تقریر

عالمی معیشت میں اسلامی مالیات کامستقبل

وزارت خارجہ کی وزیر بیرونس سعیدہ وارثی نے آکسفرڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز میں تقریر کی۔ ذیل میں اس تقریر کے اہم نکات کو پیش کیا جارہا ہے۔

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
  • مجھے فخر ہے کہ وزارت خارجہ، برطانیہ کے لئے ایک تجارتی سفیرکا کردار ادا کررہی ہے اوراسلامی مالیات اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ برطانیہ اس شعبے میں مغرب کے مرکز کی حیثیت اختیار کرگیا ہے، یہ شعبہ مالی انحطاط کے باوجود ترقی کررہا ہے۔
  • یہاں برطانیہ میں اس شعبے میں ترقی کی عظیم مثالیں پہلے ہی موجود ہیں۔ لندن میں ایک درجن سے زائد بنک اسلامی مالیاتی لین دین فراہم کررہے ہیں ، جن میں سے پانچ مکمل طور پر شریعت کے مطابق کام کرتے ہیں۔ لندن کا منظرشریعہ لین دین کی وجہ سے تبدیل ہوچکا ہے، دا شارڈ(لندن میں شیشے کی بنی 72 منزلہ عمارت)،چیلسی بیرکس، ہیرڈز، اولمپک ولیج، ان سب کو مکمل یا جزوی طور پراسلامی مالیاتی وسائل سے تعمیر کیا گیا ہے۔

  • ہماری عالمی لیڈرشپ کو مزید مستحکم کرنے کے لئے لندن کاانتخاب اکتوبر میں 9ویں عالمی اسلامی اقتصادی فورم کے میزبان کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ اس بار یہ فورم اسلامی دنیا سے باہر ہورہا ہے۔

  • تین وجوہ کی بنا پر میں سجھتی ہوں کہ اسلامی مالیات کے لئے وقت موزوں ہے۔ پہلی یہ کہ ہم آج خود کو ایک بدلتے ہوئے اقتصادی منظر میں عالمی دوڑمیں شریک پاتے ہیں۔ معاشی طاقت مشرق کا رخ کررہی ہے، چین اور بھارت اورمشرق وسطی اورجنوب مشرقی ایشیا کے بورژوا درمیانی طبقے کی طرف منتقل ہورہی ہے۔

  • ہمیں دنیا کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ برطانیہ غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارت کےلئے اول درجے کامرکز ہے۔ یہ دکھانے کی کہ برطانیہ کے دروازےکاروبار کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ لندن یہ پیغام واضح اور بلند آواز سے بھیج رہا ہے۔ یہ اب بھی دنیا کانمبرون مالیاتی مرکزہے اور یہ ایک ایسا مقام ہے جسے ہم کھونےکاسوچ نہیں سکتے۔

  • ہم دبئی، نیو یارک اور ہانگ کانگ کے علاوہ مستقبل کے علاقائی مراکز، جیسے نائیجیریا،سے بڑھتی ہوئی مسابقتی دوڑمیں شریک ہیں۔ نائیجیریا افریقی مالیاتی مرکز بننے کی کوشش کررہاہے۔ ہمیں مسلسل آگے بڑھنا ہے اور اسلامی مالیات ایک ایسا شعبہ ہے جہاں پیشرفت ممکن ہے۔ یہ کوئی چاندی کی گولی نہیں لیکن ایک سنہرا موقع ضرور ہے۔اس لئے بھی کہ دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی 25 مارکیٹوں میں سے 10 مسلم اکثریتی ملکوں میں ہیں۔

