ء میں جمہوریت کی بحالی کے بعد سے ‘‘متاثر کن پیش رفت’’ ہوئی تھی لیکن اس نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نہ روکا تویہ پیش رفت رک جائے گی۔

اسلامی دنیا میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کے تناظر میں جولائی کے اواخر میں پارا چنار میں 60 شیعہ افراد کو دو موٹر سائیکل سوارخودکش بمباروں نے ہلاک کردیا جو تحریک طالبان سے منسلک گروپ انصار المجاہدین سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ مبینہ طور پر عراق اور شام میں سنی مسلمانوں پر ظلم کا انتقام لے رہے تھے۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نےکراچی میں 2013ء کے پہلے چھ ماہ میں 2012ء کے اسی دورانیے کے مقابلے میں ہلاکتوں میں 42 فیصد اضافے کی رپورٹ دی۔

بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں بدسلوکی اور ماورائے قانون ہلاکتوں کی بدستور اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ جولائی میں پاکستان کے اٹارنی جنرل نے اعتراف کیا کہ 500سے زائد ‘’ لاپتہ’’ افراد سیکیورٹی ایجنسی کی تحویل میں ہیں۔ ہمیں عالمی انسانی حقوق گروپوں سے بھی بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں پر حملوں کی مصدقہ اطلاعات ملی ہیں۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے ستمبر میں خبر دی کہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے، بشمول ان کا اپنا عملہ خواتین کے تحفظ کے دوران نشانہ بنایا اور دھمکایا جاتا ہے۔ ستمبر میں واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی کہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کو ایسی شہادتیں ملی ہیں جن سے تصدیق ہوتی ہے کہ پاکستانی فوجی افسر پاکستانی انسانی حقوق کی مدافعت کرنے والی خاتون عاصمہ جہانگیرکو قتل کرنے کامنصوبہ بنارہے ہیں۔ گزشتہ حکومت کاسزائے موت پر2008ء میں لگایا جانے والا معطلی کا ایڈ ہاک حکم جون میں ختم ہوگیا۔ نئے صدر ممنون حسین نے اگست میں عہدہ سنبھالا،اگرچہ نئی حکومت نے سزائے موت کی بحالی کا عندیہ ظاہر کیا ہے لیکن اس رپورٹ کے مرتب کئے جانے کے وقت تک کسی پر عملدرآمدنہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان میں 8000 سے زائد افراد جیل کی کال کوٹھری میں قید ہیں جو دنیا بھر میں سزائے موت پر عملدرآمدکے منتظر افراد کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ہم پاکستانی حکام پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ وہ سزائے موت کو باقاعدہ بحال نہ کریں اور اقوام متحدہ کے عالمی متواترجائزے میں پاکستان کومعطلی کو باضابطہ بنانے کی تجویزدی گئی۔ ستمبر میں 80 سے زائد مسیحی ہلاک اور 130 سے زائد زخمی ہوئے جب دو خودکش حملہ آوروں نے پشاورمیں آل سینٹس چرچ پرحملہ کردیا۔ قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے اس کی مذمت کی اور پاکستانی معاشرے کے تمام حصوں سے اس کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ وزیر برائے انسانی حقوق اور پاکستان بیرونس سعیدہ وارثی نے حملے کی مذمت میں بیان جاری کیا، تعزیت کا اظہار کیا اوردہشت گردی اورپرتشدد انتہا پسندی کے خلاف پاکستان کی جنگ میں برطانیہ کے مسلسل تعاون کا یقین دلایا۔

جولائی میں سکریٹری خارجہ نے لاہور بادشاہی مسجد میں مذہبی رہنماوں سے ملاقات کی جس میں مذہبی آزادیوں کے مسائل پرگفتگو ہوئی۔ ستمبر میں بیرونس سعیدہ وارثی کی ملاقات وزارت خارجہ میں برطانیہ میں مقیم ہزارہ برادری سے ہوئی اور انہوں نے کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے بارے میں ان کے خدشات سنے۔ اگست میں ایک امام نے رمشا مسیح کیس میں قران پاک کی بے حرمتی کا جھوٹا الزام لگایا،شہادتوں کی عدم موجودگی کی بناء پراس کے خلاف مقدمہ خارج ہوگیا کیونکہ گواہوں نے اپنے بیانات واپس لے لئے تھے۔ جولائی میں سجاد مسیح کو عمر قید کی سزااور جرمانہ ہوااس پرگوجرہ میں اماموں کو گستاخانہ ٹیکسٹ پیغامات بھیجنے کا الزام تھا۔

