Corporate report

مخدوش ممالک:ایران- تازہ ترین جائزہ: 31 مارچ 2014

Updated 21 January 2015

This was published under the 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government

ایران میں جنوری اورمارچ 2014ء کے درمیان انسانی حقوق کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ بڑے اداراتی مسائل ابھی موجود ہیں جس میں اقلیتی مذہبی اور نسلی گروپس، صحافی، اور انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے، قیدی اورخواتین شامل ہیں۔

یہ بات بھی شدید تشویش کا باعث ہے کہ ایران میں سزائے موت کی شرح دنیا میں فی کس کے حساب سے دوسرے نمبر پر ہے۔ اپنے یورپی ساتھیوں کے مطابق یکم جنوری سے 20 مارچ تک کم از کم 130 افراد کو پھانسی دی گئی۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ان میں سے کم از کم دو جرائم کے وقت نابالغ تھے۔ ایران اب بھی منشیات جیسے جرائم میں سزائے موت کا استعمال کررہا ہےجو عالمی سطح پر ‘’ سنگین ترین جرائم ‘’ میں شمار نہیں کئے جاتے کہ جس کے لئے سزائے موت دی جاسکے۔

اس سال کے شروع میں ایک قیدی کے واقعے نے جو پھانسی کے بعد بھی بچ گیا سزائے موت پر ملک میں ایک بحث کا آغاز کردیا۔ 37 سالہ قیدی کوجسے منشیات کی نقل و حل کے جرم میں سزائے موت دی گئی تھی، اکتوبر میں پھانسی پر لٹکایا گیالیکن اسے 24 گھنٹے بعد مردہ خانے میں زندہ پایا گیا۔ کئی روزکوما میں رہنے کے بعد اسے بچا لیا گیا اور یہ اطلاعات آئیں کہ اسے دوبارا پھانسی دی جائیگی۔وزیر انصاف جسٹس مصطفے پور محمدی نے اسے دوبارا پھانسی دینے کی مخالفت کی لیکن قانون دانوں اورمذہبی رہنماؤں کے درمیان ایک گرما گرم بحث چھڑ گئی۔5 فروری کو یہ اعلان کیا گیا کہ ایرانی جیوری نے اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔

ایران میں مذہبی آزادی اب بھی تشویشناک ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے افراد کو ہراساں کیا جاتایا سیاسی الزامات کے تحت قید کردیاجاتا ہے۔ فروری میں 4 گونابادی درویش شیراز کے عادل آباد جیل میں دس ماہ گزارنے کے بعد عدالت میں لائے گئے۔ ان پر’’ حکومت کے خلاف دہشت گرد گروپ بنانے، باغییانہ اجتماعات کرنے،خدا کی مخالفت اور ہتھیاروں سے مسلح رہنے’’ کے الزامات تھے۔ ان قیدیوں کو حکام کی طرف سےطبی سہولیات کی ناکافی فراہمی کی وجہ سے تہران میں درویش کمیونٹی نے بڑے پیمانے پراحتجاج کیاتھا۔

نسلی اقلیتوں کو امتیازی سلوک اوراچانک گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔عرب اقلیت کے دو کارکنوں کا کیس خاص طور پر تشویش کا باعث بنا۔ ہادی راشدی اور ہاشم شابانی اموری کو جنوری میں خفیہ طور سے پھانسی دے دی گئی اوراس سے پہلے ان کا مقدمہ عالمی منصفانہ معیار کے مطابق نہیں چلایا گیا۔اطلاعات کے مطابق ان کو وکیلوں اور خاندان کے افراد سے ملنے نہیں دیا گیااور اعتراف کے لئے ان پر تشدد کیا گیا اور پھر سزائے موت سنادی گئی جسے انسانی حقوق کی ہائی کمشنر برائے اقوام متحدہ روینا شمداسانی نے ‘’ اللہ سے عداوت’’ اور’’ فسادفی الارض’’ کے ‘‘مبہم الزامات’’ قرار دیا ہے جس میں قومی سلامتی کی خلاف ورزی کاالزام بھی شامل کردیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ 9 مارچ کوایرانی اپیل کورٹ نے خسرو اور مسعود کردپور کی سزا منظور کرلی یہ دو کرد صحافی اورانسانی حقوق کے سرگرم کارکن ‘‘احتجاجی اجتماعات میں شامل ہونے’’ اور ‘‘حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے’’ کے مجرم ٹہرائے گئے تھے۔ نومبر 2013ء میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے آربٹریری ڈیٹینشن نے ان کی نظر بندی کومن مانی کارروائی قرار دیااورا ن کی فوری رہائی اور مناسب تلافی کی درخواست کی۔

آزادئی اظہاربھی تشویش کا سبب ہےاگرچہ سوشل میڈیا کے بارے میں بحث بڑھ گئی ہے۔ مارچ میں وزیر داخلہ رحمانی فاضلی نے کہا کہ سوشل نیٹ ورکس کی رکنیت، نہ ہی ان نیٹ ورکس سے منسلک کرنے والے انٹرنیٹ ٹولز کا استعمال کوئی جرم ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیس بک اور ٹوئٹر جیسی ویب سائٹس صرف ‘‘ٹیکنیکل’’ وجوہ سےبند کی گئی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ان کی بندش کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔

