دنیا کی خبروں کی کہانی

ممتازبرطانوی مسلمانوں کے وفد کادورہ بھارت

ممتاز برطانوی مسلمانوں کاایک وفد سورت، بڑودہ،نئی دہلی،دیو بند اورعلی گڑھ کا 9 سے 15 دسمبر تک دورہ کررہا ہے.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا

یہ وفد سماجی، تعلیمی اورسیاسی شعبے سے متعلق اہم نمائندوں سے ملاقات کرے گا تاکہ بھارت میں مسلمانوں کے خدشات کو سمجھ سکے۔ اسی کے ساتھ اس دورے سے برطانیہ میں اسلام کی صحیح تصویر کشی بھی ہوسکے گی۔ برطانیہ اور بھارت کے مسلمانوں، بین العقائد ، انضمام اورکمیونٹی کے مسائل پر کام کرنے والوں کے درمیان فکری تبادلےہو سکیں گے.

سورت(گجرات) اوروادودرہ یا بڑودہ میں وفد طلبہ، نوجوانوں اور مختلف تعلیمی اداروں میں مسلم کمیونٹی کے اراکین سے ملاقاتیں اور تبادلہ خیال کرے گا۔ نئی دہلی میں وفد قومی کمیشن برائے خواتین اور نیشنل فاونڈیشن برائے کمیونل ہارمنی کے نمائندوں سے ملے گا اور دارالعلوم دیو بند کا دورہ کرے گا اورعلی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں طلبہ اور نوجوانوں سے ملاقات اور تبادلہ خیال کرے گا.

بھارت روانہ ہونے سے پہلے وفد کے ایک رکن یوسف ابراہیم اکوڈی نے کہا:

میرے لئے بھارت جیسے قوت محرکہ کے حامل ایسے ملک کا دورہ کرنا اعزاز اورخوشی کا باعث ہے۔ میرا ارادہ بھارت میں مسلمانوں کی زندگی اورعزائم کا باریکی سے مشاہدہ کرنےکا ہے۔ مجھے امید ہےکہ یہ دورہ برطانوی- ہندی تہذیب کے درمیان باہمی افہام وتفہیم میں مدد دے گا اور ہمیں ایک دوسرے کی مثبت انداز میں قدر کرنے کا اہل بنائے گا.

مزید معلومات

  • یوسف ابراہیم اکودی ان مسلمان اماموں کی پہلی نسل سے ہیں جو برطانیہ میں پیدا ہوئے اور یہیں تعلیم حاصل کی انہوں نے 1997ء میں گریجویشن کی اور جب ہی سے وہ مقامی اورقومی سطح پر مختلف منصوبوں اور انیشئیٹو میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ یوسف شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بچے ہیں۔

گزشتہ دس برس سے یوسف اسلامی ٹریبونل (شریعہ کونسل)میں مفتی اور بورڈ کے رکن کی حیثیت سے مشورہ فراہم کرتےرہے ہیں اور پینل کے ساتھ اسلامی قوانین پر تبادلہ خیال کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے مقامی مدرسے میں پڑھایا، نصاب، ضابطوں کی تشکیل اور بچوں کی بہبود اور ہیلتھ اور سیفٹی کا انتظام بھی کیا ہے۔ اس کے ساتھ اکثر رپورٹس کی تیاری،والدین کے گروپوں اور کمیٹیوں سے رابطہ اور دوسرے مدرسوں کا معائنہ بھی کرتے رہے ہیں۔

گزشتہ چار سال سے وہ امام کی حیثیت سے کام کررہے ہیں اور ایک کثیرالعقائد چیپلینسی ٹیم میں شامل رہ کے جیلوں میں قید افراد کی ضروریات اور ان کی بحالی میں مدد دینے کے علاوہ انتہا پسندانہ رویے سے نمٹنے کے لئے ٹیم سے تعاون کرتے رہے ہیں۔ انتہاپسندعناصرسے قیدیوں کو درپیش اہم خطرات کی نشاندہی اور کثیرالثقافتی نظریات اور جیلوں کے نظام اوران قیدیوں کی نشاندہی جو سیکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں، بھی کرتے ہیں۔ نمازوں کی امامت، خطبے اوراسلام پر بنیادی کورس،قران اورعربی کی تعلیم ان کے فرائض میں شامل ہے،اس کے علاوہ وہ گورنروں اورافسروں کو اسلامی امور میں مشورے اور رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں۔

یوسف نے اسلام پرکئی مضامین بھی لکھے ہیں اوراسلام اور مسلمانوں پرسیمیناروں اور کانفرنسوں میں باقاعدگی سے خطاب کرتے ہیں۔ وہ یارکشائراور ہمبر فیتھس فورم کےگزشتہ پانچ سال سے بورڈ رکن ہیں اور عقائد کمیونٹیز سے سرگرم رابطے میں ہیں،کئی سال سےمختلف رضاکار تنظیموں کی معاونت کرتے ہیں۔

