Corporate report

مخدوش ممالک- پاکستان-تازہ ترین جائزہ:30 ستمبر2014ء

Updated 21 January 2015

This was published under the 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government
اس عرصے میں وسیع تر انسانی حقوق امور خدشات کا باعث رہے اور گزشتہ رحجانات میں تبدیلی بہت کم دیکھنے میں آئی۔

ہمارے جولائی میں شائع ہونے والےپچھلے جائزے میں ہم نے سینیٹ میں پاکستانی شہریوں کے تحفظ ایکٹ پر بحث کابتایا تھا ۔ جولائی میں قومی اسمبلی میں یک روزہ سیشن نے سینیٹ کی ترمیمات پر رائے شماری کی۔ایکٹ کامقصد جنگجورحجان اور اس کےتقاضوں سے نمٹنا ہے جس میں مشتبہ افرادکوتفتیش کے لئے موجودہ 15 دن کی مدت کے بجائے 60 دن روکا جاسکے گا۔ ایک سیاسی جماعت،جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیاکہ یہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔برطانوی حکومت مسلسل پاکستانی حکام پر زور دے رہی ہے کہ وہ اس قانون پر عملدرآمدکا عالمی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق ہونا یقینی بنائے۔

اگست میں ہیومن رائٹس واچ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بنیادی حقوق کی معطلی اوراسلام آبادمیں فوج کو قانون کے نفاذ کا کردارعطاکرنے کومعطل کیا جائے۔ بڑے پیمانے پر ہونے والے سیاسی دھرنوں میں فوجی اختیارات کے غلط استعمال کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے، البتہ ہم نے اگست سے ان اختیارات کے غلط استعمال کاکوئی واقعہ نہیں دیکھا۔

لوگوں کی گمشدگی اورماورائے عدالت قتل کے واقعات کی اطلاعات جاری ہیں۔ ستمبر میں ایشئین لیگل ریسورس سینٹر نامی این جی اونے اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کو ایک تحریری درخواست دی جس میں پاکستان بھر میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات تھے اورمیڈیانے مضامین شائع کئے جن میں بلوچستان میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کےان متاثرین کی دریافت ہوئی ہے۔

جیسا کہ گزشتہ جائزے میں بتایا گیا تھا جون میں حکومت پاکستان نے جنوبی وزیرستان یں جنگجوؤں کا صفایا کرنےکے لئے بڑی کارروائی شروع کی۔آپریشن سے پہلے علاقے کو بڑی حد تک شہریوں سے خالی کرالیا گیا اور اس وقت دس لاکھ سے زیادہ افرادداخلی بے گھر کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ البتہ صرف580000 کی تصدیق ہوسکی ہے اورانہیں حکومت سے نقدامداد دی جارہی ہے ۔ مزید112000افراد اطلاعات کے مطابق سرحد پار کرکے افغانستان چلے گئے ہیں۔برطانیہ اس شعبے میں خاصی امداد فراہم کررہاہے۔ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی نے 70لاکھ پاؤنڈ پاکستان میں ان بےگھر افرادکے لئے دئیے ہیں اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کو 47 لاکھ پاؤنڈ مزید دےگا۔

کشمیراور پنجاب میں 29 ستمبر کو 20 لاکھ افراد کے شدید سیلاب سے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں سے 300 سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں۔حکومت اور فوج نےکئی متاثرین کی مدد کی ہے ۔ ضرورت پڑنے پربرطانیہ حکومت کی کوششوں میں تعاون کے لئے تیار ہے۔ گزشتہ تین ماہ میں انسانی حکومت کے باب میں دو بڑے تشویشناک واقعات ہوئے جو پاکستان کے توہین مذہب کے قانون کی رو سے تھے۔

جولائی میں ایک شخص کو لاہور کے ایک پارک کی دیوار پر توہین آمیز عبارت لکھنے کامرتکب پایاگیا اور اسے سزائے موت دی گئی اورستمبر میں ایک پولیس مین نے جیل میں برطانوی شہری محمد اصغر کواس کی کوٹھری میں گولی مارکر شدید زخمی کردیا۔ محمداصغر کا برطانیہ میں ذہنی امراض کے علاج کا پورا ریکارڈموجود ہے، اسے گزشتہ سال پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں گرفتارکیا گیا تھا ۔ اسے پاکستانی قانون کے مطابق عدالتی کارروائی کرکے سزائے موت سنادی گئی۔

دوسرے جرائم کے تحت بھی سزائے موت دی جاتی رہی جن میں اگست کا ایک قتل کیس شامل تھا۔ ایک شخص کو 1996ءمیں قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور اسے 18 ستمبرکو پھانسی دی جانی تھی لیکن اب اس کی اپیل کی وجہ سے اس کی سماعت اکتوبر تک ملتوی ہوگئی ہے۔

