پارلیمان کے لیے زبانی بیان

سری ہرمندر صاحب میں بھارت کی 1984ء کی کارروائی پربیان

سکریٹری خارجہ نے سری ہرمندر صاحب میں بھارت کی 1984ء کی کارروائی پرپارلیمنٹ میں بیان دیا ہے.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
William Hague

مسٹراسپیکر آپ کی اجازت سے میں سری ہرمندرصاحب میں، جسے گولڈن ٹیمپل بھی کہا جاتا ہے، بھارت کی 1984ء کی کارروائی پرکابینہ سکریٹری کی رپورٹ,کے بارے میں بیان دینا چاہتا ہوں۔

ایوان کو یاد ہوگا کہ نیشنل آرکائیوز کی جاری کی گئی دو دستاویزات کی عوامی اشاعت کے بارے میں 13 جنوری کو تشویش کا اظہار کیا گیا تھا.

یہ دستاویزات ان تکلیف دہ واقعات سے متعلق ہیں جو سکھ باغیوں کے 1983ء میں گردوارےپرقبضے کے بعد واقع ہوئے جس سے چھ ماہ تک بھارتی حکام کے ساتھ تعطل کا سلسلہ جاری رہا.

جون 1984ء میں تین روزہ بھارتی فوجی کارروائی کی گئی جسے ‘ آپریشن بلیو اسٹار’ کا نام دیا گیا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 575 لوگ اس میں ہلاک ہوئے۔ دوسری اطلاعات کے مطابق ان کی تعداد 3ہزار تھی جس میں گردوارے میں موجود زائرین بھی فائرنگ کا نشانہ بن گئے.

یہ ہلاکتیں ایک بڑا المیہ تھیں۔ دنیا بھر کے سکھوں کا اس پراب تک دکھی اورمتاثررہنا سمجھ میں آتا ہے۔.

اس لئے ہم ان دودستاویزسے پیدا ہونے والی تشویش کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ فروری 1984ء میں بحران کے ابتدائی مراحل میں اس وقت کی برطانوی حکومت نے ایک فوجی افسرکو بھارتی حکومت کو کارروائی کی منصوبہ بندی میں مشورے کے لئےبھیجاتھا.

اس ایوان کے کئی اراکین اورپوراملک جائزطورپرجاننا چاہتے ہیں کہ کیااس مشورے اورتین ماہ بعد امرتسرکے المناک واقعات میں کوئی تعلق تھا.

دستاویزات کے منظرعام پرآنے کے چندگھنٹوں کے اندروزیراعظم نے کابینہ سکریٹری کو چاراہم معاملات میں فوری تحقیقات کی ہدایات دیں:بھارتی حکام کو مشاورت کیوں فراہم کی گئی، مشورے کی نوعیت کیا تھی، اس سے آپریش بلیو اسٹار پر کیا اثرات ہوئے اورکیا پارلیمنٹ کو گمراہ کیا گیا تھا.

کابینہ سکریٹری کو آپریشن بلیو اسٹاریا بھارتی حکومت کے اقدامات یا بھارت میں سکھ برادری سے متعلق دوسرے واقعات کے بارے میں تحقیق کے لئے نہیں کہا گیا ہے.

کابینہ سکریٹری نے ان مخصوص امور پر تحقیق کی ہے اور میں یہ واضح کردوں کہ ان کی تحقیقات کے دوران اس میں برطانیہ کے پنجاب میں بعد ازاں کسی فوجی کارروائی میں ملوث ہونے کے حوالے سے کوئی واقعاتی شہادت پیش کی گئی نہ ہی سامنے آئی.

تیہ حقیقات بڑی محنت سے اور بھرپور طور پرکی گئی ہیں۔.

کابینہ سکریٹری اورافسروں نے سکھ تنظیموں سے ملاقاتیں کی ہیں تاکہ ان کے خدشات تحقیقات میں شامل کئے جاسکیں۔ .

انہوں نے ان افراد سے بھی بات کی ہےجن کا ان دودستاویزات سے تعلق تھا اگرچہ کہ چند دیگروفات پا چکے ہیں۔.

انہوں نے 1984ء کے بعد سے ابتک کے ہینسارڈ ریکارڈز کا بھی معائنہ کیا ہے۔ .

اور ان تمام فائلوں کی بھی پوری چھان بین کی گئی ہے جو متعلقہ محکموں اور ایجنسیوں کے پاس دسمبر 1983ء سے جون 1984ء تک کے واقعات کے بارے میں محفوظ ہیں.

