Corporate report

مخدوش ممالک: افغانستان - تازہ ترین جائزہ: 31مارچ 2014ء

Updated 16 October 2014

This was published under the 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government

افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال 2014ء کے پہلے تین ماہ میں پچھلی سہ ماہی کے مقابلے میں زیادہ ترویسی ہی رہی۔

افغانستان کا یونیورسل پیریاڈک ریویو جنوری میں انسانی حقوق کونسل میں ہوا۔ اس کی مکمل تفصیل اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ برطانیہ نے پہلے سے سوالات بھجوادئیے تھے اور بیان بھی جاری کیا تھا۔ ہم نے انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کے تحفظ ، آزادئی مذہب یا عقائد،اقلیتوں کے حقوق،سزائے موت اورعورتوں کی انصاف تک رسائی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اپنے بیان میں ہم نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ آزادئی اظہار کا تحفظ کرے اور خواتین اور بچوں پر تشدد پر توجہ دے۔ ہم نے افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں نظر بندوں کے ساتھ سلوک پر بھی اپنے خدشات کونمایاں کیا۔ برطانیہ نے سفارش کی کہ افغانستان، پینل کوڈ کی دفعہ 398 کو ختم کرے جو عزت کے نام پر قتل کے مجرموں کو رعایت دیتی ہے اور یہ یقینی بنائے کہ افغانستان خودمختار انسانی حقوق کمیشن کوآزادی اور قانونی اختیارات دئیے جائیں کہ وہ قیدیوں سے بدسلوکی کے مرتکب افراد کا احتساب کرے۔

افغان پارلیمنٹ نے 21 جنوری کو کرمنل پروسیجر کوڈ پر نظر ثانی کی منظوری دی۔اس میں متضاد دفعہ 26 اور 27 شامل ہیں جو خاندان کے اراکین کے کیسوں میں رشتے داروں کی گواہی کے حقوق سے متعلق ہیں۔ان کو گواہی کی اجازت نہ دینے سے گھریلو تشدد اور بچوں سے بدسلوکی جیسے جرائم پر سزائیں دینا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ برطانیہ نے اپنے خدشات کا اظہار افغان حکومت کی اعلی ترین سطح پرکیا ۔23 فروری کو صدر حامد کرزائی نے کرمنل پروسیجر کوڈ پر دستخط کئے لیکن دفعہ 26 میں ترمیم کے لئے حکمنامہ جاری کیا۔ اس سے واضح ہوگیا کہ رشتے دارگواہی دینے سے بچ سکتے ہیں لیکن انہیں قانونا گواہی دینے سے روکا نہیں جاسکتا۔ حکمنامے کو پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کو منظوری کے لئے بھیج دیا گیا۔ پارلیمنٹس کے پاس اسے مسترد کرنےکےلئےاپریل کے وسط تک کا وقت ہے ورنہ وہ خود بخود قانون بن جائیگا۔

یورپی یونین کی امور خارجہ کونسل نے 20 جنوری کو افغانستان کی صورتحال پر بحث کی۔ سکریٹری خارجہ نے اس موقع کا استعمال کرکے انسانی حقوق کی اہمیت کو دہرایا۔ کونسل نے اتفاق کیاکہ خواتین کے حقوق سے متعلق قانونی اقدامات پر مکمل عملدرآمد کو بہتر بنانے کے لئے ہنگامی کارروائی کی جائے۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے 17 مارچ کو افغانستان میں اقوام متحدہ معاون مشن کے مینڈیٹ میں 12 ماہ کی توسیع کردی جو سلامتی کونسل قرارداد 2145 (2104)کے تحت ہوئی ہے۔ مینڈیٹ میں انسانی حقوق پر نئے سرے سے توجہ دی گئی ہے۔

