تقریر

بنگلا دیش گرل سمٹ 2014ء

بین الاقوامی ترقی کی پارلیمانی انڈرسکریٹری لن فیدرسٹون کی بنگلا دیش میں تقریرکے اہم اقتباسات

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
The Rt Hon Lynne Featherstone

میرا مقصد یہ ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف ہر قسم کے تشددکے خاتمے کے لئے ہرممکن پیشرفت کی کوشش کروں۔

پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ یہ سب کیا ہے اور عورتوں اور لڑکیوں کے لئے اس کے معنی کیا ہیں۔

آج دنیا کی کروروں عورتیں وہ ہیں جن کی شادی ان کے بچپن میں کردی گئی تھی۔ ان میں سے 250 ملین کی عمر 15 سال سے کم تھی۔ مجموعی طور پرہر 3 میں سے 1 کو اپنی گھریلو زندگی میں تشددکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بچپن کی شادی کی سب سے زیادہ شرح بنگلا دیش میں ہے: 65 فی صد جو دنیا بھر میں چوتھا نمبر ہے۔ 20-24 سال کی عورتوں میں سے تہائی 15 سال کی عمر تک بیاہ دی گئی تھیں۔

جیسا کہ آپ میں سے بہت سوں کو علم ہے کہ جن لڑکیوں کی شادی جلد کردی جائے انہیں گھریلو تشدد ، جنسی تشدد اورزچگی میں پیچیدگی کا خطرہ ہوتا ہے۔اور جیسا کہ آپ میں سے کئی نے دیکھا ہے کہ تشدد عورتوں اور لڑکیوں کے لئے غربت سے نکلنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔

ہر لڑکی کو بچپن سے لطف اندوز ہونے اور تشدد اور غربت سے آزاد زندگی گزارنے کا حق ہے۔

بہت سے لوگ، بچپن اور کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، جنسی تشدد اور دوسری قسم کے تشدد پر خاموش رہتے ہیں – خوف یا شرم سے یا پھر خاندان کی بےعزتی کے ڈر سے۔

ہمیں، ہم سب کو اپنی آوازپہنچانا ہے ان متاثرہ لوگوں سے لے کرمعاشرے کے رہنماؤں تک کہ وہ خاموشی توڑیں اور بولیں۔

مجھے ان سب کو ایک اہم پیغام دینا ہے جوا ن مسائل سے متاثر ہوئے ہیں اور سن رہے ہیں: آپ کا حق مجروح ہوا ہے، آپ کا کوئی قصور نہیں اورآپ کو شرم محسوس کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔

لیکن فعل کو قول سے زیادہ بلند آہنگ ہونا چاہئیے۔ بچوں کی شادی اور ہر قسم کے تشدد کے خاتمے کےہمارے عہد کو حقیقت بن جانا چاہئیے۔ الفاظ توسب ہی اچھے ہوتے ہیں لیکن ہمیں حقیقی تبدیلی لانا ہے، بنگلا دیش میں، برطانیہ میں اور تمام دوسرے ملکوں میں لانا ہے۔

آج لڑکیوں کو آزادی، انتخاب کا حق اور اپنے مستقبل کو خودتحریر کرنے کا موقع دینے کا وقت ہے۔

ہر نوجوان ایسامستقبل چاہتا ہے جسے وہ خود شکل دے سکےلیکن جب دنیا میں لڑکیاں بالغ ہوتی ہیں، جب ان کی دنیا کے وسیع ہونے کا وقت آتا ہے تو وہ دیکھتی ہیں کہ وہ سکڑ رہی ہے۔