ان 200 فائلوں اور 23000 سے زائددستاویزات کی چھان بین میں آپریش بلیو اسٹار سے متعلقہ دستاویزات بہت محدودتعداد میں پائی گئیں.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مختلف کارروائیوں کے بارے میں چند فوجی دستاویزات کو نومبر 2009ء میں ضائع کردیا گیا تھا جو کہ وزارت دفاع کے ہر 25 سال بعد نظر ثانی کے عمل کا ایک حصہ تھا۔ ان میں ایک فائل سری ہرمندرصاحب پر بھارتی کارروائی کے منصوبے کے بارے میں فوجی مشورے سے متعلق تھی۔البتہ ان ضائع کردہ فائلوں کی کچھ دستاویزات دوسری محکماتی فائلوں میں بھی موجود ہیں اور ان سب کو دیکھنے سے واقعات کے بارے میں ایک تسلسل مل جاتا ہے.

کابینہ سکریٹری کی تحقیقات اب مکمل ہوچکی ہیں۔اس رپورٹ کی نقلیں دونوں ایوانوں کی لائبریری میں رکھ دی گئی ہیں اور اسے اب حکومت کی ویب سائٹ پر شائع کیا جارہا ہے.

اس رپورٹ میں پانچ اضافی دستاویز کے اس عرصے کے واقعات پر روشنی ڈالنے والےمتعلقہ حصے بھی شائع کئے گئے ہیں جو عام طور پر شائع نہ کئے جاتے.

کابینہ سکریٹری کی رپورٹ کے اہم انکشافات یہ ہیں:

اول یہ کہ برطانیہ نے بھارتی حکومت کو مشورہ کیوں فراہم کیا، کابینہ سکریٹری نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ فروری 1984 کے آغازمیں اس وقت کی حکومت کو بھارتی ممکنہ کارروائی پرمشورے کی ایک ہنگامی درخواست موصول ہوئی یہ کارروائی گردوارے پردوبارا کنٹرول حاصل کرنے کے لئے کی جانی تھی۔ بھارت میں برطانوی ہائی کمیشن نے سفارش کی کہ حکومت ایک ایسے ملک کی جانب سے دو طرفہ تعاون کی اس درخواست کا مثبت جواب دے جس سے ہمارے اہم تعلقات تھے۔ یہ مشورہ حکومت نے مان لیا.

دوئم، کابینہ سکریٹری نے اس درخواست کی نوعیت کا معائنہ کیا جو اس فیصلے کے بعد بھارتی حکومت کو فراہم کی گئی تھی.

انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک واحد فوجی مشیر 8 سے 17 فروری 1984ء کے دوران بھارت گیا تاکہ بھارتی انٹیلی جنس سروسز اوراسپیشل گروپ کو ممکنہ منصوبے کے بارے میں مشورہ فراہم کرےجو وہ گردوارے کے اندر موجود مسلح باغیوں کے خلاف کارروائی کے لئے تیار کررہے تھے جس میں عمارت کا بیرونی معائنہ بھی شامل تھا.

مشیر کے تجزئیے نے واضح کردیا کہ فوجی کارروائی صرف آخری حربے کے طورپراس وقت کی جائےجب مذاکرات کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہوں۔ اس میں کسی بھی کارروائی کی صورت میں اچانک متحیر کن اقدام اور ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا جائے تاکہ ہلاکتیں کم ہوں اور نتیجہ جلد نکل آئے۔ یہ فوجی مشورہ پھر دہرا یا نہیں گیا۔ دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ مشورہ فراہم کرنے کا فیصلہ وزرا کو دی گئی واضح سفارش کی بنیاد پر کیا گیا تھاکہ حکومت فوجی مشیر کے دورے سے آگے بڑھ کر کوئی معاونت نہ کرے اوراس کی عکاسی اس مشیر کو دی گئی ہدایات سے ہوتی ہے۔ کابینہ سکریٹری کو فائلوں سے یا متعلقہ افسران سے بات چیت کے بعد برطانوی حکومت کے فوجی تعاون کی کوئی شہادت نہیں ملی کہ جوبھارتی حکام کو آلات یا تربیت کی صورت میں دیا گیا ہو.