  • دوسری وجہ یہ کہ، اسلامی مالیات آج کی اخلاقی مالیات کی تلاش کا جواب ہے۔ مالیاتی دھچکے کےبعد سےجب یہ واضح ہوا کہ نقصان اورمنافع کے درمیان ربط ٹوٹ چکا ہے، سود کا نہ ہونا بہت لوگوں کے لئے پرکشش ہوگیا ہے۔ ہم نے آرچ بشپ آف کینٹر بری کو شہر کی اخلاقیات کے ‘مراعات کی ثقافت’ کے زیر اثر آجانے کی بات کرتے سنا ہے کہ جس میں وہ اس معیارسے کٹ گئی ہے جسے باقی دنیا میں معقول سمجھا جاتا ہے۔آرچ بشپ آف ویسٹ منسٹر نے اشارا کیا ہے کہ’’ کاروباری لوگوں میں یہ رحجان ہے کہ انہیں کاروبار میں اپنی زندگی کی عام اقدار سے مختلف اقدار اپنانے کی ضرورت ہے۔’’ عام انسانوں کے لئے فراہمی وہ پیغام ہے جو پوپ فرانسس نے اس وقت دیا جب وہ’’ پیسے کےدین اور ایک بے چہرہ اور غیر انسانی معیشت ‘’ کے خلاف بات کررہے تھے۔

  • در حقیقت، لوگوں کا ایسی سرمایہ کاری تلاش کرناجو ان کے فلسفے اور عقائد کے مطابق ہوکوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی صرف اسلام کا خاصہ ہے۔ ترکی میں اسلامی تقاضوں کے مطابق کام کرنے والے بنکوں کے اثاثوں کی مالیت گزشتہ دس سال میں ہزار گنا بڑھ گئی ہے۔امریکا میں، سبات معیشت پھل پھول رہی ہےجس کی بنیاد بائبل کے سبات پر ہے اور دولت کی نئی تقسیم کے اصول پرمبنی ہے۔ قرض حسنہ کے ذریعے اسلامی مالیات ایک خیر خواہ معاشرے، دولت کی گردش، بھلائی کے کام اور ضرورتمندوں کی مدد کا عزم رکھتی ہے۔

  • ایک ایسے وقت میں جب اعتماد کمزور ہے اورحکومت جی ایٹ کے ساتھ مل کر مالیاتی اداروں میں شفافیت کے لئے کام کررہی ہے، اسلامی مالیات ایک معقول اور نپا تلا بنکاری متبادل بن سکتا ہے۔اور یہ تیسری وجہ ہے کہ اسلامی مالیات کیوں ایک اہم متبادل ہے کیونکہ ہم پہلے کی طرح اسی راہ پر چلنا جاری نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں توازن نو پیدا کرنا اور معیشت کو متنوع بنانا ہے۔ ہمیں اپنے موجودہ مقام کو مستحکم اورمحفوظ کرنا ہے۔ ہمیں نئی مارکیٹوں، مصنوعات اور خطوں سے سے رابطہ کرنا ہوگا۔

  • جیسا کہ ہمیں استحکام اور لچک پیدا کرنے کے لئے قومی معیشت کو نیا توازن دینا ہے ہمیں تنوع کے لئے انفرادی شعبوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ مالیاتی مشورے کاپہلا اصول’’ اپنے پورٹ فولیو کو متنوع بنانا’’ ہے، اسلامی مالیات کا منفردانداز بنکاری شعبے کےلئے ایسا کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلامی مالیات،مالی بحران سے مبرا ہے۔ سیال اثاثوں کے سخت کیے جانےاور جنس اورتیل کی قیمت کا زوال اسلامی مالیاتی اداروں پربھی اثر انداز ہوا۔

  • اسلامی مالیاتی لین دین میں صرف منافع ہی نہیں نقصان کی بھی شراکت ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری سے پہلے کاروباری پیش کش کی نتیجہ خیزی کو سختی سے جانچا جاتا ہے۔ اور منصوبے کا جائزآمدنی پیدا کرنا لازمی ہے ۔ فلسفہ یہ ہےکہ آپ ‘وہ شے فروخت نہیں کر سکتے جو آپ کے پاس ہو ہی نہیں’۔ اسلامی مالیاتی شعبے میں قیاس یا غرار سے کسی حد تک تحفظ مل جاتا ہے۔

