پریس ریلیز

انسانی حقوق و جمہوریت رپورٹ 2012ء - افغانستان

گزشتہ تین ماہ میں کئی مثبت اورمنفی دونوں قسم کی نمایاں تبدیلیاں آئیں.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Aleppo, Karm al Jabal. This neighborhood is next to Al Bab and has been under siege for 6 months, 4 March 2013. Credit: Basma

Stock image from the FCO Human Rights Report 2012. Credit: Basma

تازہ ترین صورتحال- افغانستان

تازہ ترین صورتحال: 17اکتوبر 2013ء

گزشتہ تین ماہ میں افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال ملی جلی رہی ہے۔ خودمختار الیکشن کمیشن کی تیاریاں اور انتخابی ضوابط کی منظوری نے اگلے سال اپریل میں تمام افغانوں کے لئے ووٹ دینے کے مواقع کو مستحکم کردیا ہے۔ لیکن انتخابی عمل سے قطع نظرانسانی حقوق کا دفاع کرنے والےخواہ وہ خواتین کارکن ہوں یا میڈیا کے کارکن، بدستوربدسلوکی کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنربرائے نوی پلائی نے ستمبر کے وسط میں افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ وہ دوسروں کے علاوہ صدر، سینئیر وزرا،شہری معاشرے کے سرگرم کارکنوں اورخودمختارافغان انسانی حقوق کمیشن کے صدر سے ملیں ۔اپنی الوداعی پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ وہ ملے جلے جذبات کے ساتھ رخصت ہورہی ہیں۔ انہوں نے حالیہ سالوں میں انسانی حقوق کے تحفظ میں نمایاں پیش رفت کو تسلیم کیا لیکن انہیں خوف تھا کہ تحریک کمزور پڑ رہی ہے۔ پلائی نے کہا کہ افغانستان کو اس افراتفری کے لئے تیار رہنا ہوگا جو 2014ء کے اختتام پر تبدیلی کے وقت پیدا ہوگی۔ افغان حکومت اورعالمی برادری کے سینئیر افسران نےجن میں برطانوی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کے مستقل سکریٹری اور برطانیہ کے افغانستان میں سفیر شامل تھے، 3 جولائی کو کابل میں ایک میٹنگ میں شرکت کی تاکہ جولائی 2012ء میں ٹوکیو ترقیاتی کانفرنس میں متعین کردہ اصلاحات اور امدادی معاہدوں کی پیش رفت پر تبادلہ خیال کرسکیں۔ چالیس ممالک اورآٹھ عالمی تنظیموں نے افغان کابینہ، پارلیمان اور شہری معاشرے کے نمائندوں کے ساتھ اس میں حصہ لیا۔اس میٹنگ سے انتخابی ضوابط، بدعنوانی اور معاشی ترقی اور انسانی حقوق بشمول خواتین کے حقوق سمیت ترجیحی امور پر گفتگو کا موقع ملا۔عالمی برادری نے واضح کیا کہ امدادی معاہدےاس وقت تک خطرے سے دوچار رہیں گے جب تک افغان حکومت ان معاملات اور دیگر امور پر پیش رفت کا سلسلہ جاری نہیں رکھتی۔ برطانیہ نے 13 جولائی کو منظور کئے گئےخودمختار انتخابی کمیشن(آئی ای سی) کی ساخت اور فرائض کے قوانین اور 15 جولائی کے منظور شدہ انتخابی قانون کا خیر مقدم کیا ۔ یہ پہلی بار ہے کہ افغانستان میں صدارتی فرمان کی بجائےپارلیمانی بحث اور ووٹ کے ذریعے انتخابات کے انتظام کے لئے قانونی بنیادمتعین کی ہے۔ انتخابی قانون پر مذاکرات کے دوران صوبائی کونسلوں میں خواتین کا کوٹاگھٹا کے 25 سے 20 فی صد کردیا گیا ۔ قانون کے دو ضابطوں کی منظوری کے بعد سلیکشن کمیٹیوں نے آئی ای سی اور خودمختار انتخابی شکایات کمیشن کے کمشنروں کے امیدواروں کی پہلی فہرست فراہم کی۔ صدر نے اس فہرست میں سے کمشنر مقرر کر دئیے۔ اگست میں برطانیہ نے 5۔