دنیا کی خبروں کی کہانی

برطانوی ہائی کمشنر پاکستان کے مستقبل کے بارے میں پہلے سے کہیں زیادہ پر امید ہیں۔

پاکستان کے عوام جمہوریت سے لطف اندوز ہورہے ہیں جو کہ دنیا بھر کی صرف چالیس فیصد آبادی کو میسر ہے۔امن امان کی صورتحال بھی بہتر ہورہی ہے۔ ہے اور اگر انتظامی ڈھانچے میں اصالحات کی جائیں تو ترقی کی رفتار مزید تیز ہوسکتی ہے۔"

HC at ISSI

پاکستان کے لیے برطانوی ہائی کمشنر فلپ بارٹن (کمپینین آف دی آرڈر آف سینٹ مائیکل اینڈ سینٹ جارج، آرڈر آف سیمنار کا عنوان “دی فیوچر آف یوکے – پاکستان ریلیشنز: اے ڈیپارٹنگ پرسپیکٹو” تھا اور سیمنار میں سیاست، دی برٹش ایمپائر) نے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسالم آبادمیں آج اپنی الوداعی تقریر کی۔ ذرائع ابالغ اور تعلیم کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے معززین نے شرکت کی۔

برطانوی ہائی کمشنر نے اپنی تقریر کا آغاز کرنے ہوئے کہا:

میں اگلے ہفتے بحیثیت ہائی کمشنر پاکستان اپنی دو سالہ مدت مکمل کرکے واپس جا رہا ہوں۔ میں نے اس ملک کا دورہ سب سے پہلے کوئی بیس سال سے بھی قبل کیا تھا۔ لیکن میں اس ملک کے مستقبل کے بارے میں پہلے سے بھی زیادہ پُرامید ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک چار اہم سمتوں، جمہوریت، امن و امان، معیشت اور عالقائی تعلقات کی جانب مثبت رفتار پر گامزن ہے۔”.

میں پاکستانی فوج اور ان کے سویلین ساتھیوں، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہادری پر انہیں سالم پیش کرتا ہوں۔ یہ سب ملک بھر میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے انتہائی دشوار ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق 2015 کے دوران دہشت گردی کی کاروائیوں میں اڑتالیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان کے عوام جمہوریت سے لطف اندوز ہورہے ہیں جو کہ دنیا بھر کی صرف چالیس فیصد آبادی کو میسر ہے۔امن امان کی صورتحال بھی بہتر ہورہی ہے۔

معیشت بہتری کی جانب گامزنہائی کمشنر نے دالئل پیش کیے کہ پاکستانی ، اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں کیسے پُرامید ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے معیشت میں بہتری، امن و امان کی صورتحال، جمہوریت اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے ماضی میں برطانیہ کی جانب سے پاکستان میں ادا کیے جانے والے مثبت کردار کے بارے میں بتاتے ہوئے اس شراکت کا بھی ذکر کیا جو مستقبل میں دونوں ممالک کے مابین جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہائی ہے اور اگر انتظامی ڈھانچے میں اصالحات کی جائیں تو ترقی کی رفتار مزید تیز ہوسکتی ہے۔

کمشنر نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی وسعت پر بات کرتے ہوئے کہا:

برطانوی امداد اور ڈپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ کی کوششوں سے تیرہ الکھ پاکستانیوں کو مائیکروفائیننس قرضے جاری کیے گئے جس کے لیے وہ برطانیہ کے شکرگذار ہیں۔ ہم نے دو الکھ ستر ہزار خواتین کو نادرہ کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے حصول میں مدد فراہم کی جو کہ بحیثیت شہری ان کا حق ہے۔ پاکستان کے باون الکھ غریب ترین گھرانے برطانوی امداد سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ماہانہ امدادی رقوم حاصل کررہے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت دس الکھ سے زائد اسکول جانے والے بچوں کو کنڈیشنل اسکول ٹرانسفرز کے ذریعے اسکول جانے کے لیے فوائد مہیا کیے جارہے ہیں۔ برطانوی امداد نے ممکن بنایا کہ تقریباً دس الکھ پیدائش تربیت یافتہِر نگرانی ہوئیں۔”