8 مارچ کو صدرحسن روحانی نے ‘آزادئی صحافت ذمے داری کے ساتھ’ کے حق میں بات کی اور مخالف اخبارات کی بندش پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آزادئی صحافت کے حق میں ہے جو ذمے داری کے ساتھ ہو۔۔۔اگر ہم قلم توڑدیں اور منہ بند کردیں تو عوام کا اعتماد بری طرح مجروح ہوگا۔۔۔۔ کسی اخبار کو بند کرنا آخری قدم ہونا چاہئیےپہلا نہیں۔ اگر کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو ہمیں اس سے یا اخبار کے منیجنگ ڈائریکٹر سے بات کرنا چاہئیے۔’‘لیکن آزادئی صحافت کے اس قانون کی وسعت اب بھی غیر واضح ہے۔

16 مارچ کوایک سخت گیر ہفت روزہ ‘9 دی’ کو پریس اوورسائٹ کمیٹی کی جانب سے ایک سال میں چھ وارننگز کے بعد بند کردیا گیا۔اس کی وجہ روحانی انتظامیہ پر تنقیدی مضامین تھے اس بندش کے بارے میں ایران کے وزیر برائے ثقافت اور اسلامی رہنمائی علی جنتی نے کہا، ‘‘ہفت روزہ 9 دی کو گزشتہ برس کئی نوٹس دئیے گئے جن پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اس لئے کمیٹی نے بندش کا فیصلہ کیا ۔ میں نے بارہاکہا ہے کہ کسی بھی حال میں ہم اشاعتوں کی بندش کے حق میں نہیں۔اورسمجھتے ہیں کہ بندش آخری قدم ہونا چاہئیے۔ ‘’ 20 فروری کواصلاح پسند روزنامہ آسمان کے، جو بند کردیا گیا ہے، منیجنگ ڈائریکٹرعباس بزرگ مہر کو گرفتارکر کے ایوین جیل لے جایا گیا۔انہیں ایک مضمون کی اشاعت پرعدالت میں طلب کیا گیا تھا جس میں اسلامی سزاؤں کے پینل کوڈ کو ‘‘غیر انسانی’’ کہا گیا تھا۔

ایران میں اب بھی جیل میں بند صحافیوں کی تعداد دنیا بھرمیں دوسرے نمبر پرہےاورحکومت کے خلاف بولنے پر جیل کی سزا ہوسکتی ہے۔ مارچ میں اصلاح پسندسعید رضاوی فقیہ کو ایران کے نظام حکومت پر تنقید اور آیت اللہ خامنائی کی رہنمائی کے جواز پر سوال کرنے کی پاداش میں قید کردیا گیا۔ رضاوی فقیہ کوجو سینٹرل کمیٹی آف آفس فار فوسٹرنگ یونٹی کے سابق رکن ہیں، اصلاح پسندوں کی ایک میٹنگ میں ‘’ انتہاپسندانہ غیر روایتی تبصرے کرنے’’ پر گرفتار کیا گیا تھا۔

حکام رہاکئے گئے قیدیوں پر دباؤ رکھنے کے لئےمختلف ٹیکنیک استعمال کرتے ہیں۔ ممتاز وکیل اور حقوق کی سرگرم کارکن نسرین ستودہ کو 18 ستمبر 2013ء کو رہا کیا گیااب ان کووکلا کی تادیبی عدالت میں طلب کیا گیا ہے اس سے پہلے تہران پراسیکیوٹرز آفس نے ان کالائسنس کینسل کردیا تھا۔ نوروزتہوارکی تعطیلات کے موقع پر خفیہ اداروں کی وزارت نے مزید سمن ان کوبھجوائے۔ اس کے علاوہ ایران نے حال میں رہا شدہ سکینہ آشتیانی کی رہائی کو بھی بظاہرمشروط کردیا ہے،انہیں 2006 ء میں زنا اور قتل کے الزام میں رجم کی سزا دی گئی تھی۔ ان کی رہائی کی ابھی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

ایرانی افسران کے جرائم میں ملوث ہونے کو نظرانداز کئے جانے پر بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ 3 مارچ کو یہ اعلان کیا گیا کہ جس سیکیورٹی افسر نے ستار بہشتی نامی بلاگرکا کیس کیا تھا جو ایرانی سائبر پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوکے تین روز بعد ہی چل بساتھا،اس افسر پرغیر ارادی قتل کے الزام میں حکومتی عملے کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹئرڈاکٹر احمد شہید نےمارچ 2014ء میں ایران میں انسانی حقوق کے بارے میں رپورٹ جاری کی۔ مہر نیوز ایجنسی کے مطابق ایرانی وزارت داخلہ کی ترجمان خاتون مرضیہ افخم نے کہا کہ رپورٹ بدنام کرنے کے لئے ہے اور غلط ہے۔ایران کا ردعمل اس بات کا اظہار ہے کہ وہ عالمی انسانی حقوق میکینزم کی پرواہ نہیں کرتا۔

برطانیہ ایرانی حکومت سے اس کی وجہ معلوم کرنے کے لئے بدستور زور ڈال رہا ہےاوربرطانیہ کےایران میں غیررہائشی ناظم الامور نے ایران کے کئی حکام سے مارچ 2014ء میں اپنے تہران کے دورے میں بات کی ہے۔ برطانیہ نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے انسانی حقوق کے مینڈیٹ میں توسیع کے لئے ایک قرارداد کی مشترکہ اسپانسر شپ کی۔ یہ قراردادمنظور کرلی گئی۔