لہذا کابینہ سکریٹری کی رپورٹ کا نتیجہ یہ ہےکہ برطانیہ کے تعاون کی نوعیت صرف مشاورتی اورمحدودتھی اور بھارتی حکومت کو یہ مشورہ ان کی منصوبہ بندی کے ابتدائی مرحلے میں دیا گیا تھا

سوئم، رپورٹ میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ تین ماہ بعد 5 اور7 جون 1984ء کے دوران بھارتی کارروائی پربرطانوی مشاورت کے کیا اثرات ہوئے تھے.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس دوران بھارتی حکام کی منصوبہ بندی نمایاں طور پر تبدیل ہوئی تھی۔.

اس دوران باغیوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوگیا تھااورعمارت کے اندر قلعہ بندی بہت وسیع ہوچکی تھی۔ .

کابینہ سکریٹری کی رپورٹ میں جون 1984ء کی کارروائی اورفروری میں برطانوی فوجی مشیرکی سفارشات کے مابین پائے جانے والے فرق کے بارے میں موجودہ فوجی عملے کا ایک تجزیہ شامل ہے۔آپریشن بلیو اسٹار ایک زمینی کارروائی تھی جس میں حیرت کا کوئی عنصر شامل نہیں تھااورنہ ہی ہیلی کاپٹر سے مدد لی گئی تھی.

لہذا کابینہ سکریٹری کی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ برطانوی فوجی افسر کے مشورے کا آپریشن بلیو اسٹار پر اثربڑا محدود تھا.

یہ نتیجہ اس بیان سے بھی مطابقت رکھتا ہے جو 15 جنوری کو آپریش کمانڈر لفٹنینٹ کمانڈر کلدیپ سنگھ برارنے دیا کہ’‘ہمیں کسی نے اس منصوبے کے یا اس پر عملدرآمد کے سلسلے میں کوئی مدد نہیں دی۔”.

اس کی تصدیق اندرا گاندھی اورمارگریٹ تھیچرکے درمیان 14 اور 29 جون 1984ء کو خطوط کے تبادلے سےبھی ہوتی ہے جس میں کارروائی پرتبادلہ خیال کیا گیا ہے اوراس میں برطانیہ کی مدد کا کوئی حوالہ نہیں پایا جاتا۔ خط کے آپریش بلیو اسٹار سے متعلقہ حصے کابینہ سکریٹری کی رپورٹ میں شامل کئے گئے ہیں.

کابینہ سکریٹری نے اس ایوان اورسکھ برادری کے دو مزیدخدشات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ کیا پارلیمنٹ کو گمراہ کیا گیاتھا یا مشاورت فراہم کرنے کا فیصلہ برطانوی تجارتی مقاصد کے تحت دیا گیا تھا.

رپورٹ میں ان دونوں الزامات کے بارے میں کوئی شہادت نہیں پائی گئی۔ تحقیقات میں کسی امکانی دفاعی یا ہیلی کاپٹر کی فروخت یا کسی اور پالیسی یا تجارتی پہلو کے بارے میں کوئی شہادت نہیں ملی۔ اس دورے کے بعدبرطانوی حکومت کی بھارتی حکومت سے ایک ہی درخواست کی شہادت ملی ہے کہ کسی بھی اصل کارروائی سے برطانیہ کو پیشگی آگاہ کیا جائے تاکہ حکام لندن میں مناسب سیکیورٹی انتظامات کرسکیں، تاہم اس کارروائی سے پیشتر بھارتی حکام نے برطانیہ کو پیشگی وارننگ نہیں دی.

پارلیمنٹ کو گمراہ کئے جانے کی بھی کوئی تصدیق نہیں ہوسکی۔.

اس کے باوجود ہم سکھ برادری کے خدشات پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت سے تعلقات کے ذمے داروزیر اوروزیر برائے کمیونٹی وعقائد بیرونس سعیدہ وارثی آج اس پر سکھ تنظیموں سے بات چیت کریں گی۔

مزید معلومات

ملاحظہ کیجئیے کابینہ سکریٹری کی رپورٹ

سکریٹری خارجہ ٹوئٹر پر @WilliamJHague

وزارت خارجہ ٹوئٹرپر @وزارت خارجہ

وزارت خارجہ فیس بک اور گوگل+

وزارت خارجہ اردوٹوئٹریوکےاردو

وزارت خارجہ فیس بک

اردوویب سائٹ

Media enquiries

For journalists

ای میل newsdesk@fco.gov.uk

شائع کردہ 4 February 2014