  • لہذا یہ کیس اسلامی مالیات کے بروقت اور درست مقام پر ہونےکا ہے۔ برطانیہ میں پہلی بارکسی وزیرکے تحت اسلامی مالیاتی ٹاسک فورس کا قیام ہوا ہےجسے کئی شعبوں کی وزارتی چھتری میسر ہے، اس ٹاسک فورس کی پانچ نکات پر توجہ ہوگی۔

  • اول، مارکیٹ سے تعاون۔ ہم نے رکاوٹوں کو دور کرنے اورمارکیٹ کی طلب کے مطابق ترقی اوراختراع کے طریقوں پر غورشروع کردیا ہے۔اسلامی مالیات کے لئے موزوں ٹیکس اور ضابطوں کے فریم ورک کو برقرار رکھنے کے خصوصی ہدف کے ساتھ لندن کو ایک مسابقتی قوت دینا، برطانیہ نے اسلامی مارگیج کےلئے جو ٹیکس نظام پہلے ہی فراہم کیا ہے تاکہ سکوک کو نقصان نہ پہنچے۔ ہم متبادل مالیاتی اسکیموں جیسے مرابحہ اور وکالہ کے ذریعے طلبہ کے اسٹوڈینٹس لون کو شریعہ کے مطابق فراہم کرنے کا متبادل فراہم کررہے ہیں۔

  • دوئم، مالیاتی انفرااسٹرکچرجیسے جیسے اسلامی مالیات کی طلب بڑھ رہی ہے اسی کے ساتھ برطانیہ کے لئے بیرونی سرمایہ کاری کے بڑے مواقع بھی موجود ہیں اور ہم غور کررہے ہیں کہ ٹاسک فورس کس طرح سرمایے کو مثال کے طور پر 40 بڑے ترجیحی انفرا اسٹرکچر منصوبوں کے لئے متحرک کرسکتی ہے جن کی قومی انفرااسٹرکچر منصوبے میں نشاندہی کی گئی ہے۔

  • سوئم ضابطے۔ ٹاسک فورس اسلامی مالیات کے لئے ضابطوں پر بھی غور کررہی ہےکیونکہ سرکاری نظم و ضبط اورانفرااسٹرکچر جو اس شعبے کو قوت دے گا وہی مستقبل کے استحکام اور افادیت کی ضمانت ہوگی۔

  • چہارم یہ کہ برطانیہ کے اسلامی مالیاتی تعلیمی ، تربیتی اور تحقیقی مہارت کو فروغ اور برآمد کیسے کیا جائے۔

  • پنجم مواصلات ۔ مارکیٹ کی نمو میں تعاون کے ہمارے منصوبے میں لازمی اہمیت لندن کو ایک ترجیحی مرکز بنانا ہے۔ لندن اول درجے کی مالیاتی اور اس سے منسلک خدمات کی پیشکش کرتا ہے جن میں اکاؤنٹنسی،قانون اور ثالثی شامل ہے اور وہ اسلامی مالیات کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں جس سے کسی معاملت کے ہر مرحلے کی تکمیل ایک ہی مالیاتی مرکز میں ہونا ممکن ہے۔

  • اسلامی مالیات دو بلین سے زائد افراد کے لئے مارکیٹ بیس بننے کی قوت رکھتی ہے۔ مالیاتی بحران کے دور میں وہ اصول جن پر اسلامی مالیات کا دارومدار ہے پہلے سے زیادہ اہم اور پر کشش ہوگئے ہیں۔ توازن، نقصان میں شراکت، شفافیت، تحفظ اور فروگزاشت کے اصول ۔ وہ اصول جو آپ کو ایسی شے فروخت کرنے سے باز رکھتے ہیں جو آپ کے پاس ہے ہی نہیں یا ان اثاثوں کی قیمت لگانا جن کا وجود نہ ہو۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا اسلامی مالیات ہر مرض کا علاج نہیں ہے۔”

شائع کردہ 7 June 2013