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 68 ویں اجلاس میں بیرونس سعیدہ وارثی نے بین الاقوامی وزراء کی ایک میٹنگ منعقد کی جس میں پاکستانی وزرا بھی شامل تھے اور اس میں مذہبی منافرت کے مسائل اور مذہب و عقیدے کی آزادی اور اس پر عمل کے لئے ایک سیاسی عزم بیدار کرنے پر گفتگو کی گئی۔

اگست میں اقواممتحدہ کی رپورٹ میں پاکستان کے مئی کے انتکابات میں خواتین ووٹروں اور امیدواروں کی تعداد میں زبردست اضافے کی خبر آئی۔ ہرسطح پر خواتین ووٹروں کی تعداد پہلی بار شمار کی گئی جو کہ بے مثالطور پر تمامووٹوں کا 40 فی صد تھے۔تاہم رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں خواتین کو ان کی برادریوں کے مرد ووٹ ڈالنے سے منع کرتے ہیں۔ اگست میں میانوالی ضلع میں ضمنی انتکابات میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے منع کردیا گیا۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے ستمبر میں’‘خواتین کے خلاف تشدد کے سرایت پزیرمسئلے’‘کا ذکر کیا۔انہوں نے صرف لاہور میں جنوری سے اگست کے دوران پولیس کے رجسٹر کردہ عصمت دری کے 113 اور اجتماعی عصمت دری کے 32 کیسوں کا ذکر کیا۔ کمیشن نے بتایا کہ 2013 کے ابتدائی سات ماہمیں کمازکم 44 عورتوں پر تیزاب پھینکا گیا جن میں سے سات عورتیں ان زخموں کی وجہ سےوفات پاگئیں ۔ 44 عورتوں کو آگ میں جلادیا گیا اور ان میں سے 11 ختم ہوگئیں۔ 2013ء میں جولائی کے اختتام تک 451 عورتیں پاکستان میں عزت کے نام پرہلاککی جاچکی ہیں۔

30جون 2013ء کو مرتب کی گئی

پاکستان کی نئی حکومت نے11 مئی کے انتخابات کے بعد 5 جون کواقتدار سنبھالا۔ یہ انتخابات پاکستان کی جمہوری تاریخ کا ایک اہم سنگ میل تھے۔ یہ پہلی بار ہے کہ اقتدار دو سویلین حکومتوں کے درمیان جمہوری طور سے منتقل ہوا ہے اور ایک حکومت نے اپنی پارلیمانی مدت پوری کی ہے۔ یہ ایک مستحکم، محفوظ اورجمہوری پاکستان کے راستے پر ایک اہم قدم ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں معتبرترین انتخابات میں سے ایک ہیں، جس کا انتخابی رجسٹربہتراورعورتوں کی اورپہلی بار ووٹ ڈالنےوالوں کی بہت بڑی تعدادنے اس میں حصہ لیا۔ووٹروں کے الگ الگ اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ سے یہ تو نہیں بتایا جاسکتا کہ اقلیتوں اوردوسرے خارج گروپوں نے بھرپور اندازمیں حصہ لیایانہیں۔ البتہ دولت مشترکہ آبزرویشن مشن نے اس پر تشویش محسوس کی کہ احمدی برادری سے ووٹ کے حق کے باب میں کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ انتخابات کی ساکھ کے تحفظ کے لئے ہم نے اور دیگرالیکشن آبزروروں نے زوردیا ہے کہ بدعنوانی کے تمام الزامات کی بھرپورتحقیقات کی جائے۔