صحافی گزشتہ تین ماہ میں مزید حملوں کی زد میں آئے۔ جولائی میں ایکسپریس نیوز ٹی وی پشاور کےبیوروچیف کو دھماکا خیز مواد سے نشانہ بنایا گیا۔مارچ کے بعد سے ان کے گھر پر یہ تیسرا حملہ تھا۔ مقامی صحافی برادری کے اراکین نے گورنرہاؤس کے سامنے ناکافی پولیس تحفظ کے خلاف احتجاج کیا۔ جولائی میں ہی راولپنڈی میں ٹی وی صحافی نے پولیس سے شکایت کی کہ انہیں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے موت کی دھمکیاں ملی ہیں اور اگست میں بلوچستان میں خضدارپریس کلب دس روزبند رہا کیونکہ صحافیوں کو دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ایک امید افزا پیش رفت میں ایک عدالت نے جیو ٹی وی کے خلاف ایک’’ گستاخانہ مذہبی پروگرام’’ پیش کرنے کے کیس کو مسترد کردیا۔

اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ایک احمدی کاروباری شخص کو نوابشاہ میں گولی مار دی گئی اور 4 احمدیوں پر بدین میں اپنے عقیدے کی تبلیغ کا الزام عائد کیا گیا۔ جولائی کے آخر میں ایک احمدی خاتون اور دو بچوں کوگجرانوالہ میں ہلاک کردیا گیا جب احمدیوں پر سماجی میڈیا سائٹس پر توہین آمیز مواد لگانے کے الزام میں ان کے گھروں کو آگ لگادی گئی۔حیدرآباد میں ہندوؤں نے جولائی میں احتجاج کیا کہ مقامی سیاستداں اورلینڈمافیا مندرکی زمین پر قبضہ کرنے کے لئے مسلسل ہراساں کررہے ہیں۔ عمرکوٹ میں دوکاروباری ہندوؤں کے قتل کے بعد قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کو ان مبینہ ہلاکتوں، اغوا اور مندروں پر حملوں کی تحقیقات کے لئے اختیارات دئیے گئے۔ جولائی کے آخر میں دوہزارہ لڑکوں کو کوئٹہ میں ایک سڑک پر ماردیا گیا۔

گزشتہ تین ماہ میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں کی بھی تعدادمین زیادتی سننے میں آئی ہے۔ شیعہ اور سنی مسلم بشمول اہل سنت والجماعت اور مجلس وحدت المسلمین کے اراکین کراچی میں ہلاک کردئیے گئے ۔ جولائی میں ایک عبادتگاہ میں چھ افراد کاقتل ہوا۔جس کے ذمے دار مبینہ طور پرجنگجوطالبان گروہ سے تھے۔ 10 ستمبر کومفتی محمد نعیم کے داماد مولانا مسعود کو کراچی میں نامعلوم افراد نے ہلاک کردیا۔ مفتی نعیم پاکستان میں دیوبندی مسلک کے سب سے بڑے مدرسوں کے سربراہ ہیں۔ 21 ستمبر کو ایک دیوبندی عالم مفتی امان الللہ خان کو نامعلوم افراد نے ہلاک کردیا ۔ اس واقعے کے فورا بعد اس ہلاکت کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد نے ایک نزدیکی امام بارگاہ پر حملہ کیا ۔ اس ہلاکت کا ذمے دارشیعوں کو قراردے رہے تھے۔ شیعہ نوازمجلس وحدت المسلمین کےنائب سکریٹری جنرل کے خلاف اس الزام میں پولیس تحقیقات کررہی ہے۔

آخری واقعہ اسی جگہ پیش آیا جہاں گزشتہ سال عاشورہ پرشیعہ سنی فسادات کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق عینی شاہدین نے بتایاکہ پولیس امام بارگاہ میں آگ لگانے والے ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھی۔

کراچی یونیورسٹی کے اسلامی اسٹڈیز کے ڈین ڈاکٹر محمد شکیل عوج کو ان کی کارمیں گولی ماردی گئی۔ڈاکٹر عوج کو ایک ترقی پسندعالم سمجھا جاتا تھا۔ ان کے 4 ساتھیوں سے پولیس تفتیش کررہی ہے جن پرڈاکٹرعوج کے خلاف توہین مذہب کے الزامات لگانےکا شبہ ہے۔ مبینہ طور پر کراچی کے ایک دینی ادارے نے ڈاکٹر عوج کے خلاف توہین مذہب کے فتوی میں ہلاکت کا فرمان جاری کیا تھا۔

عورتوں پر اس عرصے میں مزید حملے ہوتے رہے ہیں۔ ‘عزت کے نام ‘ پر عورتوں اور جوڑوں کو مانسہرہ، نوشہرہ، شکارپور، کراچی،سیالکوٹ،فیصل آباد اورپاکستان بھر میں کئی دوسرے مقامات پر ہلاک کیا جاتا رہا ہے۔ بلوچستان میں لڑکیوں اورعورتوں پر تیزاب پھینکنے کے تین مختلف واقعات پیش آئے۔ اسی دوران وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور یونیسیف نے گرل سمٹ کا انعقاد کیا جس میں بچپن میں، کم عمری کی اور جبری شادی پرکارروائی ہوئی۔ پاکستان میں نصف سے زیادہ شادیاں 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی ہوتی ہیں اور 70 فی صد لڑکیاں 16 سال کی عمر سے پہلے بیاہ دی جاتی ہیں۔