مخدوش ممالک-ایران- تازہ ترین جائزہ: 30 ستمبر2014ء
Updated 21 January 2015
ایران میں جولائی اورستمبر 2014ءکے درمیان انسانی حقوق کی صورتحال میں بہت کم تبدیلی آئی۔ وہاں سزائے موت کے وسیع استعمال؛ مذہب یا عقیدے کی آزادی یا آزادئی اظہار اورصحافیوں، انسانی حقوق کے حامیوں، خواتین اور قیدیوں کے حقوق پر پابندیاں بدستور جاری ہیں۔البتہ گزشتہ تین ماہ میں انسانی حقوق کے امور کے بارے میں خاص طورپرویب سائٹس کو فلٹر کرنےاورصنفی علیحدگی کے باب میں جن کا محرک کئی بڑے کیس بنے ہیں عوامی مباحث میں اضافہ ہوا ہے۔اگرچہ اس سے ایران میں انسانی حقوق کی صورتحالمیں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی،کئی ایرانی سیاستدان،جیسے کہ وزیر برائے مواصلات اوراطلاعات محمود واعظی نےمزید آزادئی اظہارکی،خاص طورپرالیکٹرانک میڈیا کے باب میں، حمایت کی ہے۔
سوشل میڈیا فلٹرنگ پربحث حالیہ مہنیوں میں جاری رہی ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل حجت اللہ غلام حسین محسنی ایژائی نے ایک اطلاع کے مطابق وزارت مواصلات کو اکتوبر تک کا وقت دیا کہ وہ وائبر، واٹس ایپ اور ٹینگو کو فلٹرکرے اوراس کی ‘’ معلومات کی موثر طریقے سے نگرانی’’ کرے۔ پراسیکیوٹر جنرل کی جانب سے ایک خط میں وزارت مواصلات واطلاعات سے درخواست کی گئی کہ نظام مخالف پروپیگنڈے پرمشتمل’’ وسیع مواد’’ خاص طورپر ‘امام خمینی کی توہین’ کی وجہ سے ویب سائٹس اورایپس کو فلٹر کیاجائے۔ رپورٹوں سے معلومہوتا ہے کہ یہ تبصرے ان 11 افراد کی گرفتاری کے بعد ہوئے جن پر وائبراور دوسرے سماجی نیٹ ورکس پر 22ستمبر کو امام خمینی کی توہین کا الزام تھا۔ فارس صوبے میں ایرانی محافظین انقلاب کور کے ایک کمانڈر نے کہا کہ افراد نے ‘’ اپنے جرم کااعتراف کیا ہے اورکہا ہے کہ غیرملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے دھوکا دہی کے ذریعےیہ کروایا۔’’
البتہ ایران کے پولیس چیف جنرل احمدی مقدم نے کہا ہے کہ وہ سماجی نیٹ ورکس کی فلٹرنگ کی حمایت نہیں کرتے اور ان کا ماننا ہے کہ ‘‘مواصلات کے دورمیں’’ فیس بک، واٹس ایپ اوروائبرکااستعمال ناگزیرہے۔ البتہ انہوں نے زوردیا کہ ان مواصلاتی ذرائع کے استعمال میں تحفظ اورسلامتی امورکو پیش نظررکھنا چاہئیے۔ 30 ستمبر کو یہ خبر آئی کہ ایران کا پہلا اپنا تیار کردہ ‘’ اسمارٹ فلٹرنگ سافٹ وئیر’’ سماجی میڈیا مواصلات کے ساتھ استعمال کے لئے آگیا ہے جو دعوے کے مطابق غیرمناسب مواد کو سنسرکرے گا اورڈومین کھلی رہے گی۔
ایران میں سزائے موت پر عملدرآمد کی تعدادبدستور سنگین خدشے کا باعث ہے۔ تمام کیسوں کی سرکاری خبر بھی جاری نہیں کی جاتی، لہذا جولائی اورستمبر کے درمیان ہونے والی پھانسیوں کی صحیح تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔البتہ کئی قابل ذکرپھانسیوں پر ایران اور بین الاقوامی سطح پر تنقید ہوئی ہے۔24 ستمبر کو ایک 37 سالہ شخص کو ‘‘فساد فی الارض اور دین میں اختراع اور پیغمبر حضرت یونسؑ کی توہین ‘’ کے جرم میں پھانسی دے دی گئی۔ 2006ء میں اس کی گرفتاری سے پہلے وہ نجی طور پر مذہبی تعلیم پر مبنی مشاورت فراہم کیا کرتا تھاجس میں وہ قران کی مختلف تفاسیر بیان کرتا تھا۔ایک ریکارڈکئے گئے سیشن میں اس نے کہا کہ حضرت یونسؑ کاقصہ کہ انہیں وہیل مچھلی نے نگل لیا تھا اوروہ اس کے اندر کئی سال رہے، محض دیومالائی کہانی ہے( نعوذباللہ)۔ اسے ابتدائی طور پردو سال قید کی سزا ملی جسے بعدمیں سزائے موت میں تبدیل کردیا گیا۔