نوجوان تبدیلی کا طاقتورآلہ ہوتے ہیں۔ دنیا کی نصف آبادی 25 سال سے کم عمر ہے۔ اگلی نسل کے رہنماؤں کی حیثیت سے وہ لڑکیوں اورعورتوں کے لئے ایک مثبت مستقبل اورخاندانوں اورقوموں کے لئے بہتر دنیا تخلیق کرسکتے ہیں۔ خود لڑکیوں کو اس میں مرکزی کردار ادا کرنا ہے۔ ان ہی کے حقوق، ان کا جسم اوران کی زندگی داؤ پرلگی ہوئی ہے۔ تاہم میں یہ بھی کہہ دوں کہ وہ تنہا یہ نہیں کرسکتیں۔ مردوں اورعورتوں کو ایسی دنیا کی تخلیق میں بھرپور کردار ادا کرنا ہے جہاں تمام بچے ضرررساں ماحول سے محفوظ رہیں، ان کی اپنی بہنیں، بیویاں، اور بیٹیاں ایک بہتر مستقبل دیکھ سکیں۔

برطانیہ میں ہونے والی گرل سمٹ اور یونی سیف نے اس سال نسوانی جنسی اعضا کی قطع و برید اور بچپن، کم عمری کی اور جبری شادی کے ایک ہی نسل میں خاتمے کو داخلی اور بین الاقوامی سطح پرتحریک دی ہے.

سمٹ سے پہلے ہم نے #YouthForChange کی میزبانی کی ۔ نوجوانوں کے ذریعے اور نوجوانوں کے لئے اس نے لڑکیوں کے حقوق کے لئے کارروائی کو بھی تحریک دی.

آپ کی حکومت اور شہری معاشرے کی تنظیموں کے کمٹ منٹس نے دکھایا ہے کہ بنگلادیش بچپن کی شادی کے خاتمے کے لئے تبدیلی لارہا ہے۔

برطانیہ میں ہم بھی اقدامات کررہے ہیں۔ ہم ایک واضح اور بھرپور پیغام دے رہے ہیں: جبری شادی قطعاناقابل قبول، غیر قانونی اور برطانیہ میں برداشت نہیں کی جائے گی۔ ہم نے اسے جرم قراردینے کے لئے فیصلہ کن قدم اٹھا لیا ہے۔ ثقافتی تقاضے اس کی راہ میں حائل نہیں ہونے چاہئیں۔

ہمارا جبری شادی یونٹ متاثرین کی مدد کرہا ہے۔ بیرون ملک وہ کونسلرتعاون فراہم کرتا ہے۔

ایشیا، مشرق وسطی اور افریقہ میں عورتیں اور لڑکیاں، کمیونٹی رہنمااورسیاستداں بچپن کی، جلد اور جبری شادی کے خاتمے کےلئے تحریک چلارہے ہیں۔

برطانوی حکومت اس قیادت کے پیچھے چل رہی ہے تاکہ اس تحریک کی حمایت کی جائے اور تبدیلی کی رفتار کو تیز کیا جائے۔

اسی لئے ہم 25 ملین پاؤنڈ کا پروگرام وضع کررہےہیں تاکہ 12 ملکوں میں بچپن کی، جلد اور جبری شادی کی روک تھام کی جاسکے اور ان میں بنگلا دیش شامل ہے۔

آئندہ نسلوں کے لئے اس تبدیلی کی تخلیق میں ہر کوئی حصہ لے سکتا ہے۔ ہم سب کو لڑکیوں کی سماجی توقعات میں تبدیلی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہے، تاکہ وہ معاشرےکی بیش قدر رکن، مستقبل میں امید کا ذریعہ اور بہترین سرمایہ کاری کا مرکز بن سکیں۔

تاکہ بنگلا دیش کی پوری آبادی- نہ کہ صرف نصف- اس کی خوشحالی کے لئےکام کرسکے۔

مستقبل طے شدہ نہیں ہے۔ اگر ہم قوت کے ساتھ آواز بلند کریں تو لڑکیوں کے لئے بہتر دنیا تعمیر کرسکتے ہیں جو بالاخرسب کے لئے ایک بہتر دنیا ہوگی۔

شائع کردہ 27 October 2014