Corporate report

مخدوش ممالک :افغانستان- تازہ ترین جائزہ:30 جون 2014ء

Updated 16 October 2014

This was published under the 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government

افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال میں اپریل سے جون 2014ء کے درمیان گزشتہ تین ماہ کے مقابلے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔

اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل<

عالمی میعادی نظرثانی پرورکنگ گروپ کی افغانستان رپورٹ اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کے 26 ویں سیشن میں 19 جون کو پیش کی گئی تھی۔ اس میں جنوری میں عالمی میعادی نظرثانی رپورٹ میں برطانیہ کی سفارشات پرافغان حکومت کاردعمل شامل تھا۔اس رپورٹ کی ایک کاپی اقواممتحدہ ویب سائٹ پرمل سکتی ہے۔ برطانیہ کے بیانیے میں افغان خواتین اور انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والوں پر تشدد کی سطح پر ہمارے خدشات پردوبارہ زور دیا گیا تھااور افغان حکومت کو ان کے نظر انداز کئے جانے کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔رپورٹ میں تصدیق کی گئی تھی کہ افغان حکومت نے برطانیہ کی یہ سفارشات قبول کرلی ہیں کہ افغانستان خودمختار انسانی حقوق کمیشن کو آزادی اورقانونی اختیاردیا جائے کہ وہ نظر بندوں سے بدسلوکی کے مجرموں کے خلاف کارروائی کرسکے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہماری دوسری سفارش پرکوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا جو کہ ضابطہ تعزیرات کی دفعہ 398 کے خارج کئے جانے کے بارے میں تھی جس سے عزت کے نام پر قتل کرنے والوں کو قانونی رعایات دی جاتی ہیں۔224 سفارشات میں سے، جو رکن ممالک نے کی تھیں افغانستان نے 189 قبول کی تھیں اور 12 کو مسترد کردیا جبکہ 23 زیر غور ہیں۔

انتخابات<

افغان عوام نے 5 اپریل کو نئے صدر اور صوبائی کونسلوں کے نمائندوں کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالے ۔انتخابات کے دن پہلے مرحلے میں خودمختار انتخاباتی کمیشن افغانستان کے مطابق ووٹروں کا تناسب کافی زیادہ تھا اور 66 لاکھ جائز ووٹ ڈالے گئے۔ 36 فی صد ووٹر خواتین تھیں۔ چند علاقوں خاص طور پر بڑے شہروں میں بیلٹ پیپر کم پڑگئے، افغان ووٹروں کی ایک مختصر تعداد ووٹ نہیں ڈال سکی۔ حفاظتی اقدامات نے کام کیا اورشہری علاقے میں کوئی بڑاواقعہ نہیں ہوا۔ 16 ہزارخودمختار افغان انتخاباتی آبزروروں اور امیدواروں کے 3لاکھ ایجنٹوں نے انتخابی عمل کا مشاہدہ کیا ، ان کے ساتھ یورپی یونین ، یورپ میں تنظیم برائے سلامتی اور تعاون، آزادانہ انتخابات کے ایشیائی نیٹ ورک اورڈیموکریسی انٹرنیشنل کی عالمی ٹیمیں موجود تھیں۔

صدارتی انتخابات کےپہلے مرحلے کے حتمی نتائج کی 15 مئی کو تصدیق کی گئی۔کسی امیدوار نے 50 فی صد سے زائد ووٹ نہیں لئے لہذا 14 جون کو دوزیادہ ووٹ لینے والوں: عبداللہ عبداللہ ( جنہوں نے 45 فی صد ووٹ لئے) اور اشرف غنی ( جنہوں نے 6ء31 فی صد ووٹ لئے)کے درمیان ووٹنگ کادوسرا مرحلہ ہوا۔ دوسرے مرحلے میں سلامتی کی صورتحال اور ووٹر ٹرن آؤٹ زیادہ تر پہلے مرحلے جیسا رہا۔ تاہم انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کے بعد چیف الیکٹورل افسر نے استعفی دے دیا اور سڑکوں پر چند پر امن مظاہرے ہوئے۔ دوسرے مرحلے کا نتیجہ جولائی میں متوقع ہے۔

مئی کے آخر میں خودمختار انتخابی کمیشن نے صوبائی کونسلوں کے انتخابات کے ابتدائی نتائج کا اعلان کیا ۔ شکایات کا حجم توقع سے زیادہ تھا اوراسی لئے حتمی نتائج کی اشاعت کو موخر کردیا گیا۔