صنفی علیحدگی پرگزشتہ تین ماہ میں ایران میں بہت بحث ہوتی رہی ہے۔ 29 جولائی کومئیر تہران کے نام ایک خط میں،نائب وزیر برائے کوآپریٹوز، لیبراینڈ ویلفئیرنے ایک حکمنامہ منسوخ کیا جو انہی دنوں پاس کیا گیا تھا کہ تہران میونسپل ملازمین میں صنفی علیحدگی کی جائے۔ نائب وزیر نے لکھا کہ ملازمیں کو صنفی بنیاد پرعلیحدہ رکھنا اس عالمی کنونشن کی خلاف ورزی ہوگی جس پرایران نے دستخط کررکھے ہیں اورجس میں ملازمت اور پیشے کا امتیازمخالف کنونشن بھی شامل ہے۔ 30 ستمبر تک تہران میونسپلٹی میں صنفی علیحدگی کا حکمنامہ نافذنہیں کیا گیا تھا۔
ایک کیس جسے میڈیا میں کافی شہرت ملی ،ایک برطانوی ایرانی خاتون کاہے جو 20 جون کو تہران میں گرفتار ہوئی،الزام یہ تھا کہ وہ ایران کا اٹلی کے خلاف قومی فٹ بال مردانہ میچ دیکھنے کے لئے اسپورٹس اسٹیڈیم میں داخل ہوگئ تھی۔ایران میں عورتوں پر مردوں کے کھیلوں کے میچ دیکھنا ممنوع ہے۔ وہ اپنی گرفتاری کے اسی روزرہا بھی کردی گئی تھی لیکن جب وہ 30 جون کو اپناسامان لینے پولیس اسٹیشن گئی تو اسے دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اوراسے ایون جیل میں بند کردیا گیا جہاں اسے دو ماہ تک بغیر جرم عائد کئےقید تنہائی میں رکھا گیا۔ اس کے بعد اس پر’’ اسلامی نظام کے خلاف پروپیگنڈا’’ کا الزام عائد کیا گیا۔
ایک اورہائی پروفائل نظر بندی کیس جیسن رضائیان کا ہے جو امریکی ایرانی دہری شہریت کا حامل صحافی ہے اور واشنگٹن پوسٹ کے لئے کام کرتا ہے، اسے تہران میں 22 جولائی کو اس کی بیوی اور ایک اور جوڑے کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ اس پرکیاالزامات ہیں اوراس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اسے وکیل تک رسائی نہیں دی گئ ہے۔
عید الفظر کے موقع پر روایتی عام معافی کے تحت سپریم لیڈر نے کئی قیدیوں کے لئے سزاؤں میں کمی اور جلد پیرول پر رضامندی ظاہر کی۔ لیکن یہ کمی قومی سلامتی یا پروپیگنڈا جرائم میں گرفتار لوگوں پر لاگو نہیں ہوتی اورانہی دو الزامات کے تحت ایران میں بیشتر لوگ نظر بند ہیں۔
کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ مذہب یا عقائد کی آزادی ایران میں بہتر ہورہی ہے۔ مثلا سابق صدر اور ایکسپیڈئینسی کونسل کے چئیر مین اکبر ہاشمی رفسنجانی نے ایرانی سنی مسلم رہنماؤں کو ایک میٹنگ میں بتایا کہ ایران میں ان کے حقوق محفوظ ہیں۔ البتہ حقیقی تبدیلی بہت کم ہی نظر آئی ہے۔ مئی میں شیرازمیں ایک بہائی قبرستان کی تباہی کو عالمی دباؤ کے بعد روک دیا گیا تھا،اگست میں کام دوبارہ شروع ہوا اور اب 30 ستمبر تک جاری ہے۔
گنابادی( صوفی مسلمان) فرقے کے430 افراد کو 21 ستمبر کو تہران پراسیکیوٹر آفس کے سامنے ستمبر میں ایک احتجاج کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔اطلاعات کے مطابق پولیس نے احتجاج کرنے والوں کو گھیرے میں لے لیا،ان پرآنسو گیس پھینکی گئی اور ڈنڈوں سے مارا گیا۔ اطلاعات ہیں کہ150 سے زائد گنا بادی مجروح ہوئے جن میں ایک نوماہ کابچہ بھی تھا۔ ایک ہفتے بعد 2000 گنابادی وزارت انصاف کے سامنے اکھٹا ہوئے۔ ایک گھنٹے بعد ایک وزارت انصاف کے نمائندے نے ان میں سے چند کو عمارت کے اندربات چیت کے لئے بلایا۔ کہا جاتا ہے کہ وزارت نےگنابادیوں کے خدشات کو عدلیہ کے چیف اور مجلس اسپیکرکے سامنے پیش کرنے کا وعدہ کیا۔