4 ملئین پاونڈ کا ایک پروگرام جاری کیا جس سے انتخابی عمل میں خواتین کی بحیثیت امیدوار اور ووٹ، بھرپور شرکت میں مدد دی جاسکے۔ ہلمند میں برطانیہ نے ایک نئے پروگرام کے لئے فنڈزدئیے ہیں جس سے 2014ء کےصدارتی اور پارلیمانی انتخابات سے پہلےخواتین کی سیاسی شرکت کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ‘‘اقوام متحدہ معاون مشن برائے افغانستان: مسلح تنازع میں شہریوں کاتحفظ ‘’ 31جولائی کووسط سالہ رپورٹ برائے 2013ء شائع کی گئی تھی۔ اس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ 2013ء کے پہلے چھ ماہ میں ہلاک اورزخمی ہونے والےافغان شہریوں کی تعدادگزشتہ برس کے اسی دورانیے کے مقابلے میں 23 فی صد بڑھ گئی۔ رپورٹ میں یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ اس اضافے کی بنیادی وجہ حکومت مخالف عناصر کا دھماکا خیز موادکا بڑھتا ہوا استعمال اور افغان سیکیورٹی فورسز اور حکومت مخالف عناصر کے درمیان محاذآرائی کی وجہ سے شہریوں کی ہلاکت میں اضافہ ہے۔آئیساف نے شہریوں کی ہلاکت میں کمی کے لئے اور ان واقعات کی خصوصی تحقیقات کے لئےخاصی کوششیں کی ہیں۔ کمیٹی برائے خواتین کے خلاف امتیاز کے خاتمے نے افغانستان میں پہلی بار خواتین کے خلاف تمام اقسام کے امتیازات کے کنونشن [سی ای ڈی اے ڈبلیو] پر عملدرآمد کی رپورٹ 23 جولائی کو شائع کی۔ کمیٹی نے رپورٹ کے اختتامی مشاہدات میں تسلیم کیا کہ 2001ء میں طالبان کے زوال کے بعد سے خاصی پیش رفت ہوئی ہے لیکن ان خطرات کے بارے میں خدشات ظاہر کئے ہیں جو اگلے سال عالمی لڑاکا فوج کے افغانستان سے رخصت ہونے کے بعد خواتین کے حقوق کودرپیش ہو نگے۔ کمیٹی نے اس ضمن میں کئی سفارشات پیش کی ہیں جن میں خواتین پر تشدد،اخلاقی جرائم اور امن عمل اور تعلیم میں خواتین کی شرکت شامل ہیں۔ ہلمندمیں افغان قیادت میں کمیونٹی میں قائم تنازعات کے حل پر کانفرنس 24تا 26 اگست کومنعقد ہوئی۔ اس کامقصد روایتی اور قانونی انصاف کے شعبے کے درمیان فاصلے کوکم کرنا تھا۔ کانفرنس میں افغان آئین میں انسانی حقوق بشمول خواتین اور بچوں کے حقوق کےقانونی فریم ورک اور ان کی قرانی تعلیمات سے مطابقت پر توجہ دی گئی۔200 شرکا میں سے 10 فی صد ضلعی کمیونٹی کونسلوں کی خواتین تھیں۔ مشترکہ سکریٹریٹ اور اعلی امن کونسل نے 20 تا 27 ستمبر امن اور قومی وحدت کا ہفتہ منایاجو اس کے چئیرمین برہان الدین ربانی کے قتل کی دوسری برسی کاموقع تھا۔ یہ امن پر اسس سال کی سب سے بڑی تقریب تھی اور اس میں تمام صوبوں سے افغانوں کی اس معاملے میں شرکت کی کوشش کی گئی کہ ان کے لئے مصالحت کامطلب کیا ہے۔ اس میں جلال آباد میں خواتین کی شوری ہوئی۔ مرکزی مقررین میں اعلی امن کونسل کی رکن اورانسانی حقوق کمشنر حوا عالم نورستانی شامل تھیں اورمقررین نے خواتین گروپوں، شہری معاشرے اورصوبائی امن کونسلوں کی سرگرم کارکنوں نے پینل مباحثوں میں حصہ لیا۔ جس کا موضوع مقامی امورپر ایک پر امن انداز کار میں خواتین کا موثر کردار تھا۔ جون میں وزیر مملکت برائے دفاع نے اعلان کیا کہ برطانیہ کے گرفتار کئے گئے افغان قیدیوں کی پروان میں افغان قومی نظر بندی مرکزمین افغان حکام کو منتقلی بحال کردی جائے گی۔ قانونی کارروائیوں کے بعد جو پہلے معطل تھیں یہ منتقلی اسی ماہ شروع کردی گئی

