تقریر

انتہا پسندی کے لئے برطانیہ کی نئی حکمت عملی تیار ہے

انتہا پسندی کی شکست کے لئے ایک نئی شراکت داری وجود میں آرہی ہے، سکریٹری داخلہ کی تقریرکا خلاصہ

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Home Secretary

گزشتہ اکتوبرمیں میں نےانتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے ایک بالکل نئی حکمت عملی کی تشکیل کے لئے کہا تھا۔ یہ حکمت عملی انتہا پسندی کے مکمل تناظر- پرتشدداورغیرمتشدد، نظریاتی اورغیرنظریاتی، اسلامی اورنیو نازی، نفرت اورخوف کی تمام اشکال - سے نمٹنے کے لئے ہے۔ ہماری نئی حکمت عملی کی بنیادبرطانوی اقدار کا فخریہ فروغ ہے۔

یہ اقدار ہمیں متحد رکھتی ہیں۔ان کے تحت اس ملک کاہر باشندہ برابراورہرشخص اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے آزاد ہے۔ برطانویوں کی غالب اکثریت ان اقدارکو قبول کرتی اورانہیں عزیزرکھتی ہے۔ لیکن اس بات کے بڑھتے ہوئے شواہد مل رہے ہیں کہ ایک چھوٹی سی لیکن خاصی تعداد جو تقریبا سب ہی برطانوی شہری ہیں اور برطانیہ میں رہتے ہیں، لیکن ہماری اقدار کو مستردکرتی ہے۔اس کی ایک مثال برمنگھم میں ٹروجن ہارس منصوبہ ہے۔اس کے علاوہ، یونی ورسٹیوں میں لڑکیوں اور لڑکوں میں علیحدگی، عورتوں کے خلاف امتیاز کے لئے شریعہ قانون کا استعمال، سال میں ‘عزت کے نام پر’ بے شمارقتل اورکئی سو برطانوی شہریوں کا جنگ میں شرکت کے لئے شام اورعراق کا سفر شامل ہے۔

ہرسال منافرت پر مبنی جرائم بڑھتے جارہے ہیں۔ گزشتہ سال یہودیوں کے خلاف واقعات کی تعداددگنی ہوکے 1,168 ہوگئی اور مسلم مخالف واقعات ہرسال سینکڑوں کی تعداد میں ہورہے ہیں۔

ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ انتہا پسندی کئی اشکال اختیار کئے ہوئے ہے۔ یہ نظریاتی ہوسکتی ہے یا سماجی اورثقافتی روایات ہوسکتی ہیں جو برطانوی اقدار کے متضادہیں اوربالکل ناقابل قبول ہیں۔ ہم ہمیشہ اس معاملے میں واضح رہے ہیں کہ حکومت کی انسدادانتہاپسندی حکمت عملی کو ہرقسم کی انتہاپسندی کو شکست دینے کا اہل ہونا چاہئیے لیکن شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ انتہا پسندی کی سب سے سنگین اورپھیلی ہوئی شکل اسلامی انتہاپسندی ہے۔

اسلامی انتہا پسندی تہذیبوں کے تصادم میں یقین رکھتی ہے۔ وہ اسلامی اورمغربی اقدارمیں ایک بنیادی عدم مطابقت کو فروغ دیتے ہیں ، ‘ وہ’ اور ‘ہم ‘ کی ناگزیر تقسیم کا پرچار کرتے ہیں۔ وہ خلافت، یا نئی اسلامی ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں جو شریعہ قانون کی درشت تشریح کے تحت کام کرے۔

لیکن ہمیں ہمیشہ اسلام – جو ایک بڑا مذہب ہے اور جس کے ایک بلین ماننے والے مسلمانوں کی اکثریت امن سے رہتی ہےاوراسلامی انتہا پسندی میں تمیز کرنے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ اسلام برطانوی اقداراور ہماری قومی طرز زندگی کے عین مطابق ہے جبکہ اسلامی انتہا پسندی ایسی نہیں ہے اور اس کے مقابلے کے لئے ہمیں کسی بھی مصلحت سے کام نہیں لینا چاہئیے۔

