دنیا کی خبروں کی کہانی

پاکستان میں 10 لاکھ خواتین کے لئے نئی برطانوی امداد

برطانوی حکومت کی جانب سے یہ نئی امداد مقامی آبادیوں میں خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں تربیت اور اپنے مسائل حل کرنے کے طریقوں کے بارے میں مشورے فراہم کرنے کے لئے ہے.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Women meeting with Greening

اس امداد سے پاکستان بھرمیں ایک ملین یعنی 10 لاکھ عورتوں کو تشدد سے محفوظ رہنے اور سیاست،معیشت اور فیصلہ سازی میں شرکت کا موقع مل سکے گا۔ اس کا اعلان ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ڈیفڈ کی وزیر جسٹین گریننگ نے پاکستان کے دورے میں کیا۔

جسٹین گریننگ نےیقین دلایاکہ برطانیہ پاکستان میں خواتین کے اختیارات، تشدد کے خاتمے اورپاکستان کی نصف آبادی کی معاشی امکانی قوت کے کام میں لائے جانے کے لئے برطانیہ ہرممکن کوشش کرے گا۔ یہ یقین دہانی انہوں نے پنجاب اسمبلی کی خواتین اراکین سے ایک ملاقات میں کروائی۔ان میں پنجاب کی وزیر برائے خواتین وترقی حمیدہ وحیدالدین،وزیر برائےبہبود آبادی ذکیہ شاہنواز اوروزیربرائے ویمنزڈیولپمنٹ ارم بخاری شامل تھیں۔

اس ملاقات میں انہیں بتایا گیا کہ پنجاب حکومت اپنے پنجاب ویمن ایمپاورمنٹ پیکج کے ذریعے عورتوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے کیا اقدامات کررہی ہے،اوربرطانیہ کس طرح ان پرعزم اہداف میں تعاون کرسکتا ہے۔

وزیر برائے ادارہ بین الاقوامی ترقی جسٹین گریننگ نے کہا:

پاکستان میں بدترین ‘صنفی امتیاز’ پایا جاتا ہے اور یہ خواتین کے لئے دنیا کا تیسراسب سے بڑا خطرناک ملک ہے۔ یہ جہاں غلط ہے وہیں کھویا ہوا ایک موقع ہے۔ پاکستان اپنی نصف آبادی کی صلاحیت اور پیداواری قوت سے فائدہ نہیں اٹھا رہا اورترقی اورامکانات کو روکے ہوئے ہے۔ حکومت پنجاب اس کو تسلیم کرتی ہے اور اس نے خواتین اورلڑکیوں کے تحفظ اور اختیارات کے لئے عمدہ پیش رفت کی ہے،مثلا جائے ملازمت پرجنسی ہراسانی سے بچاؤکے لئے قوانین متعارف کروانا،سرکاری کمیٹیوں میں ایک تہائی خواتین کی تعداد کو لازمی قرار دینا اوروراثت اور زمینی ملکیت کے حقوق میں بہتری لانا۔

پنجاب حکومت کی مزید پیش قدمی کے پرعزم منصوبوں میں برطانوی حکومت نے تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ میں یہ تصدیق کرسکتی ہوں کہ آنے والے برسوں میں پاکستان بھر میں 10 لاکھ تک خواتین برطانوی تعاون سے فائدہ اٹھا سکیں گی۔ اس سے نہ صرف وہ تشدد سے بچاؤاور سیاست اور معیشت میں اپنی شرکت میں اضافہ کرسکیں گی بلکہ پاکستان کو اس کی نصف آبادی کی صلاحیتوں، ہنراورپیداواریت سے استفادے کا موقع مل سکے گا۔

عالمی اقتصادی فورم کی ‘صنفی امتیاز’ کی 135 ممالک کی رپورٹ میں پاکستان کا نمبر 134 واں ہے، جس میں معاشی مواقع کی کمی، تعلیم اور صحت تک رسائی اورسیاست اورفیصلہ سازی میں نمائندگی کی کمی شامل ہیں۔ پاکستان صنفی مساوات کے ملینئیم ترقیاتی اہداف کو پورا نہیں کر پائے گا۔

یہ نئی امداد مقامی آبادیوں میں خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں تربیت اور اپنے مسائل حل کرنے کے طریقوں کے بارے میں مشورے فراہم کرنے اوراس کے ساتھ ضلعی اور مقامی اور صوبائی حکومتوں کو موجودہ قوانین پرعملدرآمد میں مددکے لئے ہے۔ یہ امداد مقامی پاکستانی تنظیموں کے ذریعے پنجاب اورخیبرپختونخواہ کے اضلاع میں استعمال ہوگی۔

برطانیہ پہلے ہی پاکستان کے نیشنل انکم سپورٹ پروگرام (BISP) سے تعاون کررہا ہے جس سے غریب ترین گھرانوں کی خواتین کو 1200 روپئے کا ماہانہ وظیفہ ) تقریبا 8 پاونڈ( دیا جاتا ہے تاکہ لازمی ضروریات ءیعنی کھانے پینے کی اشیا اور دوائیں خرید سکیں۔ماوں کو ہر بچے کے لئےاضافی 200 روپئے ) تین بچوں تک( دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ بچوں کو پرائمری اسکول بھجوا سکیں ۔ پنجاب میں اس کا مطلب ہے131812 عورتیں برطانیہ کی بدولت یہ رقم ہرماہ حاصل کرسکیں گی۔ یہ رقم 2015ء تک خاندانوں کی دگنی تعدادیعنی 275000 کو ملنے لگے گی۔

برطانیہ کے لئے دوسری ترجیحات میں پاکستان کے ساتھ ملکر کام کرنا تاکہ 40 لاکھ بچوں کی اسکول میں تعلیم جن میں نصف لڑکیاں ہونگی،کئی ہزارماؤں کی زچگی کے دوران اموات سے بچاؤکے لئے دائیوں کی تربیت اور 10 لاکھ بچوں کی پیدائش کے لئے نرسوں اور ڈاکٹروں کی موجودگی اور 5 لاکھ جوڑوں کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد کہ وہ کب اور کتنے بچے چاہتے ہیں۔

پاکستان اب برطانیہ سے سب سے زیادہ ترقیاتی سرمایہ کاری حاصل کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔

اس سرمایہ کاری کا انحصاررقم کے بدلے کارکردگی اور نتائج پرہے۔

شائع کردہ 11 July 2013