تقریر

بین الاقوامی ترقی کا مستقبل

برطانوی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کے مستقل سکریٹری مارک لوکاک کی '' ہماری زندگی میں غربت کے خاتمے کے مشترکہ امکانات' پرنئی دہلی میں تقریر

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Mark Lowcock

مہاتما گاندھی نے ایک بار کہا تھا: ‘‘مستقبل کا انحصار اس پر ہے کہ آج آپ کیا کررہے ہیں۔’’

لہذا بین الاقوامی ترقی کے مستقبل پرنظرڈالتے ہوئےمیں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہم آج کہاں کھڑےہیں۔

میری عمراس سال 50 ہوگئی ہے،میرے سولہ سالہ بیٹے نے مجھ سے پوچھا کہ انسانی تاریخ میں کس نصف صدی کو آپ انسانی زندگی کے معیار کے لحاظ سے بہترین قرار دیں گے۔ میں نے کہا بلاشبہ گزشتہ 50 سال۔

پھرمیں نے ایک لمحہ سوچا اور کہا نہیں، دراصل اگلے 50 سال بہترین ہونگے۔ اس بات سے وہ مطمئن سا ہوگیا البتہ میں گزشتہ پچاس دہائیوں میں ترقی کی رفتار کے بارے میں غور کرنے لگا اور یہ کہ ہماری زندگی آج پہلے کی نسلوں سے کتنی مختلف ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم سے زیادہ خوش قسمت، صحت مند اورزیادہ خوشحال کوئی اورانسانی گروہ نہیں رہا ہوگا۔

انسان اس سیارے پرتقریبا 150,000 سال سے آباد ہیں۔ ابھی حال تک تقریبا ہرشخص کا دھیان اپنی بقا کے لئےکھانے پینے کی کافی اشیا، حرارت اورروشنی کے حصول پر مرکوز تھا۔

سو سال پہلے صرف ایک ملک سوئیڈن تھا جس نے بچوں کی اموات کی شرح 10 فیصد سے کم کرلی تھی۔ آج 175 ملک یہ شرح حاصل کرچکے ہیں اور 130ملکوں میں تو یہ شرح 5 فی صد سے بھی کم ہوگئی ہے۔

بھارت کو لیجئیے، مارک ٹلی کی کتاب’’ بھارت: مستقبل کی راہ پر’’ میں انہوں نے اس متنوع ملک کی حیران کن کہانیاں لکھی ہیں جن میں اس کا اقتصادی معجزہ تو ہے ہی لیکن سماجی مسائل جیسے ذات پات کی تبدیلی کی رفتارکا بھی بیان ہے۔ اعداد وشمارخود ہی کہانی بیان کردیتے ہیں .

  • بھارت میں شرح خواندگی 1961ءکے آخر میں 28 فی صد سے بڑھ کر 2011ء میں 74 فی صد ہوگئی ہے
  • بھارت کا عالمی جی ڈی پی میں حصہ دگنا ہوکے 1980ء کے 2.5 فی صدسے 2010ء میں 5.5 فی صد ہوگیا ہے
  • بھارت میں عمرکا دورانیہ ساٹھ سال میں 26 سے بڑھ کر 72 سال ہوگیا ہے: 1950 - 2010
  • بھارت کی ترقی کی رفتار 1940ء کی دہائی میں 1 فی صد سے بڑھ کر70 کی دہائی کے اوائل میں 3 فی صد اور 2010ء میں 6 فی صد ہوگئی.

بھارت میں غربت کی سطح کم ہوکر جب 1940ء کی دہائی میں 90 فی صدلوگ انتہائی غربت میں زندگی گزارتے تھے، 1977-78 میں 51 فی صد اورآج 30 فی صد سے ذرا اوپرہوگئی ہے.

ہزاریہ ترقیاتی اہداف

بھارت اور باقی دنیا بھرمیں تبدیلیاں اتنی تیزی سے ہورہی ہیں کہ 20سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ 1990ء کی دہائی کے وسط میں اوورسیزڈیولپمنٹ ایڈمنسٹریشن میں مجھے بریفنگ لکھنے کا کام دیا جاتا تھا جو میں مستقل سکریٹری جان ویریکر کے لئے تیار کرتا تھاجو وہ اوای سی ڈی میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ عالمی ترقی کے جائزے پر میٹنگ میں شرکت کے لئے استعمال کرتے تھے۔ان میٹنگز کا حتمی نتیجہ بین الاقوامی ترقیاتی اہداف کے معاہدے کی صورت میں نکلا۔ یہ اہداف آئندہ چل کر ہزاریہ ترقیاتی اہداف کی ایک اہم بنیاد بن گئے.

