تقریر

سزائے موت کے خلاف عالمی دن: بیرونس جوائس اینلے کا بیان

وزیر برائے انسانی حقوق بیرونس جوائس اینلے کی آسٹریلیا ہاوس میں ہونے والی تقریب میں تقریر

World day against the death penalty

بیرون ملک ہمارے ان دوستوں کےلئے جو سزائے موت کے خاتمے پر غور کررہے ہیں،میرا یہ پیغام ہے کہ 1964ء سے لے کر اب تک، جب برطانیہ میں آخری بارسزائے موت پرعملدرآمد ہوا تھا اورمانچسٹراورلورپول میں شب غم کے بعد صبح اداسی کی فضا طاری تھی، دوبارہ سزائے موت کی مخالفت میں ہمارا سیاسی اتفاق مستحکم رہا ہے۔

جب میں نے دوسال پہلےعالمی دن پر تقریر کی تھی تو ایک ہی نسل میں اس کے خاتمےکے لئے آثار روشن تھے۔ عملدرآمد پر عمل میں کمی کا رحجان واضح تھا اور نئی صدی کے آغاز پربھی یہ قائم رہا۔ اس سال اقوام متحدہ میں اراکین کی ایک بے مثال تعداد نے سزائے موت کی معطلی کے لئے ووٹ دیا تھا۔

لیکن افسوس اس کے بعد سے تمام پیش رفت مثبت نہیں رہی۔ پاکستان میں ایک طویل معطلی کے بعد عملدرآمد کا دوبارہ شروع ہوجانا خاص طور پرمایوس کن ہے۔ کئی انفرادی کیسوں میں جومعیار برتا گیا ہے وہ بدستور تشویش کا سبب بنا ہوا ہے۔ آج مجھے پاکستان میں امداد علی کی سزائے موت پرعنقریب عملدرآمد پرتشویش ہے؛ وہ شخص جس کے وکیل کہتے ہیں کہ سنگین ذہنی بیماری کے مسائل کا شکار ہے۔ مجھے یہ سن کر تشویش ہوئی تھی کہ غزہ میں گزشتہ ہفتے سزائے موت کے دو احکامات جاری ہوئے ہیں۔ یہ سزائے اموات اس سال کے آغاز سےغزہ میں سزائے موت کے استعمال کے بڑھتے ہوئے تشویشناک رحجان میں اضافہ ہیں۔ مجھے دنیا میں دوسرے افراد کے بارے میں بھی تشویش ہے جیسے مایتسوموٹو کینجی جسے جاپان میں سزائے موت دی جارہی ہے ؛ اس کے وکیل کہتے ہیں کہ پیدائش کے موقع پر ہی اس کے دماغ کو نقصان پہنچ چکا تھا۔ یہ بات ہمیشہ حیران کن ہےکہ سزائے موت ان لوگوں کو غیر متناسب طور پر دی جاتی ہےجو شاید یہ بھی نہیں سمجھتے کہ انہوں نے کس بات کا اعتراف کرلیا ہے۔

