کیس اسٹڈی

بنگلادیش: کیمپوں میں رہائش پزیر'بہاری' کمیونٹی کی مدد

بنگلادیش نے ڈیفڈ کی مدد سے چلائی جانے والی مہم کے نتیجے میں بہاریوں کوشہریت کے حقوق دے دئیے.

Crowded conditions in Bihari camp, Bangladesh

Crowded conditions in Bihari camp, Bangladesh. Picture: Refugees International

بہاریوں کے مصائب بہت طویل مدت سے چلے آرہے تھے۔ برطانوی سلطنت ہند تقسیم ہوئی توریاست بہارسے ہزاروں مسلمان جو اردو بولنے والے بہاری تھے، اس علاقے میں چلے گئے جسے اس وقت مشرقی بنگال کہا جاتا تھا اورجسے فورا بعد مشرقی پاکستان کا نام دے دیا گیا۔ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان اورمغربی پاکستان کے درمیاں جنگ ہوئی تو کئی بہاریوں کو مغربی پاکستان کا ہمدرد سمجھا گیا۔البتہ جب مشرقی پاکستان دسمبر 1971ء میں بنگلا دیش بن گیااورپاکستانی فوج اور شہری وہاں سے نکل آئے تو بہاری وہیں چھوڑ دئیے گئے اوربنگلادیش کی بہاری آبادی نے خود کو دونوں ملکوں میں ناپسندیدہ پایا.

آج بھی 160000 بہاری بنگلادیش کے طول وعرض میں کیمپوں میں رہتے ہیں۔ یہ کیمپ زیادہ ترشہروں میں ہیں اوران میں بے پناہ گنجان آبادی ہے، گندے پانی کے نکاس کا ناقص نظام اوربنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ ابتدائی طور پریہ عارضی رہائش گاہ تھی، کئی دہائیاں گزرنے کے دوران آبادی کے بڑھنے سے ان جھونپڑ پٹی جیسے کیمپوں میں صورتحال بد سے بدتر ہوگئی۔ خیمہ نشینوں کو سرکاری ملازمتیں نہیں ملتیں اوران کے رہائشی پتے کی وجہ سے وہ ملازمتوں کے وسیع تر شعبے میں امتیاز کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تعلییم کے خواہاں بچوں کے لئے بھی یہ پتا مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ اسکول فیسوں اورنصابی مواد کے لئے وسائل کی شدید قلت ہےاوراکثریت کو تعلیمی سہولیات میسرنہیں۔ مایوسی کا ہرطرف راج ہے۔ ڈھاکا میں ایک کیمپ کے رہائشی نے بتایاکہ ‘‘میں سخت محنت کرتا ہوں لیکن ہم کتنی بھی محنت کریں ہمیں معاوضہ کم ہی ملتا ہے۔ مجھ سے جو بھی کام لیا جائے میں کرونگا لیکن اس کے بدلے میں میں ریاست سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ بھی یہی کرے۔’’ برطانیہ کی تحقیق سے انکشاف ہوا کہ سید پوراورڈھاکا کے بہاری کیمپوں کے 90 فی صد رہائشی بنگلا دیشی شہریت چاہتے ہیں جو 1970ء کی اطلاعات کے برعکس ہے جب یہ کہا جاتا تھا کہ بہاریوں کی اکثریت پاکستانی شہری بننا چاہتی تھی.

بنگلا دیش کی بہاری کمیونٹی کی شہریت کا معاملہ اس وقت اوربھی سنگین ہوگیا جب حکومت نے ووٹروں کی فہرست پر نظر ثانی اورقومی شناختی کارڈ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ اکثربہاری ووٹ کے لئے رجسٹر نہیں ہیں لہذا شناختی کارڈ اسکیم میں خطرہ نہیں تھا۔ قومی شناختی کارڈ کے ذریعے شہریوں کو کئی سہولیات حاصل ہونگی جن میں پاسپورٹ کا حصول، بنک اکاؤنٹ کھولنایا قرضہ حاصل کرنا، بجلی،گیس پانی کے کنکشن،پبلک سروس امتحانات کے لئے رجسٹریشن،پبلک سروس کے لئے درخواست دینا،شادی کی رجسٹریشن،حکومتی گرانٹس کے لئے درخواست دینا، اراضی یا گاڑی کی خرید و فروخت،اسکول میں داخلہ اورعدالتوں میں پٹیشن یا اپیل دائرکرنا شامل ہیں.

موثر حقوق شہریت عدلیہ کے فیصلوں کے باوجود موخر کئے جاتے رہے۔ برطانیہ سے مہاجرین، ترک وطنی نقل وحرکت ریسرچ یونٹ(RMMRU) نے دستخطی مہم چلائی، شہری حقوق پراخبارات میں مضامیں شائع کروائے اورمقامی اورقومی سطح پر بہاری اور کمیونٹی تنظیموں، این جی اوز اور انسانی حقوق گروپوں کے درمیان رابطے عمل میں لائے گئے۔اس مہم سے بہاریوں کے وہ مسائل سامنے لائے گئے جن کا انہیں شہریت نہ دئیے جانے کی صورت میں سامنا تھا.

بنگلا دیشی شہریت کی شدید خواہش کے باوجود یہ خوف اپنی جگہ ہے کہ شہریت کے اعلان کے بعد انہیں کیمپوں سے بے دخل کردیا جائے گا، امید ہے کہ ووٹنگ کے حق اور شناختی کارڈ دئیے جانے کے بعد بہاری وسیع حقوق حاصل کرسکیں گے اورانہیں اپنے تحفظ کا خطرہ بھی نہیں رہے گا.

مزید معلومات

مہاجرین، ترک وطنی نقل وحرکت ریسرچ یونٹ

شائع کردہ 17 January 2008