شروع میں ان اہداف کوسنجیدگی سے نہیں لیا گیا لیکن اب شاکی لوگ بھی قائل ہوگئے ہیں کیونکہ غربت میں آدھی کمی کا ہدف پانچسال پہلے ہی حاصل ہوگیا۔ صاف پانی کا ہدف بھی پانچسال پہلے پورا کرلیا گیا۔ بنیادی تعلیم تک رسائی ڈرامائی انداز میں بہتر ہوگئی۔ بچوں کی شرح اموات بہت گرگئی۔

اس لئے جب میرے وزیراعظم نے گزشتہ ماہ نیویارک میں کہا کہ بین الاقوامی برادری انتہائی غربت کے خاتمے کا ہدف اس نسل یعنی ہماری نسل کے اندرمتعین کرے، تویہ محض تاثرانگیز الفاظ نہیں تھے۔ ہماری زندگی میں انتہائی غربت کاخاتمہ ہمارے بس میں ہے.

مستقبل کے چیلنج

میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب آسان ہے۔ اعدادوشمار خود بولتے ہیں:

افسوس کہ موسمیاتی اورماحولیاتی تبدیلی کےباب میں ہماری رفتارسست ہوگئی ہے۔ ہمیں اسے واپس لانا ہے۔ ہمیں یہ ضمانت حاصل کرنا ہے کہ لوگوں کی زندگی میں حقیقی بہتری آئے۔ ہمیں تنازعات اور بحرانوں سے بچنے اور ان کے خاتمے کے بعدکے مسائل کے باب میں وسیع مسائل درپیش ہیں۔

اقوام متحدہ نے اس باراگلے اہداف کے لئے ایک جامع مشاورتی طریقہ کارمرتب کیا ہے۔ برطانیہ نے ابھی ان نئےاہداف کے بارے میں کوئی حتمی موقف اختیار نہیں کیا ہے کہ وہ کیا ہونگے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ دوسرے ملک کیا کہتے ہیں۔ ہم نے ان کی بات بھی سنی ہے جن کا کہنا تھا کہ ہزارئیے ترقیاتی اہداف پرعالمی شمال کا کنٹرول تھا جبکہ عالمی جنوب کی طرف سے اتنی شمولیت نہیں تھی۔

البتہ ڈیوڈ کیمرون نے پانچ نکات کا ذکر کیا ہے:

  • نئے فریم ورک کا مقصد غربت کاعالمی مطلق خاتمہ ہے.
  • ہمیں ہزارئیے ترقیاتی اہداف کے ختم نہیں کرنا ہے۔ ہمیں ملکوں پرزور دینا ہے کہ ان کو مکمل کریں
  • ہمیں غربت کی محض علامات پر ہی نہیں بلکہ اس کےاسباب پربھی نگاہ ڈالنا چاہئیے
  • ہمیں دنیا کے غریب ترین افراد سے پوچھنا چاہئیے کہ وہ کیا ہے جس کی انہیں خواہش ہے
  • ہمیں جری اورپرعزم ہونا چاہئیے۔ ہمیں پیچیدہ رپورٹوں کی بجائے سیدھے سادے اوروقت مقررہ پرختم ہونےوالے اہداف کی ضرورت ہے جنہیں ہرکوئی سمجھ سکے اورجو دنیا کو متحد کر سکیں اورجن پر دنیا کے سیاستدانوں اور رہنماؤں سے جوابدہی کی جاسکے.

نظریات اوربصیرت افروزافراد

انسانی ترقی کی تاریخ نظریات پرتعمیرہوئی ہے۔ اس وقت سے جب پہلے انسان( جو میرے قیاس کے مطابق ایک عورت تھی) نے دو چقماق پتھر آپس میں رگڑے ہونگے تاکہ آگ جلائی جاسکے، تو پیش رفت اسی وقت نظریات اور اختراعات سے ہونے لگی تھی.

ترقی کا نیا فن تعمیر

نیا عالمی دورنیا عالمی نظام لے کے آیا ہے۔ایک نظام جو تھکے ہوئے پرانے غریب اورامیر، عطیات دینے والے اوروصول کرنے والے اور پہلی دنیا اورتیسری دنیاکے فرق کو لے کے نہیں چلتا۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں بھارت،چین اوربرازیل جیسے ملک عالمی ترقی کی قطار میں اول صف میں اپنا مقام منوارہے ہیں۔

میرے آج کے موضوع کی ابتدا مہاتما گاندھی کے ایک قول سے ہوئی تھی اور اب اختتام میں اسی نوعیت کے مدر تھریسا کے قول سے کرتا ہوں کہ ‘’ گزشتہ کل گزرچکا۔ آئندہ کل ابھی نہیں آیا۔ ہمارے پاس صرف آج ہے۔ آئیے شروع ہوجائیں۔’’

شائع کردہ 16 October 2012