چونکہ انتہا پسندی کوئی ایسی چیز نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جاسکے۔ اس کا دوبدومقابلہ ضروری ہے۔ کیونکہ جہاں انتہاپسندی جڑیں پکڑ لیتی ہے وہاں نتیجہ ظاہر ہے۔ خواتین کے حقوق ختم ہوجاتے ہیں۔ نسل اور صنف کی بنیاد پر تعصب برتا جاتا ہے۔ کمیونٹیز علیحدہ علیحدہ اور ایک دوسرے سے کٹ جاتی ہیں۔ عدم برداشت، منافرت اور نسل پرستی عام بات بن جاتی ہے۔ اعتماد کی جگہ خوف، یگانگت کی جگہ حسداوریکجہتی کی جگہ تقسیم لے لیتی ہے۔

لیکن انتہاپسندی سے نمٹنا بھی اہم ہے کیونکہ یہ دہشت گردی سے جڑی ہوئی ہے۔انتہا پسندی کی ہر قسم میں تشدد نہیں ہوتا اور نہ ہی تمام انتہا پسند متشدد ہوتے ہیں، لیکن انتہاپسندی بلاشبہ نفرت اوربرتری کا احساس پیداکرتی ہے۔ میں جانتی ہوں کہ کچھ لوگ مجھ سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کاکہنا ہے کہ جسے میں اسلامی انتہا پسندی کہتی ہوں وہ محض سماجی قدامت پرستی ہے۔ لیکن اگر کوئی اورعورتوں سے امتیازی سلوک کرے، لوگوں کی ان کے مذہبی عقائد کی بنا پرمذمت کرے، جمہوری عمل کی مخالفت کرے، لوگوں پران کی صنف کی وجہ سے حملہ کرے یا تشدد اوردہشت گردی پر سر ہلادے تو ہم اسے چیلنج کرنے میں کبھی نہیں ہچکچاتے یا اگر قانون شکنی ہوئی ہو تو ان کے خلاف مقدمے اور سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم مذہب یا مذہبی عقائدپرتنقید کرتے ہیں لیکن خودایک اینگلیکن ہونے کی حیثیت سے میں ان سے کہتی ہوں کہ ہم ایسا کچھ نہیں کرتے۔ اسلامی انتہاپسند کہتے ہیں کہ وہ اسلام کی خاطرایسا کرتے ہیں لیکن اسلام یا کسی اور بڑے مذہب میں انتہا پسندی کا کوئی جواز نہیں۔ قران کا فرمان ہے’‘اپنے مذہب میں انتہا کی طرف نہ جاؤ’’ اور ‘’ دین میں کوئی جبر نہیں’‘۔ یہودیوں اور مسیحیوں کا ماننا ہے کہ ‘‘اپنے پڑوسی سے ایسی ہی محبت کروجیسی خودسے کرتے ہو’‘۔ سکھوں کا عقیدہ ہے ‘‘میرا دشمن کوئی نہیں، کوئی اجنبی نہیں، میں سب کے ساتھ پرامن ہوں،’’ جبکہ ہندوشانتی منترسب کے ساتھ امن کا پرچار کرتا ہے کہ ‘‘سب کو خوشحالی نصیب ہو،اس دنیا میں کسی کو بھی دکھ نہ سہنا پڑے۔’’

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم انسدادانتہا پسندی حکمت عملی کی بنیاد برطانوی اقدار پراستوارنہیں کرسکتے کیونکہ ان اقدار کی توضیح کرنا بہت مشکل ہے۔ دوسرے کہتے ہیں کہ برطانوی اقدارکا فروغ تنگ نظری اورجارحانہ وطن پرستی ہے۔ لیکن برطانوی اقدارکھلی، مشمولی اورتکثیری ہیں۔ ہمیں ان کا فروغ اس لئے کرنا چاہئیے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ان کے ذریعے ایک کثیرالنسلی، کثیر الثقافتی اورکثیرالمذہبی معاشرہ پنپ سکتا ہے۔

اگر ہمیں برطانوی اقدارکو انسدادانتہاپسندی حکمت عملی کا مرکزی نکتہ بنانا ہے تو ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ برطانیہ میں رہنے والاہر فرد ایک تکثیری معاشرے کے اندراپنے حقوق اور ذمے داریوں کو بخوبی جانتا ہو۔ اس لئے ہم برطانوی اقدار کے فروغ کے لئے ایک مثبت مہم کا اجرا کریں گے۔

ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ریاست انتہا پسندی کی شکست میں بھرپورکرداراداکرے۔ خاص طور پر انتہا پسندی کے خلاف کام کرنے والے اداروں کی مزاحمت کو بہتراورانہیں انتہا پسندی سے لڑائی کے اختیارات دیں گے۔ پولیس فورسزکو مسلم مخالف اوراس کے ساتھ صیہونیت مخالف جرائم کو ریکارڈکرنے کےلئے کہاجائے گا۔ اورہم جیلوں میں انتہاپسند قیدیوں اورقیدی گروہوں سے نمٹنے کے لئے ایک نیا انتہاپسندی افسرتعینات کریں گے۔

ہم اپنے امیگریشن نظام کو بھی زیادہ سے زیادہ مستحکم بنانا چاہتے ہیں تاکہ غیر ملکی انتہا پسندوں کو جویہاں برطانیہ میں اسے نقصان پہنچارہے ہیں، روکاجاسکے۔ اس لئے ہم شہریت کے قانون پرمکمل نظرثانی کریں گےتاکہ یہ ضمانت دی جاسکے کہ کامیاب درخواست گزاربرطانوی اقدار کا احترام کریں گے۔

حکومت کا نیا انتہا پسندی تجزیہ یونٹ پہلےہی قائم اورسرگرم ہوچکا ہے اوراس حکمت عملی اوراس کےساتھ حکومت کی فیصلہ سازی، مثلا ویزادرخواستوں سے متعلق، معلومات بہم پہنچا رہا ہے۔ خاص طورپر، انتہا پسندی تجزیہ یونٹ ایک نئی رابطہ پالیسی کی تشکیل میں ہماری مدد کرے گا۔ یہ پالیسی پہلی باریہ واضح کرے گی کہ کن انفرادی لوگوں اورکن تنظیموں سے حکومت اورعوامی شعبے کو رابطہ رکھنا چاہئیے اورکن سے نہیں۔

کچھ امور ایسے ہیں جہاں- جیسے کہ شریعہ قانون کا اطلاق- ہمیں اتنا ضرورعلم ہے کہ ہمیں کہاں مسئلہ پیش آتا ہےلیکن مسئلے کی پوری نوعیت سے ہم اب تک واقف نہیں ہیں۔ مثال کے طورپریہ دیکھا گیا ہے کہ عورتوں کو شریعہ قانون کے تحت طلاق دے کے لاوارث چھوڑدیا جاتا ہے، بیویاں بدسلوکی کرنے والے شوہروں کے پاس جبرا واپس بھیجی جاتی ہیں کیونکہ شریعہ کونسلیں کہتی ہیں کہ شوہروں کو انہیں اصلاح کے لئے سزا دینے کا اختیارہے اورعورت کی گواہی کو شریعہ کونسل مرد کی گواہی کا نصف گردانتی ہے۔ اس لئے انگلینڈاورویلزمیں شریعہ قانون کے اطلاق کے بارےمیں مکمل تحقیق کے لئے ہم ایک خودمختارشخصیت کومتعین کریں گے۔

آج جس حکمت عملی کامیں نے ذکر کیا ہے اس کی تشکیل میں ہم نے ایک نئی شراکت داری کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا ہے، ایسی شراکت داری جس میں ہمارے ملک کا ہر وہ شخص اورتنظیم شامل ہوگی جو انتہاپسندوں کو شکست دینا چاہتے ہیں۔

یہ شراکت داری ہماری اقدار کااحترام کرنے والوں اورجہالت کو شکست دینے والوں کو بااختیار بنائے گی۔ یہ شراکت داری اس بات کی جیتی جاگتی گواہی ہوگی کہ ہم مل جل کر کیا کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔

لیکن جو لوگ اس نئی شراکت داری میں شامل نہیں ہونا چاہتے اورجو دانستہ ہماری اقدار اورہمارے معاشرے کے بنیادی اصولوں کو مسترد کرتے ہیں ان کے لئے پیغام اتنا ہی واضح ہے۔ ہم تمہارا رویہ مزید برداشت نہیں کریں گے۔ ہم تمہارے نفرت انگیز عقائدکی اصل حقیقت کو طشت ازبام کردیں گے۔ جب تم نفرت پھیلانے کی کوشش کروگے ہم اس میں رکاوٹ ڈال دیں گے۔ جہاں تم قانون توڑو گے ہم تم کو سزادیں گے۔ جہاں تم ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کرو گے ہم متحد رہیں گے۔ اور ہم مل جل کے تمہیں شکست دیں گے۔

مکمل تقریر ضرور پڑھئیے اگرچہ انگریزی میں ہے

شائع کردہ 23 March 2015