30جون 2013ء کو مرتب کی گئی

گزشتہ تین ماہ میں کئی مثبت اورمنفی دونوں قسم کی نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ جون میں صدر حامد کرزائی نے آخری اضلاع میں سیکیورٹی کی قیادت کی افغان فورسز کو منتقلی کا سرکاری اعلان کیا۔ ہم افغان فورسز کے ساتھ قریبی طور سے کام اور ان کی تربیت جاری رکھیں گے تاکہ ان کے ہرممکن موثر طریقے سے اورانسانی حقوق کو ملحوظ رکھتے ہوئےکام کرنے کو یقینی بنایا جاسکے۔ افغان پارلیمنٹ میں خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے قانون (EVAW)پرنظر ثانی کے لئے بحث ہوئی۔ اس سے افغانستان میں عورتوں کی حیثیت کے بارے میں وسیع تر بحث کا دروازہ کھل گیا۔ ادھرانتخابات کی تیاریاں جاری ہیں اورافغان حکام یہ یقینی بنانے کے لئے کوششیں کررہے ہیں کہ ووٹروں کی زیادہ سے زیادہ تعداد خاص طور پر خواتین اور اقلیتیں آزادی سے شرکت کر سکیں۔ صدر حامد کرزائی نے افغان خود مختار انسانی حقوق کمیشن کے نئے کمشنروں کا تقرر کرکے ایک طویل تعطل کوختم کردیا لیکن شہری معاشرے کے نمائندےمشاورت کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔

وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے جون میں افغانستان کا دورہ کیااورصدرحامد کرزائی اور امن مکالمے کےدیگرفریقین پراس زبردست اہمیت کو واضح کیا جوبرطانیہ اگلے سال انتخابات کے معتبر اور پر امن ہونے کو دیتا ہےجس میں ملک بھر میں افغان آزادی سے حصہ لے سکیں۔ سکریٹری دفاع نے بھی اپنے جون کے دورے میں صدر حامد کرزائی پرانتخابی عمل کی اہمیت کے لئے زور دیا۔ افغان پارلیمنٹ نے18 مئی کو (EVAW)کی ممکنہ نظر ثانی پر بحث کی۔ بحث کا خاتمہ اطمینان بخش رہا، چند اراکین پارلیمنٹ نے قانون کے پہلوؤں پر اعتراضات کئے کیونکہ ان کے نزدیک وہ اسلامی اقداراوراصولوں کے خلاف ہیں۔ایسا نہیں لگتا کہ پارلیمنٹ میں جلد اس قانون پر نظر ثانی کے بارے میں مزیدبحث ہو۔ موجودہ EVAW قانون 2009ء میں صدارتی ڈگری کے ذریعے منظور کیا گیا تھا۔ ہم عورتوں پر تشدد کرنے والوں کو سزاکے بہتر طریقے کے لئے مزید مہارت بھی، خاص طور پر صوبائی سطح پر، دیکھنا چاہیں گے۔

صدر حامد کرزائی نے 14 جون کو ایک نئے افغان خودمختار انسانی حقوق کمیشن (AIHRC) کا تقررکیا۔اس کے پانچ میں سے چار اراکین نئے ہیں اور دیگر چارجن میں چئیرمین ڈاکٹر سیما ثمرشامل ہیں، موجوہ کمشنر تھے جن کی مدت میں توسیع کردی گئی۔ یہ تقرریاں (AIHRC) اور صدر کرزائی کے درمیان کمیشن کی رکنیت پرایک طویل تعطل کے خاتمے کا باعث بنیں۔ ہم آئندہ ہفتوں میں (AIHRC) کے ساتھ قریبی تعاون سے کام کرتے رہیں گے۔ تقرری کے بعد سیما ثمر نے تشویش ظاہر کی کہ نئی تقرریوں میں سے چندمیں کام کرنے کی موثراہلیت شاید نہ ہو۔ ہمیں امید ہے کہ AIHRC نیشنل ہیومن رائٹس ایسوسی ایشنز کی عالمی رابطہ کمیٹی میں اپنی ‘اے’ سند برقراررکھنے کے لئے قدم اٹھائے گا۔

