کیس اسٹڈی

پاکستان: محفوظ پیدائش

کمیونٹی مڈوائفس کی تربیت جو برطانیہ کے تعاون سے ہوتی ہے، ماؤں کے لئے بچوں کی محفوظ پیدائش اورنوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال ممکن بناتی ہے.

Kulsoom Zara, a community midwife helps women in her village through their pregnancy and childbirth. Picture: Victoria Francis/DFID

Kulsoom Zara, a community midwife helps women in her village through their pregnancy and childbirth. Picture: Victoria Francis/DFID

کلثوم زارا،ایک 28 سالہ خاتون جن کا تعلق شمالی پنجاب کےعلی پورچٹھہ نامی دیہات سے ہے، ایک کمیونٹی مڈوائف ہیں جنہیں حکومت پاکستان نے برطانیہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کے تعاون سے تربیت دی ہے۔ وہ اپنی کمیونٹی کی خواتین کی حمل کے دوران اوربچے کی پیدائش کے وقت اپنے ایک کمرے کے کلینک سے مدد فراہم کرتی ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں عورتوں کی اکثریت گھروں میں بغیر کسی ماہر کے بچوں کو جنم دیتی ہیں، کلثوم جیسی مہارت کی اشد ضرورت ہے.

ماؤں اوربچوں کے لئے جان بچانےکے مواقع میں بہتری

برطانیہ 12000 کمیونٹی مڈوائفس کی 2015ء تک تربیت اورتعنیاتی میں پاکستانی حکومت کی مددکررہاہے جس میں سے 6000 اس شعبے میں پہلے ہی کام شروع کر چکی ہیں۔اس کا مقصد زچگی کے دوران ہزاروں ماؤں کی اموات کو بچانا ہے۔ برطانیہ نے 2009ء سے اب تک 86 مڈوائف تربیتی مراکز قائم کئے ہیں۔.

دنیا بھرمیں دوران زچگی ہونے والی سب سے زیادہ اموات میں پاکستان کانمبر چوتھا ہے جہاں5سال سے کم عمر 352000 بچے ہر سال فوت ہوجاتے ہیں۔ کلثوم کی اپنی ماں حمل کے دوران پیچیدگیوں کی وجہ سے وفات پاگئی تھیں.

“میری ماں کا انتقال اس لئے ہوا کہ ہمارے دیہات میں اس وقت طبی دیکھ بھال کا باقاعدہ انتظام نہیں تھا اور ہماری رہنمائی کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ میرے والدنے ہماری پرورش کے لئے واقعی بڑی محنت کی جس میں ان کو خاندان سے بھی خاصاتعاون ملا۔ان کی تعلیم باقاعدہ نہیں ہوسکی تھی لیکن انہوں نے ہماری تعلیم کی حوصلہ افزائی اوراسے جاری رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی.”

اورکلثوم نے انہیں مایوس نہیں کیا۔اس نے میٹرک کرنے کے بعد ہومیوپیتھک میں چارسالہ ڈپلوما بھی حاصل کرلیا۔

Community mid-wives in training. The UK has helped to build 86 midwife training centres since 2009. Picture: Victoria Francis/DFID

Community mid-wives in training. The UK has helped to build 86 midwife training centres since 2009. Picture: Victoria Francis/DFID

میڈیکل کے پیشے میں طلبی

“مجھے ہمیشہ سے میڈیسن سے دلچسپی تھی، خاص طورپرماؤں اور بچوں کی بہتر دیکھ بھال سے، کیونکہ میری اپنی ماں اور خالہ ماہرانہ دیکھ بھال میں کمی کی وجہ سے انتقال کر گئی تھیں۔ لیکن میں آمدنی کی قلت کی وجہ سے مزید تعلیم حاصل نہ کرسکی تھی۔ تب مجھے کمیونٹی مڈوائف تربیت پروگرام کا علم ہوا اور میں نے فورا اس موقع سے فائدہ اٹھانے کافیصلہ کرلیا.”

برطانیہ کے تعاون سے ان کمیونٹی مڈوائفس کوتربیت کے دوران 3500 روپئے تنخواہ ملتی ہے۔ اپنی تعیناتی کے پہلے دوسال میں انہیں 2000 روپئے ماہانہ وظیفہ ملتا ہے تاکہ کلینک سے ہونے والی ابتدائی آمدنی کی کمی کوپورا کیا جاسکے.

چھوٹے پیمانے سے ابتدا

“جب میں نے کام شروع کیا تورسپانس اچھا نہیں تھا۔ لوگوں کو اعتماد نہیں تھا وہ سمجھتے تھے کہ میں ابھی زیر تعلیم ہوں اور زیادہ نہیں جانتی جبکہ میں نے ساری زندگی اسی دیہات میں گزاری تھی۔ مجھے گھر گھر جاکے خود کو متعارف کرانا پڑا اور بتانا پڑا کہ میں ان کی مدد کرسکتی ہوں تب لوگ آنا شروع ہوئے.”

جب میں نے کام شروع کیا تورسپانس اچھا نہیں تھا۔ لوگوں کو اعتماد نہیں تھا وہ سمجھتے تھے کہ میں ابھی زیر تعلیم ہوں اور زیادہ نہیں جانتی جبکہ میں نے ساری زندگی اسی دیہات میں گزاری تھی۔ مجھے گھر گھر جاکے خود کو متعارف کرانا پڑا اور بتانا پڑا کہ میں ان کی مدد کرسکتی ہوں تب لوگ آنا شروع ہوئے.

’’ میں ہر ماہ اوسطا 5 خواتین کو زچگی میں مددیتی ہوں۔۔ ان میں سے اکثر حمل کے دوران باقاعدگی سے میرے پاس آتی ہیں۔ باقی یہاں چیک اپ کراکے دیہی طبی یونٹس میں جانا یا نجی اسپتالوں میں زچگی کرانا پسند کرتی ہیں .”

کلثوم مہینے میں اتنا کمالیتی ہیں کہ اپنے کلینک کو دواؤں سے دوبارا پر کردیں،وہ چلتا رہے اور وہ اپنا کام پورے شوق سے کرتی رہیں.

“کچھ عورتیں مجھے بالکل معاوضہ نہیں دے پاتیں جبکہ دوسری خواتین 500 سے 1000 روپے اداکردیتی ہیں لیکن اس نازک مرحلے پران کی مدد کرکے مجھے بڑی تسکین ملتی ہے.”

شائع کردہ 2 December 2013