چین، ایران، پاکستان اورسعودی عرب اب دنیا بھر میں دی جانے والی سزائے اموات پرعملدرآمد کے 95 فی صد کے ذمے دار ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں قانونی ہلاکتوں سے اقوام متحدہ کے متعین کردہ معیاریقیناپورے نہیں ہوتے۔ جو ملک سزائے موت پرعملدرآمد کے بدستورقائل ہیں انہیں قانونی طریقہ کار کے اعلی ترین معیار برقراررکھنے چاہئیں اوراس خوفناک اورناقابل واپسی سزاکے استعمال کے باب میں بہت احتیاط کرنا چاہئیے۔ یہ صحیح نہیں کہ چین اور ایران میں متعدد سزائے اموات پر عملدرآمد میں رازداری برتی گئی ہے اور سزائے موت ایسے کیسوں میں دی گئی ہے جو اقوام متحدہ کے متعینہ معیار ‘ بے حد سنگین’ کے مطابق کیس نہیں تھے۔ یہ بڑی ہراسانی کی بات ہے کہ ہم جنس پرستی ایران میِں سنگین جرم ہے۔ یہاں موجود آپ میں سے کئی افراد کی طرح میں بھی اس خبر کو سن کر خوفزدہ ہوگئی تھی جب سعودی عرب میں اس سال کے شروع میں 47 افراد کو سزائے موت دی گئی اوراس پرعملدرآمد سے شیعہ اقلیت کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا۔ آج جب میں سزائے موت کی مذمت کررہی ہوں جو کہ میں روز ہی کرتی ہوں تو میں ان افراد کی اذیت کو چھوٹا نہیں کررہی جو پر تشدد جرائم کا شکار ہوئے یا اس تکلیف کو کم نہیں سمجھ رہی جو دہشت گردی اور تشدد سے معاشروں میں پیدا ہوتی ہے۔ ہم سب پشاور میں اسکول کے بچوں کےقتل عام پرپاکستان کے دکھ میں شریک تھے۔ ہمیں ٹوکیو میں سارین گیس کا بے معنی حملہ یاد آتا ہے تو دہشت طاری ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے ذمے داروں کو سزائے موت دینے سے کوئی حل نہیں نکلتا۔ دنیامیں ہم جو دہشت گردی پر اکسانے والا دیوانہ نظریہ پھیلا ہوا دیکھ رہے ہیں وہ سزائے موت سے مزید ابھرتا ہے۔ جب ریاستیں سزائے موت پرعملدرآمد کرتی ہیں تو دہشت گرد اس عمل کے ظالمانہ پن کو نفرت پیدا کرنے اور دہشت گردوں کی اگلی نسل کی بھرتی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

جہاں چند ملکوں میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں وہیں مجھے بدستورامید ہے کہ قانونی ہلاکتوں سے پاک دنیا کی طرف ہماری پیش رفت جاری ہے۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ کے رکن 194 ملکوں میں سے 169 ریاستوں میں کوئی سزائے موت نہیں دی گئی۔ فجی، گنی، مدغاسکر، منگولیا ، جمہوریہ کانگو اورسرینام نے پچھلے سال سزاِئے موت ختم کردی ہے۔۔ یورپ میں گزشتہ سال سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوا، نہ ہی امریکا کی چھ ریاستوں کے علاوہ کسی اور ریاست میں۔ پورے افریقہ میں 100 سے بھی کم واقعات ہوئے جہاں کئی ریاستوں نے طویل المدت معطلی اختیارکررکھی ہے اوراس کے خاتمے پر غور کررہے ہیں۔ ہم ایسی صورتحال میں ہیں کہ سزائے موت ایک استثنا ہے، معمول نہیں۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ جاپان کی فیڈریشن آف بار ایسوی ایشن نے پچھلے ہفتے سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ حکومت جاپان ان کی بات سنے گی۔

میں سمجھتی ہوں کہ وہ چند ملک جو سزائے موت کو اپنے دستور میں برقرار رکھے ہوئے ہیں وہ جرائم کے خوف سے ایسا کررہے ہیں ۔ میں ان کے نقطہ نظر کا احترام کرتی ہوں لیکن یہ نقطہ نظر غلط ہے۔ میں ان کو قائل کرنے کی کوشش جاری رکھونگی اورکبھی مایوس نہیں ہونگی۔

مزید معلومات

بیرونس جوائس اینلے ٹوئٹر پر@جوائس اینلے وزارت خارجہ ٹوئٹرپر @وزارت خارجہ

وزارت خارجہ فیس بک اور گوگل+ انسٹا گرام, یوٹیوب and لنکڈان

وزارت خارجہ اردوٹوئٹریوکےاردو

وزارت خارجہ اردو فیس بک

اردوویب سائٹ

Media enquiries

For journalists

ای میل newsdesk@fco.gov.uk

شائع کردہ 14 October 2016