طبی ماہرین کی زی تعلیم کے شعبے میں دیکھا جائے تو پرائمری اسکول جانے والے تریسٹھ الکھ پاکستانی بچوں کو براِہ راست برطانوی امداد سے فائدہ حاصل ہوا۔ انگریزی زبان کے طریقہ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے برٹش کونسل 2018 تک دس الکھ انگریزی کے اساتذہ کو تربیت فراہم کرے گی۔ پاکستان میں برٹش کونسل کے ذریعے ہر سال دو الکھ بیس ہزار افراد تقریبا 118 پاکستانی یونیورسٹیوں کا 90 سے ً پانچ الکھ مختلف برطانوی امتحانات دیتے ہیں۔ ہم نے زائد برطانوی یونیورسٹیوں سے الحاق کرایاہے۔”ٰی ترین یونیورسٹیوں میں ماسٹرز ڈگری کی سطح کی تعلیم کے لیے ہمارے

پاکستانیوں کے لیے برطانیہ کی اعل چیوننگ اسکالرشپ پروگرام کے ذریعے مکمل مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ اس سال ہم نے چیوننگ وظائف کی تعداد میں چار گنا اضافہ کردیا ہے۔ اس وقت چیوننگ سے فارغ التحصیل پاکستانیوں کی تعداد کوئی ایک ہزار تین سو ہوچکی ہے۔

“برطانوی تعاون سے چلنے والے کائونٹر ٹیررزم ایسوسی ایٹڈ پروسی کیوشن ریفارم انیشی ایٹو کا شکریہ کہ عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات پر سزایابی کا تناسب پنجاب میں پانچ فیصد سے بڑھ کر پچاس فیصد ، جبکہ خیبر پختونخواہ میں تین فیصد سے بڑھ کر تیس فیصد سے زائد ہوگیا ہے۔ پاکستان کے ہر صوبے سے مجموعی لی درجے کی انسداد دہشت گردی کی تربیت یا تو مکمل کرچکے ہیں یا تربیت کے حتمی مراحل سے گذر رہے ہیں۔ امپرووائزڈ ایکسپلوسو ڈیوائس (IEDs) کو ناکارہ بنانے کے لیے عسکری اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے پانچ ہزار سے زائد اہل کاروں کی خصوصی برطانوی ہائی کمشنر نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عوام کے پاس اب آبادیات، ماحولیات اور معیشت کے اطراف موجود آزمائشوں سے متعلق طویل المدت مستقبل کے بارے میں وسیع سوچ ممکن ہے طور پر 91 پبلک پراسیکیوٹرز بارہ ہفتوں پر مشتمل اعٰ تربیت کی گئی ہے۔

اپنی تقریر کو سمیٹتے ہوئے برطانوی ہائی کمشنر نے کہا:

میں برطانیہ اور پاکستان کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے بارے میں بہت پر اعتماد ہوں۔ آخر ہم تاریخی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں میرے قیام کے دوران میرے لیے دلچسپ ترین مواقعوں میں سے ایک یادگار موقع اپنے نانا کی رجمنٹ، پنجاب رجمنٹ کے مردان میں واقع رجمنٹل میوزیم کا دورہ تھا۔ مجھے وہاں موجود چار الکھ دستاویز میں سے 1920 کے عشرے کے دوران میرے نانا کے دستخط شدہ تین دستاویز بھی دکھائے گئے ۔

لیکن صرف عوام کے درمیان باہمی روابط ہی حال اور مستقبل کے عکاس ہوتے ہیں۔ یہی پاکستان اور برطانیہ کے درمیان موجود اشتراک کی پائیداری کی وجہ ہے۔ ____________________

شائع کردہ 3 February 2016