بدقسمتی سے انتخابی مہم نشانہ وار تشدد کی وجہ سے کمزوررہی اور 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جماعتوں کے درمیان تشدد بھی دیکھنے میں آیا، انتخابات سے پہلےبیشتر تشدد سیاستدانوں اورسیاسی جماعتوں، کارکنوں، انتخابی اہلکاروں اور ووٹروں کے خلاف عسکریت پسندوں نے کیا جس سے چند جماعتوں کی سیاسی ریلییاں اور مہم چلانے کی اہلیت محدود ہوگئی۔ وہ جماعتیں جو سیکولر سمجھی جاتی ہیں، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ خاص طور پر، نشانہ بنیں۔ تاہم 11مئی کو پاکستان کے 50 ملین [5 کرور]ووٹروں نےدہشت گردوں کے تشدد اور دھمکیوں کو مسترد کردیا۔ البتہ پولنگ اسٹیشنوں کی محدود تعداد پر اکا دکا حملے ہوئے۔ اپریل سے جون تک فرقہ وارانہ حملوں کی خبریں جاری رہیں۔ایک شیعہ وکیل اور ان کے دو بیٹوں کو مئی میں کراچی میں ہلاک کردیا گیااور ایک شیعہ ڈاکٹر کو جون میں شدید زخمی کردیا گیا۔جون میں ہی پشاور میں ایک شیعہ ڈاکٹر کو قتل کردیا گیا۔ پولیس تحقیقات کررہی ہے لیکن اب تککوئی گرفتاریاں عمل میں نہیں آئیں۔ ہفت وار جریدے ‘دی لاہور’ کا دفترجو ایک احمدی خاندان کی ملکیت ہے گزشتہ دو ماہ سے محاصرے میں ہے۔

اس دوران ملک کے اندر بے گھر کی تعداد بڑھ گئی ہے، فاٹا سے پڑوسی صوبوں میں نقل مکانی کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے جبکہ پہلے سے بے گھرافراد،غیرریاستی مسلح افرادکے خلاف سیکیورٹی آپریشن کے جاری رہنے کی وجہ سے اپنے علاقے میں واپس نہیں آسکے ہیں۔ دس لاکھ سے زائدلوگ عدم استحکام کی وجہ سےجو 2008ء سے جاری ہے اب خیبر پختونخواہ اور فاٹامیں بے گھرہوچکے ہیں اور انہیں فلاحی امداد کی ضرورت ہے۔[اوسی ایچ اے پاکستان فاٹا بے گھروں کی صورتحال رپورٹ 6جون 2013ء] پولیو ٹیکہ ٹیمیں اب بھی نشانہ بن رہی ہیں، صوابی میں [جون] اور پشاورمیں[مئی]چار پولیو ورکرعلیحدہ علیحدہ واقعات میں مارے گئے۔ آذادئی اظہار کے نقطہ نظر سے انتخابات سے قبل بے مثال میڈیا سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں جبکہ اس سے پہلے کے چندماہ میں کچھ کمی ہو گئی تھی۔ نیو یارک ٹائمز بیوروچیف انتخابات سے ذراپہلےملک سے نکال دئیے گئے تھے۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے پاس انتخابی مہم کے دوران صحافیوں کودھمکیاں ملنے کی مصدقہ اطلاعات آئی تھیں۔ ایک صحافی اپریل میں ہلاک ہوا۔ کوئٹہ میں ایک کالعدم تنظیم کی پریس ریلیزشائع کرنے کے بارے میں سات اخباروں کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں۔

خواتین کے حقوق کے سلسلے میں دیکھا جائے تو پاکستان اپریل میں نیویارک میں خواتین کی حیثیت کے کمیشن[CSW] کی سفارشات کی حمایت کرتا ہے اور اس نے اس ایجنڈا کو فروغ دینے کے لئے حکومت کے اعلی افسران سے ملاقات کی جو پاکستانی خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والوں نے کمیشن [57CSW] کے لئے منظور کیا تھا۔ بدقسمتی سے جون میں 14 طالبات کو ایک خودکش بمبار نےکوئٹہ میں یونیورسٹی بس پرحملہ کرکے ہلاک کردیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حملہ لڑکیوں کی تعلیم پرکیا گیا ہے۔ زخمیوں کو جس اسپتال میں لے جایا گیا تھا بعد میں اس پرایک فرقہ وارانہ گروپ نے حملہ کیا۔

مزید معلومات

پڑھئیے اور تبصرہ کیجئیے مخدوش ممالک-پاکستان

مکمل رپورٹ انگریزی میں پڑھئیے اورتبصرہ کیجئیے انسانی حقوق و جمہوریت رپورٹ 2012ء

شائع کردہ 19 July 2013
آخری اپ ڈیٹ کردہ 20 January 2014 + show all updates
  1. Latest Update of the Human Rights and Democracy Report 2012

  2. Updated:17October 2013

  3. First published.