جون میں AIHRC نے عزت کے نام پر قتل کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں عورتوں کے خلاف سنگین تشدد کی سطح کافی تشویشناک نظر آتی ہے۔ یہ رپورٹAIHRC کی قومی تحقیق پر مبنی ہے۔ اس میں معلوم ہوا کہ کئی جرائم چھپے رہ جاتے ہیں یا ان کی رپورٹ نہیں کی جاتی، جس کی ایک وجہ عورتوں کے معاملے میں قدامت پرستانہ رویہ بھی ہے۔

سکریٹری دفاع نے 6 جون کو اعلان کیا کہ وہ برطانیہ کے گرفتار کئے گئے افراد کوپروان میں افغان نیشنل ڈیفنس فیسیلٹی میں افغان حکام کے حوالے کرنے کا سلسلہ بحال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس فیسیلٹی کی مانیٹرنگ امریکا کرتا ہے اور یہ خاص طورپرنظر بندی کے مقصد کےلئے بنائی گئی ہےاوراسے افغان نیشنل آرمی چلاتی ہے۔ اپریل 2012ء میں سکریٹری دفاع نے فیصلہ کیا تھا کہ حوالگی کو عارضی طور پر روک دیا جائے کیونکہ افغان فیسیلٹی میں سنگین بدسلوکی یا اذیت دہی کے مصدقہ الزامات عائد کئے گئے تھے۔اس تاریخ کے بعد سے افغان حکومت کے ساتھ کام کرناہماری ترجیح رہی ہے تاکہ برطانیہ میں گرفتار کئے گئے افراد کو افغان عدالتی نظام کے حوالے کرنے کے لئے محفوظ راستہ دریافت کیا جائے۔ یہ فیصلہ اس وقت برطانیہ کی عدالتوں میں قانونی طور پر چیلنج کیا جارہا ہے۔

اپریل میں برطانیہ نے 2014ء کے صدارتی اور صوبائی انتخابات اور 2015ءکے پارلیمانی انتخابات سے پہلےاوراس کے دوران خواتین کی سیاسی شرکت کو مستحکم کرنے کے لئے 5ء4 ملین پاؤنڈدینےپر اتفاق کیا تھا۔ خواتین امیدواروں کو تعاون فراہم کیا جائے گا جس میں ورک شاپس اوربراہ راست تربیت شامل ہے تاکہ وہ ووٹروں تک پہنچ سکیں اوران انتخابات میں اپنے امکانات بہتر بناسکیں۔

اپریل میں افغان خودمختار انتخابی کمیشن نے عورتوں کی سیاسی شرکت کی حوصلہ افزائی کے لئے آؤٹ ریچ سرگرمیوں کا پہلامرحلہ شروع کیا۔ کمیشن کی ملک بھر میں ووٹر رجسٹریشن میں بھی جو مئی میں شروع ہوئی تھی،ایسے اقدامات شامل ہیں جو خواتین اوراقلیتوں کی زیادہ شرکت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

ہمیں 20 مئی کو دوافرادکے سزائے موت دئیے جانے پر تشویش ہوئی جن کو ایک بچے کے اغوا اور قتل کے الزام میں سزا دی گئی تھی۔ ہم نے افغان حکومت پر واضح کردیا کہ برطانیہ کسی بھی حالت میں سزائے موت کا مخالف ہے۔ ایک اور کیس میں ایک شخص کو دوسالہ لڑکی کی عصمت دری اورقتل کے جرم میں افغانستان کے مغربی صوبے ہرات کی پرائمری عدالت نے سزائے موت سنائی

مزید معلومات

پڑھئیے اور تبصرہ کیجئیے مخدوش ممالک - افغانستان

مکمل رپورٹ انگریزی میں پڑھئیے اورتبصرہ کیجئیے انسانی حقوق و جمہوریت رپورٹ 2012ء

شائع کردہ 19 July 2013
آخری اپ ڈیٹ کردہ 17 October 2013 + show all updates
  1. Updated 17 October

  2. Added translation