جوائنٹ کوآرڈینیشن اینڈ مانیٹرنگ بورڈ کا خصوصی اجلاس کابل میں 29 جنوری کوہوا۔ اجلاس میں ٹوکیو باہمی احتسابی فریم ورک کے تحت افغان حکومت اورعالمی برادری کے کمٹ منٹس کی توثیق کی گئی۔ شرکا نے کامیابیوں میں پیش رفت کو جاری رکھنے پراتفاق کیاجن میں انسانی حقوق کے مسائل خاص طور سے عورتوں اور لڑکیوں کے امورپر توجہ دینا شامل ہے۔ مارچ میں برطانوی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی نے اعلان کیا کہ برطانیہ اور آسٹریلیا مشترکہ طور پر ان خواتین کی انصاف تک رسائی میں اضافے کی کوششوں میں تعاون کریں گے جو افغانستان میں تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔برطانیہ 3 ملین پاؤنڈ دے گا جبکہ آسٹریلیا نے 4 ملین آسٹریلین ڈالر کا وعدہ کیا ہےتاکہ افغانستان میں تشدد سے متاثرہ خواتین کے لئے رسائی کو مستحکم بنانے کے پروگرام پرعملدرآمد ہوسکے۔ اس پروگرام کا مقصد 12 صوبوں میں خواتین کی مددکرنا، کمیونٹی کی بنیاد پرانصاف کے شعبے کے کارکنان کی خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے قانون ،اسلام میں خواتین کے حقوق کی تربیت وغیرہ ہے۔

افغانستان میں برطانوی سفیر سر رچرڈ اسٹیگ نے 9 فروری کو کابل میں سفارتخانے کی ایک تقریب میں افغان صحافیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا۔ افغانستان میں صحافی بڑے مشکل حالات میں کام کرتے ہیں اورہمہ وقت تشدد،ہراسانی اور دھمکیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ برطانوی سفیر نے ان کے پیشہ ورانہ اخلاص اورعزم کو سراہا اور پریس اور میڈیا کی آزادی کی اہمیت پر زور دیا۔

اقوام متحدہ کی اطلاع کے مطابق 2013ء میں ہلاک اور زخمی ہونے والےشہریوں کی تعداد میں 14 فی صد اضافہ ہوا۔ افغانستان میں اقوام متحدہ معاون مشن (UNAMA)کی مسلح تنازع میں شہریوں کا تحفظ رپورٹ 8 فروری کو شائع ہوئی جس میں 2013ء میں مسلح مخالف گروپوں کو ہلاکتوں کی 74 فی صد تعداد کا اور افغان اور عالمی فورسز کو 11 فی صد کاذمے دارقراردیا گیا ۔10 فی صد ہلاکتیں حکومت مخالف اور حکومت نواز فورسز کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے ہوئیں جبکہ باقی 5 فی صد کے ذمے داروں کا تعین نہیں ہوسکا۔ شہری اموات 2011ء کے مقابلے میں کم تھیں البتہ ہلاک شدگان اور زخمیوں کی تعداد (8615) یوناما کے ان ریکارڈز کی 2009ء میں اشاعت شروع کرنے کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ تنازع میں ہر ہلاکت ایک المیہ ہےاور آئیساف اور برطانوی فورسز کے طریقہ کار میں ہلاکتوں کو کم سے کم کرنے کی سختی سے پابندی کی جاتی ہےاور ایسے واقعات اگر ہوجائیں توان کی تحقیقات کی جاتی ہے۔ تازہ ترین یوناما رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہری ہلاکتوں کی بیشتر تعداد شورش کا نتیجہ ہے۔

صدارتی حکمنامے 145 کے تحت جو 8 مارچ کو عالمی یوم نسواں کے موقع پر جاری کیا گیا ، کابل میں مرکزی بادام باغ خواتین نظر بندی مرکز سے 26 عورتوں کو رہا کیا گیا اور تقریبا 100 کی سزامیں کمی کی گئی۔ ان میں اخلاقی جرائم کے تحت سزا پانے والی عورتیں شامل تھیں۔