پروین:ایک بااختیاراورقابل قدربنگلا دیشی خاتون
اس عالمی یوم نسواں پرایک کمیونٹی کئیرورکرسے ملیے جو ڈھاکا میں لڑکیوں اور عورتوں کی زندگی میں بہتری کے لئے کوشاں رہتی ہیں.
ڈھاکا کی کوریل نامی کچی آبادی میں، جو کہ بنگلادیش کی وسیع ترین کچی آبادیوں میں سے ایک ہے، زندگی دشوار ہے۔ ان کچے گھروں کی گنجان آبادی میں زیادہ ترخاندان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔
لیکن کوریل کی لڑکیوں اورعورتوں کے لئے زندگی اور بھی دشوار ہے۔ انہیں نہ صرف غربت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بچپن کی شادی، کم عمری میں حمل بلکہ جسمانی زیادتیوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے.
ان حالات میں پروین جو ان کچی آبادیوں میں کام کرنے والی ہیلتھ ورکروں میں سے ایک ہیں، امید کی کرن ہیں اور ان عورتوں کو عملی مدد فراہم کرتی ہیں۔
گزشتہ آٹھ سال سے پروین منوشی منصوبے کے لئے کام کررہی ہیں جو بنگلادیشی تنظیم براک(BRAC)کے تحت کام کررہاہے اوراسے یوکے ایڈ اوردوسرے بین الاقوامی عطیات دہندگان سے مدد ملتی ہے۔ اس کام کاجو اثر پروین پر پڑا ہے اس کے بارے میں انہیں کوئی شبہ نہیں:
براک نے مجھے ایک کمیونٹی ہیلتھ ورکربننےاوراپنی کمیونٹی کی خدمت کرنے کاموقع دے کرمیری زندگی بدل دی ہے۔ چند مالی فوائدکے ساتھ میرے اس کام نے کمیونٹی میں میرے مقام اور ساکھ میں اضافہ کردیا ہے.
میں ان احساسات کو پوری طرح بیان نہیں کرسکتی جو بااختیاراورقابل قدربننے پر ایک عورت کے دل میں جاگتے ہیں۔ یہ مجھ میں براک منوشی منصوبے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے پیداہوئے ہیں.
پروین جیسے ہیلتھ ورکروں کا انتخاب کمیونٹی میں سے کیاجاتا ہے اورہرایک 200 خاندانوں (تقریبا1,000 افراد )کی عورتوں اوران کے بچوں کو بنیادی طبی خدمات جیسے خاندانی منصوبہ بندی سے لے کربچوں کے لئے مدافعتی ٹیکےپر مشورہ تک فراہم کرتا ہے.
پروین اور ان کی ساتھیوں کے کام کی بدولت زچگی کے دوران ماؤں کی ہلاکت میں کمی ہوگئی ہے۔ 2008 – 2014ءکے درمیان منوشی منصوبے کے علاقوں میں دوسرے علاقوں کی نسبت ماؤں کی اموات کی شرح نصف ہوگئی ہے۔ بچوں کی صحت بھی بہتر ہوگئی ہے، نوزائیدہ بچوں کی اموات کی تعدادان علاقوں میں(1,000 پیدائش پر 15 اموات) ملک کے دوسرے علاقوں کی نسبت بہت کم ہے(194 اموات فی 1,000 پیدائش)۔
تاہم پروین کا کام یہیں ختم نہیں ہوتا۔ ہیلتھ ورکر کے رول کے علاوہ دو بچوں کی یہ ماں کمیونٹی میں مقامی خواتین کو بااختیاربنانے کے گروپ میں سرگرمی سےکام کرنے کے لئے وقت اور توانائی خرچ کرپاتی ہیں اورانہیں تعلیم دینے اور بچپن کی شادی اور ہراسانی کے بارے میں آ گاہی پیداکرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں.
میری ایک 13 سال کی بیٹی سیکنڈری اسکول میں اور 8 سالہ بیٹا پرائمری اسکول میں ہے۔ میں اپنی آمدنی کا بیشترحصہ بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتی ہوں اورمستقبل کے لئے بھی کچھ بچا لیتی ہوں۔ میرے شوہرپہلے ایک ڈرائیور تھے اب اپنی مشترکہ بچت سے ایک سیکنڈ ہینڈ کارخرید کے ٹیکسی چلاتے ہیں اوران کی آمدنی پہلے سے کہیں زیادہ ہے.
اگر براک کی مدد نہ ہوتی تو ہم یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ میں اورمیرے شوہرکالج نہیں جا سکے تھے۔اب ہمارا واحدوژن ہے کہ ہمارے بچے یونی ورسٹی میں اعلی تعلیم حاصل کریں اور زندگی میں اعلی مقام بنائیں۔ مجھے یقین ہے کہ براک اس خواب کی تکمیل میں میری مدد کرتا رہے گا.