انہوں نے عربی زبان، قران کی تفسیر،سماجیات، اسلامی معیشت،قانون اور اسلامی اخلاقیات کی تعلیم حاصل کی ہے وہ تین جنوبی ایشیائی زبانوں، گجراتی، ہندی اوراردو میں روانی سے گفتگو کرتے ہیں اور پنجابی میں بھی بات چیت کرلیتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ عربی،انگریزی اوراردو میں لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالبشید شیخ لیڈز یونیورسٹی میں مذاہب کے تقابل اور اسلامی اسٹڈیز کے لیکچرر ہیں۔ وہ ان دنوں انڈر گریجویٹس کو عرب اوراسلامی تہذیب میں معلوماتی ماڈیول پڑھارہے ہیں۔ وہ یونیورسٹی کے لائف لانگ لرننگ سینٹر میں قران و حدیث،اسلامی قانون، ابراہیمی مذاہب کےاسلامی اسٹڈیز ماڈیول کی تعلیم میں سرگرمی سے شامل ہیں وہ باٹلی میں 1978ء میں پیدا ہوئے جہاں بھارتی مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے۔ ان کے والدین کا تعلق بھارت کی ریاست گجرات سے ہے۔

ڈاکٹر شیخ نے اپنی بی اے کی ڈگری عربی اور اسلامک اسٹڈیز میں لیڈزیونیورسٹی سے 2011ء میں حاصل کی۔ وہ عربی میں کامل تعلیم کے لئے 1998ء اور 1999ء کے درمیان یمن اور مراکش گئے۔ باہر رہنے اور تعلیم حاصل کرنے سے انہیں مشرق وسطی اورشمالی افریقہ کے بیش قدرورثے، ثقافت اور تانے بانے کے بارےمیں جاننے کاموقع ملا۔اس ایک سال میں انہیں اسلامی دینی فکرکے باب میں ممتاز اسلامی مفکرین سےثنا، یمن اورمراکش کے شہر فیض کی قراوین یونی ورسٹی سے بیش بہامطالعے کا موقع حاصل ہوا۔

گریجویشن کے بعدوہ قرانی تعلیمات میں ماسٹرز کرنے گئے جس میں انہوں نے ‘قران میں تخلیق کا تصور’ کو موضوع بنایا۔2011ء میں عبدالبشید نےلیڈز یونی ورسٹی سے مذاہب کے تقابل بالخصوص ابراہیمی ادیان پرپی ایچ ڈی کی۔

عبدالبشید کرکلیزمیں شمالی کرکلیز انٹر فیتھ کونسل اور کرکلیزفیتھ فورمزاورلیڈز یونی ورسٹی کی جانب سےبین العقائد امور پرتندہی سے کام کررہےہیں۔ وہ ویسٹ یارکشئیر میں دونوں عقائد کودرپیش مسائل پر بات چیت کے لئے اماموں اور پادریوں سے باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔حال میں انہوں نے باٹلی الحکمہ سینٹر میں انڈین مسلم ویلفئیر سوسائٹی کے یہودیوں،مسیحیوں اور مسلمانوں کے کےایک اجتماع میں تقریر کی جس کاموضوع ‘ یہود- مسیحی اور مسلم روایتوں میں مکالمہ، رواداری اور باہمی افہام و تفہیم ‘ تھا۔ ڈاکٹر محمد مقدم لیسٹر میں مدنی ہائی اسکول کے پرنسپل ہیں۔ وہ تعلیمی میدان میں 30 سالہ تجربے کی بناپرایک متاثر کن رہنماہیں۔ 13 سال سے وہ برطانوی سرکاری اور نجی اسکولوں کے کامیاب پرنسپل ہیں۔ان اسکولوں کی کئی ممتاز افراد نےجن میں سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیر شامل ہیں بہت تعریف کی ہے۔

کئی سال سے وہ ایسا وژن اورقیادت فراہم کرتے آئے ہیں جس سے طلبہ کو اعلی کامیابیوں کی تحریک ملی ہے۔ موثر انتظامی وسائل اوراسٹاف کی مدد سے وہ تعلیمی خدمات کو بہتر بنانے کااعلی ریکارڈ رکھتے ہیں اوراساتذہ اورطلبہ کو اپنی تمام تر صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کے لئے ہر ممکن مواقع فراہم کرتے ہیں۔

وہ ایک پرعزم شخص ہیں اور وژن، تزویری صلاحیت،محرک،جوش اور مطابقت پزیری کے حامل ہیں جو اسکول،کمیونٹی اورکاروبار کے لئے مددگار ہوتےہیں۔

ڈاکٹر مقدم کئی تعلیمی کانفرنسوں اور مباحثوں میں شامل رہے ہیں اور ایک سرکاری کمیشنڈ ریویو کے مشترکہ صدر بھی جس نے برطانیہ میں عالموں اورمذہبی رہنماؤں کی تربیت پر نظر ثانی کی تھی۔ وہ کیمبرج یونی ورسٹی میں ایک ٹیم کے رکن بھی رہے جس کے ذمے برطانیہ کے تناظر میں مسلمانوں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر برطانوی حکومت کو مشورے دینا تھا۔

وہ ایسوسی ایشن آف مسلم اسکولز ان یوکے اینڈ آئر کے 11سال تک چئیرمین رہے ہیں۔اس عرصے میں ایسوسی ایشن کو رکن اسکولوں کو ترقی اوربہتری کے حصول میں بے مثال کامیابی حاصل ہوئی اور برطانوی حکومت نے اسے مسلمانوں کی تعلیم کے اعتبار سے ایک نمائندہ ادارےاور آواز کے طور پر تسلیم کیا۔

شائع کردہ 9 December 2013