مخدوش ممالک-ایران- تازہ ترین جائزہ: 30 جون 2014ء
Updated 21 January 2015
ایران میں اپریل اورجون 2014ء کے درمیان انسانی حقوق کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔اب بھی واضح اداراتی مسائل برقرار ہیں، جن میں اقلیتی مذہبی اور نسلی گروپس، صحافی اورانسانی حقوق کے دافعین، قیدی اورخواتین شامل ہیں۔
ایران میں سزائے موت کی تعداد مسلسل تشویش کا باعث ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یکم اپریل سے 30جون 2014ء کے درمیان کم ازکم 120 افراد کو سزائے موت دی جاچکی ہے، جو زیادہ ترمنشیات کے جرم میں دی گئی۔ تاہم اس وقت ایران میں سزائے موت پرخاصی داخلی بحث شروع ہوگئی جب 15 اپریل کو ایک شخص کو جو قتل کے الزام میں سزاپاچکا تھا، مقتول کی ماں نے پھانسی دئیے جانے سے چند سیکنڈ پہلے معاف کردیا۔ اس رحم دلی کی مثال نے سزائے موت کو ایک حتمی سزا کے طور پراجاگر کردیا کیونکہ اگرمعافی میں چند منٹ کی تاخیر ہوجاتی تو یہ ناقابل تلافی ہوجاتا۔
ایران میں جیلوں کی صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ایرانی میڈیا میں یہ خبریں تھیں کہ17 اپریل کو ایون جیل کے وارڈ 350 میں کئی سیاسی قیدیوں کو محافظو ں نےبری طرح مارا پیٹا، ہراساں کیا، برہنہ کردیا اورعصمت دری کی دھمکیاں دیں اور اس کے بعد قید تنہائی میں ڈال دیا گیا ۔ایرانی افسروں نے اس واقعے کو دبادیا اورکہا کہ صرف ایک دو قیدی ہی ہلکےزخمی ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے وارڈ کی معمول کی تلاشی کے دوران مزاحمت کی تھی۔البتہ قیدیوں کے اہل خانہ کے قریبی ذرائع کےمطابق چار قیدیوں کوحملے کے بعدجیل سے باہر ہاسپٹل لے جایا گیا،کئی کو جیل کے اندر ڈسپنسری میں طبی امداد دی گئی اور کم ازکم32 کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔
گزشتہ سہ ماہی میں آزادئی اظہار اورسوشل میڈیا کےذرائع جیسے واٹس ایپ وغیرہ کی چھان بین کے بارے میں داخلی طور پر زوردار بحث ہوتی رہی ہے۔اپریلمیں یہ اعلان کیا گیاکہ واٹس ایپ کی چھان بین کو ورکنگ گروپ فار ڈیٹرمننگ کرمنل کانٹینٹ نے منظوری دے دی ہے۔ تاہم مئی میں ایرانی وزیر برائے مواصلات و انفارمیشن ٹیکنالوجی محمود واعظی نے کہا کہ صدر حسن روحانی نے واٹس ایپ کے بند کئے جانے کو معطل کرنے کے لئے حکم جاری کیا ہے۔جون کے آخر تک واٹس ایپ کی ایران میں کوئی چھان بین نہیں کی گئی ہے۔
صدر حسن روحانی نے آزادئی اظہار کے بارے میں اپریل میں ایران کے 27 ویں کتاب میلے میں بات کی اور تقریر کی وسیع تر آزادی پر زور دیا،انہوں نے کہا کہ مصنفوں کو ‘’ ہر قسم کی پابندی اور سنسر کے خطرے سے آزاد ہونا چاہئیے’‘،اور یہ بھی کہ ،’’ قانون اور حکومت کو مصنفوں اور ثقافتی تخلیق کاروں کے مقام اور وقار کی حمایت اور تحفظ کرنا چاہئیے۔’’
انہوں نے مئی میں جدید مواصلات،سوشل میڈیا اور سیٹلائٹ ٹیلی ویژن کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے انٹرنیٹ تک رسائی پرزوردیتے ہوئے کہا، ‘‘ہم تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا سے ورلڈ وائیڈ ویب رابطہ ہر شہری کا حق ہے۔’’ انہوں نے ایرانی نوجوانوں کو ‘‘نیٹ پر ایرانی اسلامی تشخص کو پھیلادیں’’ کا پیغام دیا۔
البتہ عملا اب بھی آزادی اظہار کی راہ میں واضح رکاوٹیں حائل ہیں۔ مئی میں نوجوان ایرانیوں کو، یوٹیوب پرایک وڈیو لگانے پرجس میں وہ چھت پر فیرل ولیم کے گانے’‘ہیپی’’ پر رقص کررہے تھے، گرفتار کرلیا گیا۔ اس پرعالمی طور سے کافی شور ہوا، خود فیرل ولیم نے ٹوئیٹ میں اس گرفتاری پراپنے دکھ کا اظہار کیا۔انہیں اس لئے گرفتار کیا گیا کہ وڈیو میں نوجوان مردوں اور عورتوں کو ساتھ رقص کرتے دکھایا گیا تھا اورعورتوں کے سر ڈھکے ہوئے نہیں تھے۔ انہیں ایک روز بعد رہا کردیا گیا لیکن وڈیو کا ڈائریکٹر اب بھی زیر حراست ہے۔
ایرانی داخلی سیاست میں حجاب کا مسئلہ گزشتہ سہ ماہی میں کافی نمایاں رہا۔ مئی میں ایک فیس بک صفحے ‘’ میری چوری شدہ آزادی’’ کا آغاز کیا گیا جو ایک ممتازانسانی حقوق کارکن مسیح علی نژاد نے سیٹ کیا ہےجس میں ایران کی خواتین عوامی مقامات پر بغیر حجاب کے اپنی تصاویر لگاتی ہیں۔ یہ صفحہ ایران کی خواتین میں بےحد مقبول ہوگیا اور ہزاروں تصاویراس پر لگ گئیں۔چند ہفتے بعد ایران میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ مسیح علی نژاد پر حملہ ہوا اور ان کے چھوٹے بیٹے کے سامنے لندن کی ایک سڑک پران کی عصمت دری کی گئی۔ یہ دعوا کیا گیا کہ حملہ ان کے حجاب نہ پہننے کی وجہ سے کیا گیا۔البتہ ان خاتون نے حملے کا انکار کیا۔
آزادئی مذہب اور عقیدے کی خلاف ورزی کی اعلی سطحی مثالیں بھی اس سہ ماہی میں سامنے آئی ہیں۔ دو اہوازی عرب کسانوں اور ثقافتی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو جون میں محاربہ(اللہ سے دشمنی) کے الزام میں سزا دی گئی۔انہیں نومبر 2012ءمیں گرفتار کیا گیا تھا اور ان سے حراست کے دوران شدید بد سلوکی کی گئی اور مارا گیا۔ ان اطلاعات پر بھی گہری تشویش پائی گئی کہ انہیں داخلی اور عالمی معیار کی منصفانہ سماعت کے بغیرہی سزا سنادی گئی۔ اپریل کے آخر میں ایک بہائی قبرستان کی بے حرمتی کی گئی۔