دیگر پیش رفت<

افغان پارلمنٹ نے 17 مئی کو صدارتی حکمنامہ اکثریتی ووٹ سے منظور کیا جس سے مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 26 میں ترمیم کی گئی۔ پچھلے ضابطے میں، جسے جنوری میں پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا، خاندان کے کیسوں میں رشتےداروں کی گواہی کے باب میں متنازع دفعات تھیں۔ ان کو گواہی دینے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے چند جرائم جیسے گھریلو تشدداور بچوں سے بدسلوکی میں سزائیں انتہائی مشکل تھیں۔ صدارتی حکمنامے نے واضح کیا ہے کہ اگرچہ رشتے دارگواہی دینے سے پرہیز بھی کرسکتے ہیں، لیکن ان پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہوگی۔

افغانستان میں برطانوی سفیر سر رچرڈ اسٹیگ نے مئی میں برطانوی سفارتخانے کی منعقد کردہ آرٹ نمائش میں معذور افغان فنکاروں کی خدمات کو سراہا۔ یہ فنی نمونے برٹش کونسل کے افغانستان ثقافت اور امن کی تشکیل پروگرام کا نتیجہ تھے جو فن اور ثقافت کو کمیونٹیز کے درمیان مفاہمت کو بہتر بنانے اورمصالحت میں اضافے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

وزارت خارجہ برطانیہ نے افغان حکومت اور افغان شہری معاشرے کے نمائندوں کی لندن میں جون میں ہونے والی تنازعات کے دوران جنسی تشدد کے خاتمے کی عالمی کانفرنس میں شرکت کو اسپانسر کیا۔ اس وفد میں خواتین امور کی نائب وزیر اور وزارت برائے انصاف اور وزارت برائے خارجہ امور کے نمائندے شامل تھے۔ اس کانفرنس سے مطابقت کے لئے کابل میں برطانوی سفارتخانے نے 10 جون کو افغانستان میں خواتین اور سلامتی کے موضوع پر ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ورکشاپ میں جس کی صدارت برطانوی نائب سفیررابرٹ چیٹرٹن ڈکسن نےکی، حکومت کے مختلف نمائندوں، سیکیورٹی فورسز اور شہری معاشرے کے نمائندوں نے شرکت کی۔انصاف تک رسائی میں خواتین کی مشکلات ، سلامتی شعبے میں خواتین کے کردار اور ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے طریقوں پر بحث مرکوز کی گئی۔

یورپی یونین خارجہ امور کونسل نے افغانستان پر کونسل کے نتائج افغانستان پر کونسل کے نتائج کو اپنی 23 جون کی لکسمبرگ میٹنگ میں تسلیم کیا۔ اس میں 2016-2014ء کی یورپی یونین حکمت عملی اور افغانستان کے لئے عملدرآمدی منصوبہ شامل ہے جو یورپی یونین کے مقاصد اوران کے حصول کے لئے اقدامات اورانی شئیٹو متعین کئے گئے ہیں۔ افغانستان میں یورپی یونین کے مستقبل میں کام کے چارترجیحی شعبے، قانون کا نفاذاور انسانی حقوق کا احترام خاص طور خواتین اور بچوں کے حقوق شامل کئے گئے ہیں۔

برطانیہ نے نئی افغان نیشنل آرمی آفیسر اکیڈیمی کی اتحادی قیادت سنبھالی ہوئی ہے اور افغان فوجی رہنماؤں کی اگلی نسل کی تشکیل میں مدد کررہا ہے۔ جون میں اس میں خواتین کیڈٹوں کی پہلی تعداد شامل ہوئی۔ اکیڈیمی ہرسال 1050 مرد اور 90خواتین کی تربیت کرے گی۔

پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے 30 جون کو معلومات تک رسائی کا قانون منظور کیا، جس کی رو سے افغان شہریوں کو حکومتی معلومات تک رسائی کا حق دیا گیا ہے۔ یہ قانون آزادئی اظہار کی معاونت میں ایک نمایاں قدم آگے بڑھائے گااور حکومت کے احتساب اور شفافیت کو بہتر بنانے میں مدد دےگا۔ مسودہ قانون اب نفاذ کے لئےپارلیمنٹ کے ایوان بالا کی منظوری اور پھر صدارتی دستخط کا متقاضی ہے۔

سکریٹری خارجہ، وزیر دفاع فلپ ہیمنڈ اور ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کی وزیر جسٹین گریننگ نے 12 جون کو برطانوی حکومت کے تیسرے قومی ایکشن پلان برائے خواتین،امن اورسلامتی کااجرا کیا۔ اس سے تنازعات سے بچاؤ اور ان کے حل میں خواتین اور لڑکیوں کومرکزی مقام دینے کی ہماری کوششوں کے عزم اور امن اور استحکام کے فروغ اور تشدد کی روک تھام اوراس کے خلاف کارروائی کا تعین ہوتا ہے۔ اس میں چھ ترجیحی ممالک ہیں جس میں افغانستان بھی ہے۔ ہم ایک عملدرآمدی منصوبہ تشکیل دے رہے ہیں جو اس سال بعد میں عوام کے لئے دستیاب ہوگا۔